اترپردیس کاانتخابی دنگل کافی
دلچسپ موڑ پر پہنچنے لگا ہے۔اہم سیاسی گروپوں کے درمیان سیاسی داؤ پیچ شروع
ہوچکے ہیں۔وعدوں کے پھندے پھینکے جارہے ہیں جس میں بڑے لیڈران بھی شگوفے
بازی سے پرہیز نہیں کررہے ہیں جس میںبنگھارلگانے کیلئے ٹیم انانے بھی رنگ
دکھاناشروع کردیا ہے۔مرکزی حکومت نے بدعنوانی کے خلاف تا بڑ توڑ فیصلے کرنے
شروع کردئے ہیں۔انا ’ جوکل تک چپ رہا اس نے نجات پائی کی تصویر‘ بنے ہوئے
تھے‘اب نئے طوفان کی خبر دے رہے ہیں۔ٹیم انا کے رکن منیش سسودیہ آج دہلی سے
رالیگن سدھی روانہ ہوگئے۔منیش انا کو لیکر ہی واپس آئیں گے جس سے سیاسی
پارہ اور بھی چڑھے گا۔لوک پال کے معاملے پر پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی
میٹنگ ہونے والی ہے۔ٹیم انا نے مجبور کیا ہے کہ میٹنگ میں انا ضرور شریک
ہوں۔یوں تو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ آج شام کو بھی منعقد ہونی
ہے جبکہ اس میں ٹیم انا کے دیگر اراکین بھی شریک ہوں گے۔
ٹیم انا کے ذرائع کے مطابق آج دوپہر بعد انا سے ملاقات کرنے کیلئے مہاراشٹر
کے نائب وزیر اعلٰی اجیت پوار رالیگن پہنچ رہے ہیں۔اناکے قریبی ساتھی سریش
پٹھارے نے آج میڈیا کو معلومات فراہم کی ہیں کہ اجیت پوار بذریعہ تحریر ہی
انا سے مذاکرہ کریں۔پٹھور نے’ خاموش بر ت‘ پر رائے ظاہر کی ہے کہ ہوسکتا ہے
وہ بر ت توڑ کر آج دہلی کیلئے روانہ ہوجائیں جبکہ اس کا فیصلہ توانا کو ہی
کر نا ہے لیکن آج کسی وقت ٹیم اپنا فیصلہ سنادے گی۔اسی دوران مرکز میں بر
اقتدار کانگریس نے اچانک اپنا انتخابی مشن تیز کردیا ہے۔جنرل سکریٹری راہل
گاندھی نے اس مہم کی کمان بہ نفس نفیس سنبھال لی ہے۔اس مہینے وہ ریاست میں
اپنی شان بڑھانے کی دھن میں مشغول نظر آرہے ہیں۔کبھی وہ مسلمانوں کو لبھانے
کیلئے سیکولر ہیرو کے کردار میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی دلتوں کے مسیحابن
کر ہر ایک پسماندہ چوکھٹ پر سرنگوں نظر آرہے ہیں۔کانگریس کی مہم کا جو اب
دینے کیلئے دیگر پارٹیاں بھی کمر کس کر تیار بیٹھی ہیں۔
کانگریس کے ولی عہد 3دن کے دورے پر پروانچل گئے تھے۔بنارس سے ہوتے ہوئے وہ
آج الہ آباد پہنچ رہے ہیں۔اس سفر کے دوران انہوں نے دلتوں سے قربت حاصل
کرنے کیلئے سنت روی داس کی جائے ولادت کے مندر میں حاضری درج کروائی۔مندر
میں ہونے والے باقاعدہ ست سنگ میں شریک ہوئے۔کسی عقیدت مند کی طرح ہی انہوں
نے فرش پر بیٹھ کر سب کے ساتھ لنگر کا کھانا کھایا۔اس طرح راہل نے وہاں
تمام دلتوں کے دل جیت لینے کی سعی کی ہے۔یہ الگ با ت ہے کہ سنت روی داس کی
جائے واردات پر مندر کی تعمیر مایاوتی نے کروائی تھی۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یوپی میں سیاسی زمین خاصی بنجرہوچکی ہے۔گزشتہ
لوک سبھا انتخاب میں اسے کچھ کامیابی ضرور مل گئی تھی جس سے حوصلہ پاکر
کانگریس نے یوپی مشن 2012کا خصوصی ایجنڈا بنالیا ہے۔نشانے طے کئے گئے ہیں
کہ اس مرتبہ کے انتخاب میں کسی بھی طر ح پارٹی کو اقتدار میں لانا ہے۔جبکہ
یوپی کی سرزمین در حقیقت ایسی نہیں ہے کہ کانگریس کا مشن آسانی سے پایہ
تکمیل کو پہنچ جائے کیونکہ دسیوں برس سے یہاں کانگریس پھسڈی ثابت ہو رہی ہے
جس کی وجہ سے پارٹی کے پاس زمینی سیاسی جدوجہد مفقود ہے۔اس حقیقت نے
کانگریس قیادت کوراہل گاندھی کے سیاسی کر شمہ پر منحصرکردیا ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل کی کوشش ہے کہ پارٹی کاپراناووٹ بنک پھر قائم
ہوجائے جبکہ ماضی میں کانگریس بیک وقت دلتوں،اقلیتوں اور براہمنوں کی سوشل
انجینئر بنگ میں ماہر سمجھی جاتی تھی لیکن ریاست میں اس کا یہ انتخابی
فارمولہ کب بکھر چکا ہے‘اس کا اسے احساس تک نہ ہوا جبکہ ماہرین کے نزدیک
بابری مسجد کے تالا کھلتے ہی راجیو مخالف ہو اؤں نے کانگریس کو متاثر کرنا
شروع کردیا تھا۔دریں اثناءرہی سہی کسر بابری مسجد کی شہادت اورلبراہن کمیشن
سنوائی کے بعد اقلیت مخالف فیصلے نے پوری کر دی تھی۔چیلنج یہ ہے کہ پارٹی
اپنے کھوئے ہوئے رائے دہندگان کو کس طر ح منائے۔اس مہم کے تحت کانگریس کی
مرکزی قیادت نے کئی سطحوں پر کام شروع کیا ہے۔گزشتہ دنوں مرکزی وزیر قانون
سلما ن خورشید لکھنو کے دورے پر گئے تھے۔انہوں نے اس موقع پر پسماندہ
مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کے اشارے دئے۔ذرائع ابلاغ کو جانکاری دی کہ مرکزی
حکومت ادبی سی کوٹہ میں مسلمانوں کے پسماندہ طبقے کو 6فیصد ریزر ویشن دینے
کیلئے سنجیدگی سے غور کررہی ہے جب کہ پسماندہ طبقوں کیلئے سرکار ی نوکریوں
میں 27فیصد ریزر ویشن دینے کا انتظام ہے۔ اب کانگریس قیادت مسلمانوں کو
رجھانے کیلئے ریزرویشن کا جھنجھنا بجارہی ہے۔کانگریس کے اس داؤ سے سماجوادی
پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو خفا سے ہوگئے۔انہوں نے اس معاملے پر
کانگریس کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ملائم نے کانگریس کو خبر دار کرتے ہوئے کہہ
دیا ہے کہ اوبی سی کوٹہ میں ایک نیا کوٹہ داخل کر نے کی کوشش کی گئی تو
پورے ملک میں شدید ہنگامہ کھڑ اہوجائے گا۔اگرکانگریس مسلمانوں کی حقیقی
محسن ہے تو آئین میں ترمیم کرکے انہیں الگ سے ریزرویشن دینے کی ہمت دکھائے
بصور ت دیگر یہی سمجھاجائے کہ ریزرویشن کی موجودہ تجویز محض انتخابی پینترہ
ہے۔
سماجوادی پارٹی کے مسلم چہرے اعظم خاں نے اس معاملے پر کانگریس کو آڑے
ہاتھوں لیا۔ان کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کی فلاح کیلئے فکرمند
ہے تو سچر کمیشن اور انگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو کامل طورپر نافذ
کرے۔اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انتخابی موقع پر
کانگریس ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو ٹھگنے کی کوشش کررہی ہے۔
گزشتہ مہینے سے بی جے پی نے ریاست میں رتھ یاتراؤں کا دور شروع کیا
ہے۔پارٹی کے سینئرلیڈر ایل کے اڈوانی 11اکتوبر سے قومی سطح پر یاترا پر
نکلے ہیں۔جن جیتنا کے ابتدائی دور میں ہی وہ 2دن پروانچل میں گھومے تھے۔اسی
دوور سے پارٹی کے لیڈر راجناتھ سنگھ دوج کلراج مشرانے ریاستی سطح پر رتھ
یاتراؤں کے 2الگ لگ دورے شروع کئے۔یہ دونوں لیڈر اپنی یاتراؤں کا پہلا
مرحلہ پورا کرچکے ہیں۔ان کا دوسرا دور 9نومبر سے شروع ہونے والاہے۔یہ
انتخابی رتھ یا ترائیں 17نومبر تک جاری رہیں گی جبکہ اڈوانی کی رتھ یاترا
20نومبر کو دہلی میں ایک بڑے سیاسی شو کے ساتھ ختم ہونی ہے۔
ان رتھ یاتراؤں میں بی جے پی قیادت نے کئی طر ح کی حکمت عملیاں تیا ر کی
ہیں۔بہوجن سماجوادی پارٹی کی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔تو کانگریس
کو جنگائی اور بدعنوانی کیلئے کٹہرے میں کھڑا کیا جارہا ہے جس میں انا ٹیم
پہلے ہی تیل چھڑک چکی ہے۔گزشتہ کئی برسوں کے دوران یوپی میں سماجوادی پارٹی
اور بہوجن سماج پارٹی ہی اصل سیاسی جنگ لڑ رہی ہیں۔سماجوادی پارٹی کے پاس
پسماندہ طبقوں اور مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کا ووٹ بنک رہا ہے جبکہ بہوجن
سماجوادی پارٹی کے پاس اس کا لوہا لاٹ دلت ووٹ بنک بر قرار ہے۔گزشتہ انتخاب
میں بہوجن سماج پارٹی نے اپنے سماجی تانے بانے کے ذریعے طلسماتی کثریت حاصل
کرلی تھی۔اس طر ح طویل عرصہ کے بعد ریاست میں کسی ایک پارٹی کی سرکار بن
سکی تھی۔بہوجن سماج سپریمو کو پورا بھروسہ ہے کہ اس مرتبہ بھی اسکی سوشل
انجینئرنگ کا پرانا فارمولہ کامیاب ثابت ہوگا جبکہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ
کانگریس نے بھی مایا سرکا رکے خلاف جارحانہ حکمت عملی تیار کرلی ہے جس کے
تحت راہل گاندھی کی قیادت میں رواں مہینے سے ریاست بھر میں ریلیاں اور
رابطہ عامہ مہموں کا دور شروع ہونے والاہے۔کانگریس اعلانیہ طورپر ذات پات
پر مبنی سیاست سے پرہیز کرتی رہی ہے لیکن اسے اچھی طرح علم ہے کہ ذات پات
کی تفریق کی شکار ریاست میں محض نعروں کی بنیاد پر انتخاب میں کامیابی حاصل
کرنا ممکن نہ ہوگا لہذا وہ خاموشی سے مختلف ذاتوں کے سربراہان کو آمادہ
کرنے کیلے متعدد تر کیبیں آزما رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سیاسی ماہرین نے
اپنی اس مہم کو سماجی مساوات کی مہم کہنا شروع کردیا ہے تاکہ کوئی معترض ان
پر ذات پات پر مبنی سیاست کا الزام نہ عائد کر سکے۔فی الحال راہل گاندھی سے
لیکر زعفرانی پرچم کے زیر سایہ راجناتھ سنگھ جیسے لیڈران ووٹوں کیلئے
خوبصورت خواب فروخت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ |