قرضوں کی واپسی اور جمہوری تسلسل

پاکستان کا مالیاتی اور معاشی نظام نادہندگی کی اخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ پاکستان میں سیاسی انتشار افراط و تفریط زوروں پر ہے۔مضبوط معیشت اور سیاسی و جمہوری استحکام ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کی تنزلی دوسرے کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔پاکستان میں حکومتوں سے لیکر سیاستدانوں تک بیوروکریسی سے لیکر چپڑاسی تک کرپشن کنگ بنے ہوئے ہیں۔سیاسی قیادت چاہے کسی جماعت سے تعلق رکھتی ہو وہ ایک طرف قومی وسائل پر شب خون مارتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی وڈیرے اور لٹیرے سرکاری مال پانی کو شیر مادر کی طرح روز اول سے لوٹتے آرہے ہیں۔ اپوزیشن ہو یا شاہی خوشہ چین بشمول اراکین پارلیمنٹ حکومتی اختیارات کے بل بوتے پر بنکوں سے زراعت اور صنعتوں کے نام پر انتہائی معمولی شرح سود پر کھربوں روپے کے قرضہ جات لیتے ہیں اور بعد میں معافی کے نسخے کو بروئے کار لاتے ہوئے اربوں کو ایک ہی ڈکار میں ہضم کر جاتے ہیں۔قومی وسائل کے بلاتکار سے لوٹی گئی دولت اور لوٹ کھسوٹ کے ماہر سیاسی اور انتظامی ڈکیتوں کو سوئس بنک قانونی تحفظ مہیا کرتے ہیں۔یوں یہ کہنا اظہر من التمش ہے کہ ہمارے سیاسی رہبر ڈاکو قوم کے محافظ حیلہ ساز اور اور بدیانت بن چکے ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی اداروں اور ورلڈ بنک نے قرضوں کا ایک ایسا شکنجہ ہماری گردنوں میں کس رکھا ہے جس سے گلو خلاصی ممکن نہیں۔ غیر ملکی قرضوں سے چھٹکارہ حاصل کئے بغیر نہ تو معیشت کو پائیدار بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سیاست و جمہوریت کی افزائش ممکن ہے۔ امریکہ کا پہلا آئین17 ستمبر1787 میں فلاڈلفیا کنوشن میں ہونے والی رائے شماری کے بعد متعارف ہوا۔ ووٹنگ میں حصہ لینے والے55 میں سے38 ممبران نے اسی آئین کی حمایت کی تھی ۔جارج واشنگٹن نے1789 میں اسی آئین کے تحت جارج امریکہ کے پہلے امریکی صدر بن گئے۔جارج دو مرتبہ امریکہ کے صدر رہے انکا دور اقتدار1797 میں ختم ہوگیا۔ روز ویلٹ کے علاوہ کوئی اور امریکی صدر تیسری ٹرم کی خواہش پوری کرسکا۔ امریکہ روئے ارض کی سپر پاور ہے۔اسی زعم میں بش نے دہشت گردی کے حیلوں بہانوں کا سہارا لیکر اور کابل پر فوجی چڑھائی کردی مگر دس سالوں میں وائٹ ہاؤس جنگی اہداف کا ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ کابل اور بغداد کی بے رحمانہ اور انسانیت سوز جنگوں نے امریکی معیشت کو لرزہ براندام کرڈالا۔2008 میں آنے والے عالمی مالیاتی بحران نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔اسی معاشی بحران کے باوجود امریکہ میں سالانہ فی کس آمدنی ہے اور امریکی معیشت کی جیب میں موجود ٹریلین ڈالر کے کارن امریکی معیشت دنیا بھر میں پہلی پوزیشن پر فائز ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت یورپی یونین کی امیر ترین ریاستوں نے اقوام عالم میں یہ مقام اور مرتبہ جمہوری اقدار کی پاسداری اور اسکے نتیجے میں بپا ہونے والی معاشی ترقی اور مالیاتی استحکام سے حاصل کیا۔ دنیا کے بیشتر وسائل کو عالمی شیش ناگ نے جکڑ رکھا ہے۔عالمی ادارے مغرب پر جان نچھاور کرتے ہیں مگر پاکستان ایسے ترقی پزیر ملکوں کو کاسہ گدائی تھامے در در کی خاک چاٹنے پر مجبورکیا جاتا ہے۔ حکومت نے imf سے قرض نہ لینے کا عہد کیا تھا مگر یہ عہد متزلزل ہوتا نظر آیا ہے۔پاکستان بھی کشگول لیکر مالیاتی اداروں اور امیر ملکوں سے نئے قرضہ جات کے لئے بیتاب و بے قرار ہے۔ ارباب اختیار یہ نہیں جانتے کہ کشکول چاہے لکڑی کا ہو یا ہیروں اور موتیوں سے کشکول کشکول ہی رہتا ہے۔ سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق حکومتی قرضوں کا مجموعہ 119 کھرب 96 ارب سود کی ادائیگی8 کھرب 4ارب جبکہ قرضوں کی واپسی 6 کھرب اور 69 ارب ہے ۔قرضوں کا حجم کل قومی پیداوار کا66.6 ٪ ہے۔پچھلے مالی سال میں15 کھرب اور58 ارب کے محصولیات قومی خزانے میں جمع ہوئے جس میں سے7 کھرب50 ارب قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوئی۔4 کھرب41 ارب دفاعی مد میں خرچ ہوئے۔15.58اربFBR کو دئیے گئے جبکہ بیلنس میں 351بلین روپے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں کے لئے بچ گئے جو دونوں کے لئے انتہائی کم ہے اور کسی بھی صورت میں اخراجات پوری نہیں کرسکتی۔ گنجی روئے گی کیا اور نہائے گی گیا۔ ان حالات میں مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کے علاوہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ معاشی پالیسی مفلوج ہوچکی۔ یوں روز بروز توانائی کا بحران سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح اگے بڑھ رہا ہے۔اقتصادی پیہہ مکڑی کی چال اور سست روی سے چل رہا ہے۔ طبقہ اشرف ایک طرف نہ تو قرضہ جات واپس کرتا ہے دوسری جانب یہی بنارسی ٹھگ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ظلم تو یہ ہے کہ خسارے کو پورا کرنے کے لئے چھوٹے ٹیکس والوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ یہی طبقہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کسٹم حکام کی کارکردگی کا شاہکار ملاحظہ ہو۔افغان ٹرانزٹ کے نام پر کسٹم ڈیوٹی متعلقہ اداروں کی معاونت سے چوری کی جاتی ہے۔ لندن ٹائمز آن لائن کی رپورٹ کے مطابق پچھلے2.5 سالوں میں پاکستانی حدود میں350000 کنٹینرز داخل ہوئے مگر29000 منزل مقصود پر نہ پہنچ سکے۔توانائی اور پاور کے شعبے میں کرپشن کے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ ایک تھرمل پاور کو ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے یونٹ کو 4.5 کروڑ روپے سالانہ کرائے کی مد میں ادا کررہے ہیں جبکہ اس یونٹ کی قیمت4 کروڑ روپے فی میگاواٹ سے زیادہ نہیں۔نندی پور پاور ہاوس425میگاواٹ کا ہے جسکی تنصیب کے لئے329 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا گیا ۔نندی پور تھرمل پلانٹ کو کرائے کی مد میں ادا کی جانیوالی رقم پلانٹ کی اصل قیمت سے کہیں زائد ہے ۔ ارباب بزرجمہر اگر عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں جمہوریت کے استحکام کی خواہش رکھتے ہیں سیاسی جماعتوں کو جمہوری روایات کی پاسداری کرنے کو پسند کرتے ہیں لاقانونیت بھوک غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہمت رکھتے ہیں تو کرپشن کے ناسور کو زندہ درگور کرنا ہوگا۔کرپشن کا خاتمہ معاشی اور سیاسی نظام کے انہدام کو روک سکتا ہے-
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140714 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.