طلوع آزادی

عمر نے اسکول سے آتے ہی بیگ کو ایک جا نب پھیکا تو دوسری طرف جوتے اور موزے اتار کر کمرے کے وسط میں ہی چھوڑ دیئے۔ امی، امی کل سے اگست کا مہینہ شروع ہو رہاہے۔میڈم نے اعلان کیا ہے کہ کل سے تمام بچوں کو پا کستا نی پر چم والا بیچ لگا کر آنا ہے۔ میں میکی ما وس والا بیچ خریدوں گا جس پر چھوٹا سا پرچم بھی بنا ہو تا ہے۔ اور ہما ری میڈم نے یہ بھی کہا ہے کہ جو بچے اپنی کلا س کو زیا دہ سے ذیا دہ سجا ئے گے۔ انھیں خوبصورت سا تحفہ دیا جا ئے گا ۔ عمر نے ایک ہی سا نس میں سا ری رواداد سنا ڈالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر لیکن آپ 14 اگست کی خوشی میں ایک بات تو با لکل بھول گئے۔ امی کے کہنے پر عمر سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔آپ نے آج اسکول سے آکر گھر میں داخل ہو کر سلام نہیں کیا ، اور نہ ہی اپنے بیگ اور جوتوں کو ان کی جگہ پر رکھا۔عمرکو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس نے فورا اپنی چیزوں کو جگہ پر رکھا۔ اسکول کےکپڑے تبدیل کیے۔ نماز ظہر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ مسجد سے واپس آنے کے بعد کھا نے کی میز پر عمر کی امی نے اسے بہت ہی خوبصور ت سا بیچ دیا۔ جس پر پا کستا نی پرچم بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر آپ کی میڈم نے جب بیچ لگا نے کا اعلان کیا۔ تو آپ کو یہ تو ضرور بتایا ہو گا ۔ کہ ہم اس بیچ کو اپنے سینے پر کیوں سجا تے ہیں؟؟؟

نہیں ! میڈم نے اس کے با رے میں تو کچھ نہیں بتایا۔۔۔ ہا ں یہ ضرور کہا تھا کہ جب اسکعل کے سارے طالب علم ایک جیسے بیچ لگا ئے گے ، تو ہم دوسرے اسکول کے بچوں سے ذیا دہ منفرد نظر آئے گے۔ اور جو اسکول سب سے ذیا دہ اچھے طریقے سے 14 اگست کو سیلبریٹ کریں گے انہیں کیش پرائز دیا جا ئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر کی امی کو اس بات کا افسوس ہوا کہ آج کے اسکول ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں کسی بھی اہم موقعے کے مقصد کو بھول کر بس اسے فیشن کے طور پر منا تے چلے جا تے ہیں۔لیکن کہیں نہ کہیں ان کی بھی غلطی تھی کہ آج سے پہلے انھوں نے کبھی بھی عمر کو اس دن کو منا ئے جا نے کے
با رے میں نہیں بتا یا تھا۔ اور سا ری ذمے داری اسکول والوں پر ڈال دی تھی۔ اور پھر آج کل کے والدین بھی اپنی تمام ذمے داریوں کو یکسر نظر انداز کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں! امی آپ پا کستا نی پرچم کے بارے میں کچھ بتارہی تھیں۔عمر نے کہا۔۔۔عمر آج میں آپ کو اس ملک کو حاصل کر نے میں ہمارے بزرگوں کو کن مشکلات کا سامنا کر نا پڑا تھا۔اور ہم نے اس زمین کے ٹکڑےکے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ کیوں پیش کیا۔ان تمام باتوں کو جاننے کے لئے ہمیں 65 سال پیچھےجانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

لے کر رہیں گے پا کستا ن
بٹ کر رہے گا ہندوستان

پورے ہندوستان سے یہی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ گلی کو چوں سے نعروں کی گو نج رہی تھی۔ہر طرف افراتفری کا عا لم تھا۔ لوگ اپنے گھر با ر اور اپنی جا نوں کی پروا کیے بغیر جلد از جلد پا کستان پہنچنا چا ہتے تھے۔ کیوں کہ پا کستان کا قیام مسلما نوں کی با ہمی جدوجہد، اتحاد و تعاون اور یک جہتی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔مسلما نوں نے قا ئد ا عظم کی قیا دت میں یک سو ہوکر جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ ان کی سوچ اور منزل ایک تھی۔ اسی وجہ سے دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہ روک سکی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت ابھر کر سامنے آئی۔ لیکن اسلام کے نا م پر اس چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے کو حاصل کر نے کے لیے ہما رے مجا ہدوں، علماؤں، رہنماؤں اور ہما رے بزرگوں نے اپنی جا نوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آزادی کے وقت ہندووں اور سکھوں کے مظالم بڑھتے جا رہے تھے۔ ہر طرف قتل و غارت گری اور خون ریزی کا با زار گرم تھا۔ دشمن اسلام کسی بھی قیمت پر مسلما نوں کو ان کے اپنے وطن پا کستان کی پاک سر زمین پر پہچنے سے پہلے ہی ختم کر دینا چا ہتے تھے۔ اسلا می جمہوریہ  پا کستان کی ترقی کی راہ میں طرح طرح کی رکا وٹیں کھڑی کی گئی۔ دشمن اسلام نے مسلما نوں کو ہر شعبے میں کمزور کرنے کی کو شش کی۔مسلما نوں کو اس کے مذہب سے دور کر نے کی سا زش کی جا رہی تھی۔ لیکن ان تمام ظلم و ستم کے جا وجود لا کھوں لوگ اپنی عزتوں کو داؤ پر لگا کر اپنے وطن پہنچے۔ کیوں کہ ان کے جذبے اور اپنے وطن سے چا ہت سچی تھی۔ وہ اپنے مذہب کے خا طر ہر طرح کی قربانی دنیے کو تیا ر تھے۔ وہ کسی بھی قیمت پر کمزور نہیں پڑنا چا ہتے تھے۔ کیوں کہ اس دھرتی کو انھوں نے اپنی جا نوں اور اپنی عزتوں کو داؤ پر لگا کر حا صل کیا تھا۔وطن پہچنے کی امید میں لا کھوں لوگ اپنی جانوں سے ہا تھ دھو بیھٹے تھے۔ اور پھر آزادی ان کا مقدر بن گئی۔ کیوں کہ آ زادی اور یک جہتی زندہ قوموں کی نشا نی ہے۔۔۔۔۔۔۔

عمر اب آپ ضرور یہ با ت سمجھ گئے ہوں گے، کہ ہم اپنے پرچم کو اپنے سینے پر کیوں سجا تے ہیں۔ کیوں کہ اس وطن کی تا ر یخ خون سے لکھی گئی ہے۔ اس وطن کے پر چم کے رکھوالوں پر ابھی بھی ان شہیدوں کا قرض با قی ہے۔ اور اس وقت تک یہ قرض ادا نہ ہو سکے گا۔ جب تک اس وطن کے نو جوان یہ سوچنا چھوڑ دے۔ کہ اس وطن نے ہمیں کیا دیا ہے ،بلکے یہ سو چے کہ ہم نے اس وطن کو کیا دیا ہے۔۔۔۔۔۔
Merium Vohra
About the Author: Merium Vohra Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.