حضرت ابو طالب علیہ السلام، رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور امیر المومنین حضرت علیہ السلام
کے والد بزرگوار تھے۔ آپ جناب عبد المطلب(ع) کے وصی و جانشین اور رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بڑے حامی و مددگار تھے۔ آپ(ع) کی حیات
طیبہ آپ کے بے نظیر کارناموں سے بھری ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو درد مندوں اور
محروموں کی پناہ گاہ تھی۔ اخلاق و اخلاص آپ کے بابرکت وجود میں مجسم ہوگئے
تھے۔ ایک ایسا باقدرت انسان کہ تاریخ نے اس کے ثبات قدم ، استقامت اور فدا
کاری کو اس کے فرزند ارجمند حضرت علی- کے علاوہ کسی اور میں نہ دیکھا۔ سنی
عالم جناب ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ابو طالب- اور آپ کے پدر بزرگوار جناب
عبد المطلب(ع) قریش کے سردار اور مکۂ معظمہ کے سرور و امیر تھے اور آپ اس
شہر کے باشندے، مہاجرین، مسافرین اور بیت اللہ کے زائرین سب کی مہمان نوازی
اور رہنمائی فرماتے تھے۔ ﴿۱﴾
آپ ایک لمحہ بھی خدائے وحدہ لاشریک لہ سے غافل نہ تھے، بلکہ جناب ابراہیم-
کے جانشین تھے اور آپ انبیائے کرام کی پیشین گوئیوں کے مطابق خاتم الانبیا
ئ حضرت محمد (ص)بن عبد اللہ کی نبوت و رسالت کے منتظر تھے۔ اسی لئے آپ رسول
خدا کی ولادت باسعادت سے پہلے آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے تھے اور نبی کریم
کی ولادت باسعادت کے وقت جب آپ(ع) کی زوجہ جناب فاطمہ(ع) بنت اسد نے آپ(ع)
کو آنحضرت(ص) کی ولادت باسعادت اوراس وقت ظاہر ہونے والے عجیب و غریب
واقعات کی اطلاع دی تو آپ(ع) نے فرمایا: تم ان واقعات اور اس بابرکت مولود
کے بارے میں تعجب کررہی ہو؟ صبر کرو۔ تیس سال بعد تمہارے شکم سے بھی ایک
ایسا ہی بچہ پیدا ہوگاجو اس مولود کا وزیر، وصی اور جانشین ہوگا!! ﴿۲﴾
جناب ابو طالب ایک مومن اور موحد انسان تھے جنہوں نے زندگی کے آخری لمحات
تک نبی خدا کو کفار قریش کے شر سے محفوظ رکھا اور اسلام کی ترقی اور پیشرفت
میں سب سے زیادہ تعاون کیا۔
لیکن افسوس تو یہ ہے کہ آپ کی اتنی ساری فدا کاریوں اور قربانیوں کے باوجود
بعض کینہ پرور اور متعصب افراد آپ کی شان میں گستاخی اور سوئ ادب کرتے ہیں
اور آپ کے ایمان و اعتقاد کے بارے میں شک و تردید کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
یہاں پر جناب ابو طالب- کے فضائل، ایثار و فدا کاری کے چند اہم گوشوں پر
بطور اختصار نظر ڈالی جارہی ہے:
ولادت جناب ابو طالب-
حضرت ابو طالب- رسول خدا کی ولادت سے ۵۳/ سال پہلے اپنے والد گرامی جناب
عبد المطلب (ع)﴿شیبۃ الحمد﴾ ﴿۳﴾ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدۂ گرامی
جناب فاطمہ بنت عمرو بن عائذ بن مخزوم تھیں۔
جناب ابو طالب- کے اسم گرامی جیساکہ عرب کا رواج ہے کہ ہر شخص صاحب کنیت
ہوتا ہے اور یہ کنیت اس کے بڑے بیٹے کے نام سے بنائی جاتی ہے۔ اس طرح کہ
مرد کے لئے کلمہ ’’اب‘‘ اور عورت کے لئے کلمہ ’’ام‘‘ لگا کر۔ جناب ابو
طالب- کی کنیت آپ کے بڑے فرزند جناب طالب کے نام کے لحاظ سے ابو طالب تھی
لیکن آپ کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
الف: عبد مناف: بعض لوگوں کا خیال خام ہے کہ عبدمناف کے معنی ’’بندۂ بت‘‘
ہیں جیساکہ صاحب قاموس نے کہا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ’’ مناف‘‘ قریش
کے ایک بت کا نام تھا۔‘‘
لیکن اس عقیدہ کی بنا پرکہ اوصیائ و اولیائے خدا کے آبائ و اجداد بت پرستی
سے پاک و پاکیزہ تھے، یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جناب ابو
طالب کا نام ’’بندۂ بت‘‘ رکھا ہو۔ بالخصوص جبکہ صحاح اللغہ اور دیگر
علمائے لغت نے کہا ہے کہ کلمہ ’’نوف‘‘ فضیلت و بلندی کے معنی میں ہے۔ لہٰذا
عبد مناف یعنی عبد العالی یعنی بلند مرتبت ذات کا بندہ، نہ کہ بت کا بندہ۔
ب: آپ کا دوسرا نام عمران تھا اور قرآن کریم کے سورۂ آل عمران کی آپ ہی کی
طرف نسبت دی گئی ہے۔
جناب ابو طالب (ع)کے ایثار و فدا کاری کے چند نمونے
جب رسول خدا کی ولادت باسعادت ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار جناب عبد (ع)اللہ
اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ لہٰذا آپ(ص) کی کفالت آپ(ص) کے جد بزرگوار جناب
عبد المطلب(ع) نے اپنے ذمہ لی اور ابھی آپ(ص) کی عمر شریف ۷/ سال سے زیادہ
نہ ہوئی تھی کہ جناب عبد المطلب(ع) کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے وفات سے پہلے
اپنے فرزندوں کے درمیان جناب ابو طالب- کو رسول خدا کا کفیل اور سرپرست
معین کیا۔ جیساکہ تاریخ اسلام میں آیا ہے کہ ’’ابھی رسول خدا ۸/ سال کے تھے
کہ آپ کے جد جناب عبد المطلب(ع) کی وفات ہوگئی، آپ نے وفات کے دقت رسول خدا
کی کفالت ، سرپرستی اور حفاظت جناب ابو طالب- کے سپرد کی۔ ﴿۴﴾
جناب ابو طالب- نے جواب میں عرض کیا: بابا جان! محمد کے لئے کسی تاکید و
سفارش کی ضرورت نہیں اس لئے کہ وہ میرا اور میرے بھائی کا فرزند ہے ﴿جناب
ابو طالب اور جناب عبد اللہ ایک ہی ماں سے تھے﴾۔ ﴿۵﴾
جناب عبد المطلب کی وفات کے بعد جناب ابو طالب-، نبی کریم کو اپنے گھر لے
آئے باوجودیکہ آپ کے پاس مال و دولت نہ تھی اور آپ نادار تھے مگر آپ نے
آنحضرت(ص) کی بہترین سرپرستی اور پرورش کی۔
حضرت علی- فرماتے ہیں: میرے والد نے ناداری و غربت کے باوجود آپ(ص) کی
سروری و سرپرستی کی۔ آپ سے پہلے کسی بھی یتیم نے ایسی سروری و سرپرستی نہیں
پائی۔ ﴿۶﴾
جناب ابو طالب، رسول خدا سے اتنی زیادہ محبت و مودت کا اظہار فرماتے کہ
اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں کرتے تھے۔ آنحضرت(ص) کو اپنے پاس سلاتے
اور جب کہیں باہر جاتے تو انھیں بھی ساتھ لے جاتے اور آپ(ص) سے اس درجہ
محبت کرتے کہ کسی اور سے اتنی محبت نہ کرتے اور آپ(ص) کے لئے بہترین غذا کا
انتظام کرتے تھے۔ ﴿۷﴾
ابن عباس اور دیگر اصحاب کا بیان ہے کہ جناب ابو طالب- رسول خدا سے بے حد
محبت کرتے تھے اور آنحضرت(ص) کو اپنے بچوں سے زیادہ دوست رکھتے اور آپ کو
ان پر مقدم کرتے تھے۔ اسی لئے آنحضرت سے دور نہ سوتے اور جہاں بھی جاتے تو
آپ (ص) کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ﴿۸﴾
علامہ مجلسی(رح) نقل کرتے ہیں: جب رسول خدا اپنے بستر پر سوجاتے اورگھر کے
سارے افراد بھی سوجاتے تھے تو جناب ابو طالب- آپ(ص) کو آہستہ سے جگاتے اور
آنحضرت کو حضرت علی- کے بستر پر لٹاتے اور آپ(ع) کو نبی کریم کے بستر پر
سلاتے۔ جناب ابو طالب- اپنے فرزند اور بھائیوں کو رسول خدا کی حفاظت پر
لگاتے تھے۔ ﴿۹﴾
یعقوبی کا بیان ہے: رسول خدا سے مروی ہے کہ جناب ابو طالب (ع) کی زوجہ
محترمہ، جناب فاطمہ(ع) بنت اسد، جو ایک مسلمان اور عظیم المرتبت خاتون تھیں
ان کی وفات پر آپ(ص) نے فرمایا: ’’الیوم ماتت امی‘‘ آج میری ماں نے وفات
پائی ہے۔ اور آپ نے انہیں اپنے پیراہن کا کفن دیا اور قبر میں اترے۔ کچھ
دیر لحد میں سوئے۔ جب وہاں موجود لوگوں نے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا کہ
آپ(ص) جناب فاطمہ (ع)بنت اسد کی وفات پر کیوں اتنے مغموم و محزون ہیں؟ تو
آپ(ص) نے فرمایا: وہ واقعاً میری ماں تھیں اس لئے کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا
رکھ کر مجھے سیر کرتی تھیں۔ انہیں غبار آلود رہنے دیتی اور مجھے صاف ستھرا
اور پاکیزہ رکھتی تھیں وہ واقعاً میری ماں تھیں۔ ﴿۰۱﴾
جناب ابو طالب-، رسول خدا کو آٹھ سال کی عمر میں اپنے گھر لے گئے اور پچاس
سال تک ہر لمحہ آپ کی نصرت و حمایت کرتے رہے اور ہر احتمالی خطروں سے رسول
خدا کی حفاظت میں اپنے فرزندوں کی جان کی بازی لگا دی اور اتنی فدا کاری و
قربانی دی کہ ملائکہ اور جبرئیل بھی اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ کفار قریش بارہا جناب ابو طالب- کی خدمت میں آئے اور
آپ(ع) سے کہا کہ رسول خدا کو تبلیغ دین اسلام سے روک دیں اس لئے کہ اس میں
ان کے دین و آئین اور بت پرستی کی توہین ہے۔ کئی بار رجوع کے بعد کفار قریش
نے آخر کار سخت دھمکی دی، یہاں تک کہ انہوں نے رسول خدا اور جناب ابو طالب-
کو قتل کی دھمکی دے دی۔ ایسی حالت میں بھی جناب ابو طالب- نے اپنے پورے
ایمان و اقتدار کے ساتھ رسول خدا کی حمایت کی اور آپ(ص) سے فرمایا: ’’اذھب
یابن اخی فقل ما احببت فو اللہ لا اسئلک لشیئ ابدا‘‘ ’’ اے جان برادر !آپ
جو چاہتے ہیں کہئے﴿بیان کیجئے﴾خدا کی قسم میں آپ سے کبھی کسی چیز کے لئے
باز پرس نہ کروں گا‘
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں: ابو طالب- وہ شخصیت تھے جنہوں نے رسول خدا کی
دوران طفولت کفالت و سرپرستی کی اور جب بڑے ہوگئے تو آپ کی حمایت و نصرت کی
اور کفار قریش کے شر سے محفوظ رکھا، انہوں نے اس راہ میں ہر طرح کی سختیاں
اور مصیبتیں برداشت کیں اور ہربلا و مصیبت کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا
اور رسول خدا کی نصرت و حمایت اور دین اسلام کی تبلیغ و ترویج میں اپنے
پورے وجود کے ساتھ قیام کیا اور اس شان سے ایثار و فدا کاری کی کہ جناب ابو
طالب- کی وفات کے وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول خدا سے کہا: اب آپ
(ص)مکہ سے نکل جائیں اس لئے کہ آپ کا یاور و مددگار دنیا سے رخصت ہوگیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیعہ سنی محدثین و مورخین نے اسلام کی اس عظیم الشان
اور عالی مرتبت شخص کی فدا کاریوں و قربانیوں کو لکھا ہے اور اس سلسلہ میں
احادیث و روایات کو نقل کیا ہے۔ منجملہ یہ کہ کفار قریش جناب ابو طالب- سے
ڈرتے تھے اور آپ کا احترام و اکرام کرتے تھے۔ جب تک آپ(ع) باحیات تھے رسول
خدا کو کوئی خاص خطرہ نہ تھا لیکن آپ (ع)کی وفات کے بعد کفار قریش کی جسارت
و گستاخی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ آپ (ع)کے سر پر کوڑا کرکٹ ڈالتے اور
جانوروں کی اوجھڑیاں آپ کے سر و شانہ پر ڈالتے تھے!اور حالت نماز میں آپ
اور آپ کے پیرو کاروں کو آزار و اذیت دیتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول خدا کو یہ
کہنا پڑا کہ ’’ما نالت قریش منی شیئ اکرھہ حتی مات ابو طالب‘‘ جب تک میرے
چچا ابو طالب زندہ تھے قریش میرے ساتھ کوئی ناپسند برتاؤ نہ کرسکے۔
جناب ابوطالب- کی وفات کے بعد کفار قریش نے رسول خدا کو اتنی اذیت پہونچائی
کہ آپ(ص) نے جناب ابوطالب(ع) اور جناب خدیجہ (ع)کی رحلت کے سال کو ’’عام
الحزن‘‘ کا نام دے دیا۔
زیارت حضرت ابو طالب-
اے بطحا ﴿مکہ﴾ کے سردار اور اس کے سردار کے بیٹے، آپ پر سلام۔ اے کعبہ بننے
کے بعد اس کے وارث آپ پر سلام۔ اے رسول کی نصرت و کفالت کرنے والے آپ پر
سلام۔ اے محمد مصطفی کے چچا اور علی مرتضیٰ (ع) کے والد آپ پر سلام۔ سلام
ہو آپ پر اے بیضۃ اللہ ﴿شہر مکہ کے سب سے بڑے آدمی﴾ سلام ہو آپ پر اے دین
حنیف کا دفاع کرنے والے اور سید المرسلین (ص)کی نصرت میں اپنے نفس کی
قربانی دینے والے۔ سلام ہو آپ پر اور آپ کے فرزند امیر المومنین پر اور ﴿آپ
سب پر﴾ خدا کی رحمت و برکتیں ہوں۔ ﴿۴۱﴾
٭٭٭٭٭
حوالہ جات
آپ کو شیبۃ الحمد اس لئے کہا گیا کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے سر میں
کچھ سفید بال تھے اور آپ کو شیبۃ ﴿بھری﴾ کہا گیا اور خوش ختمی کی وجہ سے
حمد کہا گیا جس کا معنی قابل حمد و ثنا ہیں.
۔ تاریخ طبری، ج/۲، ص/۲۳. ۵۔ تاریخ یعقوبی، ج/۱، ص/۸۶۳.
۔ گذشتہ حوالہ. ۷۔ طبقات ابن سعد، ج/۱، ص/۱۰۱.
بحار الانوار، ج/۵۳، ص/۳۹
تاریخ یعقوبی، ج/۱، ص/۸۶۳. ۱۱۔ تاریخ طبری، ج/۱، ص/۷۶.
|