ہر جانب عمران خان کے جلسے
کے چرچے ہیں ،کرسیوں سے سروں کی گنتی تک اختلاف ہے ، پاکستان تحریک انصاف
کے دعوے الگ ہیں اور مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے راگ الاپ
رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود 30 اکتوبر کے جلسے نے تاریخ اور دلوں میں جگہ
بنا لی ہے ۔جلسہ کی سب سے خاص بات ان لوگوں کی اس اجتماع عام میں شرکت تھی
جو شاید کبھی ووٹ کے لئے بھی باہر نہ نکلے ہوں۔ لاہور کے باسیوں نے دیکھا
کہ دوپہر سے ہی شہر کے پوش علاقوں ڈیفنس،جوہر ٹاؤن ،ماڈل ٹاؤن اور فیصل
ٹاؤن سے لوگوں کی بڑی تعداد اپنی گاڑیوں پر اقبال پارک کی جانب عازم سفر
تھی جس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کثرت تھی جبکہ و اقفان حال یہ بھی
بتاتے ہیں کہ انہوں نے جلسہ گاہ میں ایسی لڑکیوں کو بھی دیکھا جو چہرہ چھپا
کر ٹی وی والوں کو بتا رہی تھیں کہ وہ گھر والوں سے چھپ کر آئے ہیں ۔معلوم
نہیں ماہرعمرانیات اور علماء اس روش کے متعلق کیا کہیں گے لیکن پڑھے لکھے
انگلش بولنے والے بھی موجود تھے اور جینز پہنے نوجوان بھی جو وطن کے لئے
کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن انہیں اب تک ایماندار اور مخلص قیادت نہیں
ملی اب انہیں عمران خان کی صورت میں ایک امید کی کرن نظر آئی ہے جس کے لئے
وہ دیوانہ وار آگے آئے ہیں۔
شیخ رشیدنے صحیح کہا ہے کہ آج عمران خان کا دن ہے اور یہی جمہوری روح ہے کہ
ہم مخالف کی طاقت کو تسلیم کر لیں یہ ہار میں بھی جیت ہوتی ہے جمہوری
جماعتوں میں اور سب کچھ ہوتا ہے جمہور کی آواز کونہیں سنا جاتا ۔مسلم لیگ
کے گڑھ لاہور میں صوبائی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو جلسے کی
اجازت دینا بھی قابل تحسین ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے جلسے کی راہ میں
کوئی خاص رکاوٹ بھی نہیں ڈالی ۔لیکن ن لیگ کے ترجمان سینٹر پرویز رشید کا
یہ کہنا کہ انہوں نے عمران خان کو 50 ہزار کرسیاں لگانے کا چیلنج دیا تھا
لیکن جلسے میں صرف 16132کرسیاں لگائی گئیں، اور یہ کہ جلسے کو شاندار تو
نہیں کہا جا سکتا ، بس ٹھیک تھا سنکر افسوس ہوا کہ ان کا شمار مسلم لیگ ن
کے ان چند رہنماؤں میں ہوتا ہے جو بڑے تحمل اور بردباری سے صائب موقف پیش
کرتے ہیں۔ لیکن ملک کے ٹاپ چینلز نے جس طرح عمران خان کے جلسے کی دو سے تین
گھنٹوں تک براہ راست کوریج کی اس میں سب نے دیکھا کہ عوام کا ٹھاٹھے مارتا
ہوا سمندر تھا لیکن اس کے باوجود سینٹر پرویز رشید نے کم ظرفی کا مظاہرہ
کیا ۔وفاقی خفیہ ایجنسیوں نے 80ہزار اور پنجاب کے خفیہ اداروں نے تعداد 50
ہزار بتائی ہے جبکہ بیشتر آزاد ذرائع نے تعداد ایک لاکھ سے زیادہ بتائی ہے
، تعداد جتنی بھی ہو عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے ان لوگوں کو متحرک کیا
جن کا شمار خاموش اکثریت میں ہوتا ہے۔
عمران خان نے اپنے 45 منٹ کے خطاب کا آغاز ایاک نعبدو و ایاک نستعین سے کیا
،ان کے خطاب میں قومی نغمے بھی تھے ،سٹیج کے ہورڈنگ کا بینر بدل کر قومی
پرچم بھی بدلا گیا اور دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے 35 ہزار
پاکستانیوں کے ذکر پر افسردہ بیک گراؤنڈ میوزک بھی چلایا گیا ۔عمران خان نے
اپنی تقریر میں کرپشن،خارجہ پالیسی ،کسی حد تک اپنے سیاسی منشور کے ساتھ
ساتھ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر تنقید بھی کی۔ انکا مخصوص پنجابی
زبان میں میاں صاحب ہون جان دو ۔۔ ساڈھی واری آن دو ہنا خاصا پسند گیا
۔بہرحال ان کی بی البدیہہ تقریر کی خاص بات یہ تھی تھی کہ پی پی پی اور
مسلم لیگ ن کی قیادت اپنے اثاثے ظاہر کرے۔لیکن کیا ایسا ہونے سے پاکستان
اور پاکستانی عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پاکستان جس طرح دہشت گردی کی
جنگ میں سلگ رہا ہے کیا وہ سلسلہ ختم ہو جائےگا؟ یقینا نہیں ..... اور جلسے
کا مقصد بھی ان مسائل کو حل کرنا نہیں تھا ۔عمران خان کا اس اجتماع سے اپنی
طاقت کا اظہار مقصود تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے لیکن وہ خود اس
پوزیشن میں نہیں کہ ریاستی سطح پر کچھ تبدیلی لا سکیں ان کے پاس جب تک
اقتدار نہیںآتا یا وہ کسی اتحا د کا حصہ نہیں بنتے تب تک تبدیلی کا آنا
مشکل ہے ۔اس سے قبل مخلص لوگوں کو تلاش کرکے انہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنانا
ہو گا اس کے ساتھ ساتھ عوام کو ایسا عملی پیغام دینا چاہیئے کہ وہ آئندہ
انتخابات میں انہیں ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں لیکن عوام ان سے یہ بھی
مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح وہ خود چلے ہوئے کارتوسوں کی بات کرتے رہتے تھے
اب انہیں اپنی جماعت میںبھی ایسے کارتوسوں کو شا مل نہیں کرنا نہیں چاہیے
ورنہ جس تبدیلی کا وہ نعرہ بلند کرتے رہے ہیں وہ تبدیلی تبدیلی نہیں ہے محض
چہروں اور جماعتوں کی تبدیلی ہے ۔
عمران خان علامہ اقبال کے اسلام کے شیدائی ہیں جبکہ بے نظیر بھٹو بھی
مولانا مودودی کی بجائے اقبال کے تصور اسلام سے متاثر تھیں لیکن انہیںا
قتدار ملا تو وہ سب کچھ بھول گئیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ جلسے میں نماز اداکرکے
انہوں نے جس اسلام پسندی کا مظاہرہ کیا ہے آیا وہ اقتدار میں آ کر اسلام کے
دیگر احکام پر بھی اسی طرح عمل کرتے رہیں گے اور ملک کو اقبال کے تصور
پاکستان کے مطابق صحیح معنوں میں پا ک لوگوں کی سرزمین بنائیں گے اس کا
جواب ان کے عمل کی صورت میں ہی واضح ہو گا ۔بہرحال ایک بات طے ہے کہ انہوں
نے اپنی تقریر کا اختتام جس جملے سے کیا تھا کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ
چکی ہے ،تبدیلی کے آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
Change th eface can change nothing,but facing th echange can change
everything. |