جب محرومیوں کی گھور گھٹائیں نا
مرادیوں کے آنگن میں خیمہ زن ہو جائیں ، جب آس کا پنچھی یاس کے قفس میں دم
توڑ دے ، جب اداسیاں بال کھولے ماتم کناں ہو جائیں ، جب صحنِ چمنِ خزاں
پورے عزم و استقلال سے یوں ڈیرے ڈال لے کہ بُلبُل اپنے گُل کے لئے نغمہ
خوانی سے گریزاں ہو جائے ، پپیہا ”پی کہاں“ کی رٹ چھوڑ دے ، کوئل کی ” کو
کو“ بند ہو جائے ، سازندے مر جائیں اور سازوں کے تار ٹوٹ جائیں اور جب
جھرنے خاموش ہو جائیں اور آ بشاروں کے لب خشک ہو جائیں تو سمجھ لیجئے کہ
۔۔۔۔ اُس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے۔میرے آقا کا تو دنیا بھر کے
حکمرانوں کے لئے یہ فرمان ہے کہ ” تُم میں سے ہر کوئی چرواہا ہے جس سے روزِ
قیامت حساب لیا جائے گا “ لیکن یہ کیسے چرواہے ہیں جو بھیڑ یے بن کر اپنی
ھی بھیڑوں کو ادھیڑ رہے ہیں؟ ۔عجب قحط ا لرجال ہے کہ آنکھ کہیں ٹھہرتی ہی
نہیں ، نگاہوں میں کوئی جچتا ہی نہیں ۔۔۔۔ لیکن قوم کو کہیں تو رکنا ہو گا
، کہیں تو ٹھہرنا ہو گا ۔ ملک کی خاطر ، اس کی بقا کی خاطر ۔ اپنے آپ کی
خاطر ، اپنی اولاد کی خاطر ۔۔۔۔ سوال مگر یہ کہ کہاں؟؟؟ ۔۔۔۔ |