امام غزالی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں
کہ بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا وہ بادشاہ ایک دن اپنے تخت پر
بیٹھا ہوا تھا۔ کہ اس نے ایک شخص کو دروازے سے داخل ہوتے ہوئے دیکھا جو بڑی
ڈراﺅنی صورت والا تھا بادشاہ نے اس سے پوچھا تجھے یہاں آنے کی اجازت کس نے
دی اور تو نے یہاں آنے کی جرات کیسے کی ۔وہ بولامجھے کوئی روکنے والا روک
نہیں سکتا۔ مجھے کسی بادشاہ کے ہاں جانے میں کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی
میں کسی بادشاہ کی سیاست سے اور کسی سلطان کے رعب سے مرعوب نہیں ہوتا۔ میرے
قبضے سے کوئی باہر نہیں جا سکتا۔بادشاہ نے جو یہ باتیں سنیں تو منہ کے بل
گرپڑا، اس کا تمام جسم کانپنے لگا، پوچھنے لگا کیا تو ملک الموت ہے اس نے
کہا ہاں بادشاہ نے کہا تجھے خدا کی قسم ہے مجھے ایک دن مہلت دے دے تاکہ
اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں۔ پرودگار سے عذر خواہی کر لوں اور وہ مال جو
میں نے اپنے خزانوں میں جمع کئے ہیں لوگوں کو واپس کردوں تاکہ آخرت میں ان
کا عذاب برداشت نہ کرنا پڑے ملک الموت نے کہا یہ کیسے ہو سکتا تیری زندگی
کے دن تو گنے چنے اور اوقات بقدر حساب ہیں۔ بادشاہ نے کہا اچھا ایک گھڑی کی
مہلت دے دے ۔ وہ کہنے لگا گھڑیوں کا بھی حساب ہے وہ گزر گئیں اور تو غافل
ہی رہا، تو اپنے سارے سانس پورے کر چکا ہے۔ صرف ایک دو سانس باقی ہے۔
بادشاہ پوچھنے لگا جب میں قبر میں جاﺅں گا میرے ساتھ کون ہو گا۔ ملک الموت
نے کہا سوائے تیرے عمل کے کوئی نہ ہو گا۔ وہ کہنے لگا میں نے تو کچھ کیا ہی
نہیں۔ ملک الموت بولا تو پھر دوزخ تیرا ٹھکانا ہو گا۔یہ کہہ کر اس کی روح
قبض کر لی وہ تخت سے گر پڑا۔ لوگ رونے چلانے لگے لیکن اگر وہ یہ جانتے کہ
اس پر غضبِ خداوندی کس قدر ہو گا تو اس سے بھی زیادہ روتے۔
قارئین آج کے کالم کا موضوع دیکھ کر آپ یقینا چونک گئے ہوں گئے ہوں گے کہ
میرج ویزہ اور بچیوں کے ساتھ کسی ناروا سلوک کا آپس میں کیا تعلق ہے تو آپ
کو آج ہم ایک انتہائی بھیانک سچائی بتانے والے ہیں ۔ یہ چند سچے واقعات پر
مبنی وہ حقیقت ہے کہ جو پوری پاکستانی اور کشمیری قوم کے علم میں نہیں ہے۔
اس واقعہ کو بیان کرنے والی لڑکی بیرون ملک مقیم لڑکے سے شادی کے بعد ویزہ
حاصل کرنے کے لیے جب ایک ایمبیسی میں پہنچی تو ابتدائی انٹرویو کے بعد اس
بچی کو کہا گیا کہ وہ تفصیلی انٹرویو کے لیے سائڈ روم میں چلے ۔ سائڈ روم
میں دو خواتین نے اسے کپڑے اتارنے کا کہا اور پھر میڈیکل معائنے کی طرح اس
کی دوشیزگی چیک کرنے کے بعد اس سے وہ سوالات پوچھے گئے کہ زبان اور قلم
انہیں نقل کرنے سے قاصر ہیں یہ بچی اس شرمناک انٹرویو کے بعد باہر آئی تو
اس وقت سے لے کر اب تک شاک کی حالت میں ہے اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوچکی
ہے یہ تو صرف ایک واقعہ ہے جو ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ پارلیمانی
الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کردیا ورنہ جو جو سوالات اور حرکات اس معصوم بچی
کے ساتھ میرج ویزہ انٹرویو کے دوران کی گئیں اگر ہم وہ آپ کو بتادیں تو آپ
کادل بھی شائد اسی طرح پھٹ جائے جس طرح ہمارا درد کے مارے پھٹاجارہاہے ۔
قارئین ہمارے حکمران ،اپوزیشن ،سیاسی قائدین اور تمام لوگوں سے ہم یہ سوال
کرتے ہیں کہ ایک محمد بن قاسم نام کی شخصیت تھیں کہ جن کو سندھ سے قوم کی
ایک بیٹی نے دوپٹہ کھینچنے پر پکار اٹھا اور وہ عرب سے یہاں آ پہنچے تھے آج
اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کی سرزمین پر ایک غیر ملکی سفارت
خانے کی یہ جرات کہ وہ میرج ویزہ انٹرویو کے نام پر بچیوں کے ساتھ یہ غیر
انسانی سلوک روا رکھے ہمارے علم میں میرپور سے تعلق رکھنے والے ایسے سات
کیس آچکے ہیں جن کے ساتھ یہ برتاﺅ کیا گیا پورے پاکستان سے یقینا ہزاروں
افراد ویزے کے لیے اپلائی کرتے ہیں ابھی ہم معلومات اکٹھی کررہے ہیں اور
جلد ہی اس حوالے سے ناصرف قانونی کارروائی کی جائے گی بلکہ پورے پاکستان
اور آزادکشمیر کو ہم اس مجرم سفارت خانے کے نام سے بھی آگاہ کریں گے ۔
قارئین یہاں ہم بھیڑ چال کے تحت وطن میں دووقت کی عزت کی روٹی چھوڑ کر
بیرون ملک بی کلاس اور سی کلاس شہری بن کر بے عزتی کی روٹی کھانے والوں کو
بھی اس سلوک کا قصور وار سمجھتے ہیں کہ دولت کی ہو س نے ان کو اس حد تک
اندھاکردیاہے کہ وہ غیر ت اور بے غیرتی کے درمیان موجود باﺅنڈری لائن کو
بھی بھول گئے ہیں ویسے تو انگلینڈ ،امریکہ ،یورپ اور دیگر خوشحال ممالک میں
رہنے والے لوگوں کی کہانیاں اور سچ بیتیاں لوگوں کے سامنے آتی رہتی ہیں کہ
خوشحالی کی تلاش میں انہوںنے دولت تو حاصل کرلی لیکن اپنی اولاد سے ہاتھ
دھو بیٹھے بقول غالب اس تمام حادثے پر ہم یہی کہیں گے
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال ِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
داغ ِ دل گر نظرنہیں آتا
بُو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاﺅں گے غالب؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
قارئین پوری دنیا میں کشکول اُٹھا کر گھومنے والے ہمارے حکمران شائد عزت کا
مطلب بھول چکے ہیں ورنہ سرزمین پاکستان پر اس طرح کی کوئی داستان سامنے نہ
آتی ہم نے یہ تو سنا تھا کہ 9/11اور 7/7کے واقعات کے بعد دنیا کے چند ممالک
میں پاکستانیوں کو کتوں سے سونگھوایا جاتاتھا لیکن یہ کہانی تو تمام حدوں
کو عبور کرگئی ہے اور اس کی وجہ صرف او رصرف ایک بھکاری بن کر دنیا میں
جینا ہے ہم پوری پاکستانی اور کشمیری قوم سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ عزت کے
ساتھ اس ملک میں جئیں اور بے غیرتی کی دولت کو جوتے کی نوک پر رکھیں یہاں
پر اپنے قارئین سے یہ گزارش ہے کہ اگر ان کے علم میں مختلف ایمبیسیز میں
بچیوں کے ساتھ کسی قسم کے ناروا سلوک کے حوالے سے ان کے پاس کوئی خبر ہے تو
ہم تک ضرور پہنچائیں تاکہ ہم قانونی کارروائی کرسکیں
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک آدمی نے ایک مکان کے دروازے پر دستک دی اندر سے کسی نے پوچھا کون ہے
اس نے جواب دیا کہ جی میں ہوں شہزادہ
تمہارے والد کا کیا نام ہے اندر سے پوچھا گیا
اس نے جوا ب دیا بادشاہ
اندر سے مزید سوال آگیا اور داد ا جی کا نام
اس نے جوا ب دیا شہنشاہ
اندر سے پوچھا گیا کیا کام ہے
اس نے منمنا کر جواب دیا
”جی اللہ کے نام پر دو روپے دے دیں “
قارئین ہمارے حکمران بھی شاہ ابن شاہ ہیں اور پوری دنیا میں ہمارے نام پر
بھیک مانگتے پھرتے ہیں جس کانتیجہ آج کے اس واقعہ کی صورت میں سامنے آیاہے
عید کے موقع پر ہم آج بہت اداس ہیں ۔۔۔ |