صحافت نہایت مقدس پیشہ ہے ،اور
صحافی حضرات اسے پیشہ نہیں بلکہ مشن سمجھ کر اختیارکرتے ہیں ۔سچائی کے اس
مشن میں صحافی حضرات تمام مذہبی،لسانی ،سیاسی،گروہ بندی سے آزاد رہ کر بغض
،حسد، تعصب جذبات اور تعلقات کو پس پشت ڈال کر معاشرے میں صرف اور صرف
حقائق پر مبنی سچائی کا پرچار اور حقیقی برائی کو بے نقاب کرتے ہیں ۔ایک
صحافی کےلیے صحافت کا سفرطے کرنا پل صراط پر چلنے سے کم نہیں ہوتا۔ اپنے اس
سفر میں صحافی حضرات کو اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتاہے کیونکہ
کوئی بھی ایک معمولی سی غلطی اُسکے کیریرکو لے ڈوبنے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ڈاکٹر
شاہد مسعودکا شمار ملک کے سینئر صحافیوں میں ہوتاہے ۔اپنے کالموں اور ٹی وی
پروگرام ،میرے مطابق ،کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب عوامی حلقوں میں کافی مشہور تھے
۔ لیکن جنرل مشرف کے دور حکومت میں ایک غلطی کی وجہ سے وہ اپنا مقام کھو
بیٹھے ۔ حالانکہ بعد میں اُنہوں نے معافی بھی مانگی لیکن اپنا کھویا مقام
دوبارہ حاصل نہ کر سکے ۔گزشتہ دنوں ملک کے سینئر صحافی سلیم صافی صاحب نے
افغانستان کے صدر جناب حامد کرزئی صاحب سے ایک انٹر ویو لیاتھا ۔انٹرویو کے
دوران سلیم صافی صاحب نے حامد کرزئی صاحب سے ایک بہت ہی مشکل سوال کیا ۔کہ
امریکہ یا بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کی صورت میں افغانستان کس ملک
کا ساتھ دے گا ؟ اس انتہائی مشکل اور پیچیدہ سوال کے جواب میں جناب حامد
کرزئی صاحب نے نہایت دانشمندانہ انداز میں کہا کہ کسی بھی ملک کے جانب سے
پاکستان پر حملے کی صورت میں افغانستان پاکستان کا نہ صرف ساتھ دے گا بلکہ
افغانستان کسی بھی قوت کی ناراضگی مول لے کرپاکستان کے لیے بہت آگے جا نے
کو تیار ہے ۔اگلے دن جناب کرزئی صاحب کا انٹرویو امریکہ یورپ سمیت انڈیا
افغانستان بلکہ تمام دنیا کی میڈیا میں زیر بحث رہا ۔ جیو ٹی وی کے مشہور
پروگرام کیپٹل ٹاک کے میزبان اور ملک کے سینئر صحافی حامد میر صاحب نے بھی
مذکورہ انٹر ویو پر کالم تحریر کیا جس کا عنوان ہے ،افغانستان کا شوکت
عزیز،24 اکتوبر کو روزنامہ جنگ میںشایع ہونے والے اس کالم میں حامد میر
صاحب نے سفارتی آداب کو بالائے طاق کر کرزئی صاحب کابھرپور مذاق
اُڑایا۔کالم میں جہاں میر صاحب نے افغانستان کے بارے میں اپنی غیر حقیقت
پسندانہ رائے کا اظہار کیا وہیں پر برطانوی صحافی لوسی مارگن کے کتاب کا بد
نام زمانہ تاجک محاورہ،کہ سانپ پر اعتبارکرلو لیکن طوائف پر اعتبارمت کرنا
،طوائف پر اعتبارکرلو لیکن پختون پر اعتبارمت کرنا اس محاورے کا سہارہ لیتے
ہوئے میر صاحب نے نہایت چالاکی کے ساتھ پختونوں کی دل آزاری کا سامان بھی
کیا ۔حامد میر صاحب ملک کے مایہ ناز صحافی ہیں ا ور پاکستان میں آزادی
صحافت میں اُن کا اہم کردار رہا ہے ۔حامد میر جیسے سینئر اور کہنہ مشق
صحافی سے اس طرح کے منفی تحریر کی توقع کیسے بھی نہ تھی ۔میر صاحب نے
صحافتی اور سفارتی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر جس انداز میں پڑوسی ملک کے
صدرحامد کرزئی صاحب کا مذاق اُڑایا اور بر طانوی صحافی کے کندھے پر بندوق
رکھ کر پختونوں کی دل ازاری کی اُس سے اُن کی پیشہ وارانہ حسد اور اُن میں
موجود تعصب پرستی کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حامدکرزئی صاحب کے
انٹرویو کو دیکھ کر کوئی لوٹ پوٹ کر ہنسا ہویا نہ ہو ۔لیکن حامدمیرصاحب کے
اس متنازع کالم کو پڑھ کر صدمہ سب کو پہنچا ہے ۔جس کا اندازہ میرصاحب کو
اپنی ای میل اورایس ایم ایس کے ان بکس سے ہو چکا ہوگا ۔ ہزاروں رنجشوں اور
الزاموں کے باوجود شاندار ماضی کے حامل ملک افغانستان کے صدرکا یہ جواب
پاکستان کے لیے نہایت نیک خواہشات پرمبنی تھا ۔لیکن شاید میر صاحب حامد
کرزئی صاحب سے پاکستان مخالف فقرے سننے کو بے چین تھے یوں لگتا ہے کہ وہ
افغانستان اور پاکستان کے مابین موجود تپش کو ٹھنڈا ہونے کے بجائے مزید گرم
دیکھنے کے خواہاں ہیں ۔خدا کسی کو جرت نہ دے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکے ۔
خداناخواستہ ایسی صورت حال میں افغانستان پاکستان کی کوئی سفارتی مدد کرے
یا نہ کرے ،لیکن آج افغانی صدر کے یہ جملے پاکستان کےلیے امن اوردوستی کے
نیک پیغام پر مشتمل ہیں ۔غور سے دیکھا جائے تو حامد کرزئی صاحب کے ان
تاریخی جملوں میں پاکستان کے لیے امن ،دوستی ،اپنائت اور امریکہ کے لیے
دوری ،نفرت اور بےگانیت کے دو الگ الگ پیغام موجودہیں ۔لیکن پھر بھی میر
صاحب کو کرزئی صاحب کا جواب پسند نہیں آیا ۔اگر خود میر صاحب کرزئی صاحب کے
منصب پر فائز ہوتے تو سلیم صافی صاحب کے اس خطرناک سوال کا جواب کیا دیتے ؟کرزئی
صاحب کا امن پسند جواب اگر میر صاحب کو پسند نہیں آیا تو وہ توہین بھرے
تنقید کے بجائے تعمیری اور مثبت تنقید بھی کرسکتے تھے ۔میر صاحب کرزئی صاحب
کواپنے زہریلے قلم کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کیوں بھول گئے کہ کرزئی صاحب
گزشتہ ایک عشرے سے امریکہ کے گود میں بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے حکمران روز اول
سے امریکہ کے تلوے چھاٹ غلام رہے ہیں ۔کیا میر صاحب کا قلم اُن حکمرانوں کے
بارے میں ایسی جرات کا مظاہرہ کرسکتاہے ؟ میر صاحب نے جناب کرزئی صاحب پر
لگا تار حملوں کے دوران پختون قوم کو بھی نابخشا۔اپنے شاندار ماضی کے حامل
پختون قوم کن اعلیٰ اقدار کی مالک ہے ۔یہ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے ۔اس
قوم کی وفاداری ،جانثاری مہمان نوازی ،دلیری اور ایمانداری کی تحریروں سے
تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔دشمن کے گھاڑے گئے ہزاروں محاورے تاریخ کے
اُن صفحوںکو نہیں بدل سکتے جو اس قوم کے اعلیٰ اوصاف اور بلند اقدار کے
گواہ ہیں کسی قوم کو اشارتاً یا محاورتاًگالی دینا بہت ہی معیوب بات ہوتی
ہے ۔گالی دینے سے اُس قوم کی عزت اور وقار میں تو کوئی کمی نہیں آتی البتہ
گالی دینے والے کی عزت میں خاک میں ضرور مل جاتی ہے۔ میر صاحب پختونوں کے
خلاف اپنے نفرت کا اظہار کر نے کے بعداگلے دن اپنی نا کام صفائی میں اس بد
نام زمانہ محاورے کو صرف ایک شخص تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جبکہ اس
محاورے کے الفاظ واضح طور پرکچھ اور کہتے ہیں ۔برطانوی صحافی نے یہ محاورہ
اپنی کتاب میں کیوں شامل کیا تھا اسکو تو با اسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن
حامد صاحب نے یہ محاورہ اپنے کالم میں کیوں شامل کیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
میر صاحب اپنے اگلے کالم میں اُن کے متنازع کالم پر تنقیدکرنے والوں کو
جناب کرزئی صاحب کے وکیل قرار دیتے ہیں ۔جبکہ معاشرے میں کم ظرفی ،حسدیا
تعصب پرستی کی مخالفت یا تنقیدکرنے والوں کو وکیل کے طور پر نہیں بلکہ
جمہوری اور حقیقت پسندانہ سوچ کے حامل سچے انسانوں کے طورپر جانا جاتا ہے ۔
میر صاحب کے صحافت کا یہ نیا رُخ سب کے لیے باعث حیرت باعث تشویش اور باعث
افسوس ہے ۔ اس طرزِصحافت سے کسی اور کو نہیں بلکہ خود اُن کے صحافتی سفر کو
نقصان کا خدشہ ہے ۔کیونکہ ایک صحافی کامیاب صحافی اُس وقت کہلاتا ہے جب
تمام عوامی حلقوں میں اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو ۔لیکن جب کسی ایک
عوامی طبقے میں وہ خود اپنی عزت گُنوا بیٹھتاہے تو اُسکے صحافت کے عروج کو
زوال کا گرہن لگ جاتا ہے ۔اوریوںرفتہ رفتہ اُسکا چھڑتاسورج یک دم غروب ہو
جا تا ہے ۔ |