امریکہ کا الزام حقانی نیٹ ورک
کے ساتھ پاکستا ن کے رابطے ہیں۔مائیک مولن کے اس ایک بیان نے حکومتِ
پاکستان اور تما م سیاسی جماعتوں کو متحرک ہونے پر مجبورکردیا۔شاید مائیک
مولن کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ اُس کے اس بیان کا اتنا شدید
ردِعمل ہوگا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل پرویزکیانی کا دورہِ برطانیہ اور
وزیر اعظم کی اقوام ِمتحدہ کے اجلاس میں شرکت بھی ملتوی ہو جائیگی ۔امریکہ
کا پاکستان کے اوُپر الزام لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے،لیکن اس بار پاکستان
نے ردِعمل ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دیکھادیا۔، خود ہی بات کا بتنگڑ بنا ڈالا
۔جس سے دوسرے لوگوں کو بھی منہ کھولنے کا موقع مل گیا، جیسے کہ بھارتی
وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستان کے اوُپر الزام کے بارے میں بیان دیتے
ہوئے کہاکہ ، امریکہ نے جو الزام پاکستان پر لگایا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں
ہے ہم (یعنی )بھارت تو پہلے دن سے ہی یہ کہہ رہا ہے۔ مائیک مولن کے بیان پر
امریکہ کو جواب دینے کے اور بھی بڑے طریقے تھے ،لیکن اسطرح سے ہنگامہ کر نا
اور سب کچھ چھو ڑ چھاڑ کر صرف ایک بیان کو اتنا طول دینا یہ پاکستان کے
دشمنوں کو اپنی کمزوری دیکھانے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے
پاس سُنہرہ موقع تھاکہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرتے اور اُس
اجلاس میں دلیری کے ساتھ امریکہ کو پاکستان کے اُوپر لگائے الزام کا منہ
توڑ جواب دیتے اور پوری دُنیا کو پاکستان کے موَقف سے آگاہ کرتے۔ وزیراعظم
صاحب بین الاقوامی سطح پر تو بات کرنے کی ہمت نہ دِکھا سکے لیکن پاکستان کی
عوام کو بیوقوف بنانے کے لیئے وہی پُرانی ریت نبھائی ، آل پارٹیز کانفرنس
بلائی۔
تمام سیاسی جماعتوں کی فراغ دلی بھی دیکھئے کہ وزیراعظم کی دعوت پر سب نے
لبیک کہاجیسے سب اسکے منتظر ہی بیٹھے تھے۔29ستمبر کو ہونے والی کانفرنس جو
9گھنٹوں تک جاری رہی اس میںپاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھر پور شرکت
کی اور سیاسی دُشمنیاں رکھنے والے تمام پارٹیز کے لیڈرز ایک دوسرے سے بغل
گیر ہوتے دیکھائی دئیے اور یہی اس کانفرنس کا ایک مثبت پہلودیکھنے کو ملا۔
لیکن یہ کہناکہ امریکی دھمکیوںنے پاکستانی سیاسی قیادت کو متحد کر دیا ہے
تو یہ ایک احمقانہ بات ہوگی۔ کانفرنس سے پہلے جو قیاس آرئیاں کی جارہیں
تھیں اور جسطرح سے ہمارے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی پُھر تیاں نظر
آرہیں تھیں اس سے لگ تو یہ رہا تھا کہ شاید اس کانفرنس میں پاکستان امریکہ
کے ساتھ اِعلانِ جنگ کرنے والاہے۔ لیکن ایسا اِعلان ہونا تو رہی دور کی بات
،کانفرنس میں پیش کی گئی قرارداد میں ،امریکہ،کے نام تک کو شامل نہیں کیا
گیا۔ امریکہ کے سب سے زیادہ مخالف سمجھے جانے والے پاکستان کے سیاستدان ،
عمرآن خان، نوازشریف، منورحسن،اور فضل الرحمان جیسے لیڈر جو اپنے سیاسی
جلسوں میں بڑی بڑی بڑھکیںلگاتے ہوئے امریکہ کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دیتے
ہیں،حیران کُن بات یہ تھی کہ اُن کے منہ سے بھی امریکہ کی مخالفت میں ایک
لفظ تک نہ نکل سکا۔لیکن کانفرنس میں ایک دوسرے کے اُوپر کیچڑ اُچھالنے کی
پُرانی چلی آرہی رِیت کو زندہ رکھا گیا۔ جہاں میاں نوازشریف اور منور حسن
کے درمیان خوب تُو تُو ،میں میں ہوئی ،وہیں محمود اچکزئی نے پاکستان کے
انتہائی احساس ادارے ، آئی ۔ایس۔ آئی۔کے اُپر ہلہ بول دیا۔ا ٓل پا رٹیز
کانفرنس کا آل نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ ، پاکستان اپنے اُوپر لگے الزام کی شدید
مذمت کرتا ہے، اور پاکستان تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات
برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ تو یہ تھی آل پارٹیز کانفرنس، یا پھر یوں کہہ لیں
کہ کسی پیرو مُرشد کا سیاسی میلہ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اِس کانفرنس
کے ذریعے یہ ممکن نہیں تھا کہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے خلاف اپنا
احتجاج درج کروایا جاتا اور امریکہ سے ڈیمانڈ کی جاتی کہ ، مائیک مولن
پاکستان کے اوُپر لگائے گئے بے بنیاد الزام کی معافی مانگے اور آیندہ کے
لئیے بھی امریکہ پاکستان کے اُوپر اس قسم کے بے بنیا د الزام لگانے سے بعض
رہے۔ لیکن یہ سب کچھ کہنے کے لیئے پہلے اُس کشکول کو توڑنا ہوگا جس میں
امریکہ سے بھیک لی جاتی ہے ، کیونکہ جب تک کشکول ٹوٹے گا نہیںتب تک سر
اُٹھے گا نہیں۔
بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مائیک مولن کے ایک بیان پر آل پارٹیز
کانفرنس بُلا لینا ۔اور پاکستان کی غریب عوام جو ساڑھے تین سال سے زیادہ
عرصے سے چیخ چیخ کر ا ور چِلا چِلا کر صدائیں لگا رہی ہے، بجلی کے لیئے ،
گیس کے لیئے ، پیٹرول کے لیئے، آٹے کے لیئے ، چینی کے لیئے، مہنگائی کم
کرنے کے لیئے، بے روزگاری کے خا تمے کے لیئے، سیلاب اور ڈینگئی وائرس سے
بچنے کی تدبیر کے لیئے، دہشت گردی کی روک تھام کے لیئے اور عدالتوں میں
انصاف کے لیئے،کیا ان میں سے ایک آواز بھی آج تک وزیراعظم کے کانوں تک نہیں
پہنچی ۔ہم سے تو پھر مائیک مولن ہی اچھا کم از کم آپ نے اُسکی بات کو تو
سُنا اور پھر پاکستانی قوم کو تو آج تک اس قابل بھی نہیں سمجھا گیاکہ کبھی
اُنکے مسائل کو لے کربھی آ ل پارٹیزکانفرنس بُلائی گئی ہو۔ وزیراعظم صاحب
پوری قوم جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور آپ کے پاس
بھی کوئی جادو کی چھڑی نہیں جسے آپ گُھماتے جائیں اور کام ہوتے جائیں لیکن
پاکستان کی عوام باشعور اور صابر ہے وہ جانتی ہے کہ تمام مسائل کا حل ایک
ساتھ ممکن نہیں،لیکن کسی ایک مسئلے کا حل تو نِکالا جا سکتا ہے جیسے کہ اس
وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے بجلی کا بُحران اگر صرف اور
صرف اس ایک مسئلے کا بھی حل نکال لیا جائے تو پاکستان کے آدھے سے زیادہ
مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔حد سے زیادہ لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا محال کر دیا
،پاکستان کی صنعتیں دھیرے دھیرے دم توڑتی جارہی ہیں،مزدور کے لیئے ایک وقت
کی روٹی کے لیئے بھی روزی کمانا مشکل ہو گیا ۔گھر گھر فاقہ کشیاں یا پھر
خودکشیاں ہو رہی ہیں،لوگوں میں اب اتنی ہمت نہیں رہی کہ ،مہنگائی اور بے
روزگاری کے ساتھ ساتھ اب لوڈشیڈنگ کے عذاب کو بھی جھیلں۔پاکستانی قوم
وزیراعظم سے یہ التجاءکرتی ہے کہ تھوڑی دیر کے لیئے چاہے ہمیں بھی مائیک
مولن ہی سمجھ لیجئیے ، اور ایک بارپھر سے، آل پارٹیز کانفرنس بُلالیجیئے جس
میں بات صرف اور صرف پاکستان کی غریب عوام کے مسائل کی ہو، خاص طورپر بجلی
کے موجودہ بحرا ن کے حل کے لیئے ،اگر وزیراعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی
صاحب اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈرز مل بیٹھ کر ،آپس کی ذاتی
رنجیشیں بُھلا کر اور پنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر، بجلی کے بُحران کا
کوئی تو حل نکالیں تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے جس سے پورے پاکستا ن کو
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات مِل سکے، یہ ہونا تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن
نہیں۔ خُداکے لیئے سب مِلکرپاکستانی قوم کودیجیئے یہ ایک تحفہ اور لیجیئے
کروڑوں لو گوں کی نیک تمنائیں اور دُعائیں کیونکہ دُعا میں بڑی طاقت ہوتی
ہے، دُعاؤں سے ہی تقدیریں بدل جاتی ہیں،بس ڈرئیے پھر اُس دن سے کہ کہیں
اتنی دیر نہ ہو جائے کہ ستائی ہوئی اس قوم کی دُعائیں،بددُعاوں میں نہ بدل
جائیں۔۔۔۔۔۔ |