چھوٹی اسکرین کا بڑا فن کار - شاہ محمد شاہ

عزم و عمل کا پیکر، جہد مسلسل کی قابل رشک داستان، ایک زبردست اداکار، ایک کامیاب بزنس مین جبکہ بحیثیت انسان، ہر دل عزیز شاہ محمد شاہ۔ اس شخص کی خوبی یہ ہے کہ آپ جب بھی اس سے ملیں وہ آپ کو ایک نئے جذبے، نئے جوش اور ولولے سے سرشار ملے گا۔ ہمہ جہت شخصیت اوربے پناہ صلاحیتوں کے مالک شاہ محمد شاہ کو قدرت نے بہت نوازاہے مگر اس کے پیچھے شاہ محمد کی انتھک محنت، شبانہ روز جدوجہد اور عزم و حوصلے کا اہم کردار ہے۔ اپنی کامیابیوں کو وہ خدا کی عنایت اور والدین کی دعاﺅں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اور سچ ہی تو ہے ،ورنہ آج سے کوئی 20برس قبل جب وہ کراچی آئے تھے تو ان کے دامن میں ماسوائے والدین کی دعاﺅں، کچھ ناتواں اُمیدوں اور چند سنہرے خوابوں کے علاوہ کچھ بھی تو نہ تھا۔ مگر پھر شاہ محمد نے بلند ارادوں کے ساتھ تقدیر کی شاہ راہ پر اپنا سفر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس منزل کو تسخیر کر لیا جس کے لیے انہوں نے خواب دیکھا تھا۔

شاہ محمد شاہ کی پیدائش 3اکتوبر کی اور اسٹار Libraہے۔ عموماً اس اسٹار کے حامل لوگ متوازن، ذمے دار، صاف گو، کھرے اور بے لو ث مشہور ہیں اور یہ خوبیاں شاہ محمد شاہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اداکاری جیسے مشکل اور کل وقتی پروفیشن کے ساتھ ساتھ کاروباری مصروفیات اور پھر فیملی کے لیے مناسب وقت نکالنا، یہ ذمہ داری اور عزم و عمل کی داستان ان نوجوانوں کے لیے ایک پیغام اور درس ہے جو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار حالات قسمت، اور حکومت کو قرار دیکر محنت اور جدوجہد سے فرار کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کامیابی کے لیے شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں جبکہ درحقیقت کامیابی کی منزل کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ بقول شاہ محمد ”کامیابی ہمیشہ وقت پر اور محنت سے ملتی ہے!“ تو بس اپنی باری کا انتظار کیجئے اور شاہ محمد شاہ کی کامیابی کی اس داستان پر ایک نظر ڈالئے۔

پہلے تو اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
٭میرا تعلق سندھ کے ایک خوب صورت شہر کنری سے ہے جہاں میری پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں کے مختلف اسکولوں سے حاصل کی۔ عمر کوٹ اور میر پور خاص کے تعلیمی اداروں سے پڑھا۔ میرے والد ریلوے کے ملازم تھے لیکن اس زمانے میں ان کی تنخواہ بہت کم اور کنبہ کافی بڑا تھا۔ ہم 9بہن بھائی تھے اور ہزار2ہزار میں والدین کے لیے ہم تین بھائیوں اور چھے بہنوں کو پالنا بہت مشکل تھا۔ لہٰذا والد صاحب نے ایک چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا جس میں انہیں نقصان ہوا اور قرضوں کے بوجھ تلے دب کر حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ چونکہ میں بھائیوں میں بڑا تھا لہٰذا اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے 90کی دہائی میں کراچی چلا آیا۔ تب حالت یہ تھی کہ میرے پاس کراچی آنے کے پیسے نہیں تھے۔ اجنبی شہر اور جیب خالی۔ نہ کوئی دوست نہ ٹھکانہ۔ ایک دوست سے 500روپے ادھار لیکر کراچی آ گیا اور بہت نیچے سے جدوجہد کا آغاز کیا۔ چھوٹی موٹی جاب تلاش کر کے اس شہرمیں جگہ بنانے کی کوشش کی اور جو پہلی ملازمت ملی، اس سے 800روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ کمپنی کے دوستوں کے ساتھ ہی مشترکہ رہائش اختیار کر لی جہاں کھانا خود پکاتے تھے، کپڑے بھی خود ہی واش کرتا تھا۔ حد تو یہ تھی کہ کرائے کے پیسے بچانے کے لیے زیادہ تر پیدل سفر کرتا تھا۔ مجھے کرکٹ کھیلنے کا جنون تھا، اکثر اتوار کو ہم دوست ہاکس بے جا کر اپنا شوق پور اکرتے اور پیدل ہی نکل پڑتے تھے۔ بڑی مشکل سے پیسے جوڑ جور کر ایک موٹر بائیک خریدی جو ایک دوست کی شادی میں ہال کے باہر سے چوری ہو گئی۔ غرض تقدیر نے بہت آزمائش کے بعد سکھ کے دن دکھائے اور میں اس قابل ہو سکا کہ اپنی فیملی کے لیے کچھ کر سکوں۔
 

image
image

اس جدوجہد میں تعلیمی سرگرمیوں پر کتنا اثر پڑا؟
٭میں نے انٹرمیڈیٹ تو میر پور خاص سے کر لیا تھا، پھر جب کراچی آیا تو ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ کراچی یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری لی۔ اس کے علاوہ برٹش قونصلیٹ سمیت مختلف اداروں سے شارٹ کورسز بھی کئے جن سے اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھایا۔ دراصل جب آپ اپنے ٹارگٹس کا تعین کر لیتے ہیں تو پھر منزل کو پانا مشکل نہیں رہتا۔ میں نے اپنی جدوجہد کی ابتداءمیں ہی طے کر لیا تھا کہ محنت اور صلاحیت سے اس مقام تک پہنچنا ہے اور پھر خدا کی مدد اور والدین کی دعاﺅں سے میں اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ کب آیا؟
٭خدا کی مہربانی سے جلد ہی میں نے سیلز اینڈ مارکیٹنگ کے حوالے سے پہچان بنا لی۔ فارما انڈسٹری کے بعد میں آٹو موبائل کی فیلڈ میں آ گیا اور سوزوکی کمپنی جوائن کر لی۔ 1996ءمیں اپنی فیملی کو کراچی بلا لیا اور والد صاحب کا ٹرانسفر بھی کرا دیا۔ اس کے بعد شادی ہو گئی جو میرے لیے بے حد لکی ثابت ہوئی۔ سمجھئے یہی میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ آج اوپر والے کی مہربانی سے بہنوں کی شادیاں کرا چکا ہوں، بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ سیٹل کر دیا ہے، میرے بھی تین بچے ہو چکے یں جو دادا، دادی اور ہم سب کی آنکھوں کی تارے ہیں۔ خدا نے مجھے میری حیثیت سے بڑھ کر خوشیاں دے دی ہیں جس کے لیے میں ہمیشہ اپنے رب کا شکر گذار رہتا ہوں۔

سیلز او رمارکیٹنگ سے اچانک ایکٹنگ اور ماڈلنگ کی طرف کیسے آ نکلے؟
٭جن دنوں میں سوزوکی کمپنی سے وابستہ تھا تو اشتہاری معاملات کے حوالے سے اکثر ان کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی اورینٹ جانا ہوتا تھا، وہیں میری ملاقات احسان علی زیدی سے ہو گئی جو کہ ان دنوں این ٹی ایم کے لیے دو سیریلز ”لگام“ اور ”بند دروازے“ ڈائریکٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے آفر دی تو میں انکار نہ کر سکا۔ ان دونوں ڈراموں سے اتنا مشہور ہو گیا کہ پھر ایکٹنگ کا چسکا لگ گیا اور میں اسی فیلڈ کا ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد کئی ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ماڈلنگ بھی کی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں مگر اب تک 60سے زیادہ سیریلز، ٹیلی فلمز اور سنگل پلے کر چکا ہوں۔ 15کمرشلز کئے ہیں جبکہ کئی شوز بھی ہوسٹ کرنے کا موقع ملا۔

اگر اتنے سارے کرداروں میں سے ٹاپ تھری کیریکٹرز اور ڈراموں کا انتخاب کرنا پڑے تو آپ کی چوائس کیا ہو گی؟
٭میرا سب سے اہم سیریل ”مائے نی“ ان دنوں اے آر وائی سے آن ایئر ہے جس میں میرا کردار ایک ڈاکٹر کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو کام مجھ سے بابر جاوید نے لیا ہے، کوئی دوسرا ڈائریکٹر نہیں لے سکا۔ بابر جاوید کا ہی ایک اور سیریل ”صندل“ بھی میرے کردار کے حوالے سے لوگوں کو یاد رہا جبکہ ایک اور ڈرامہ سیریل ”مشک بار“ پی ٹی وی سے آن ایئر ہوا، جس کے ڈائریکٹر منظور قریشی تھے، یہ تینوں سیریلز مجھے ذاتی طور پر بے حد پسندآئے۔
 

image



آپ نے ذاتی پروڈکشن بھی کی؟
٭جی ہاں ایک ٹیلی فلم بنائی تھی ”لو“ کے نام سے مگر یہ تجربہ کافی تلخ اور بھیانک ثابت ہوا۔ عبداللہ بادینی کو ڈائریکٹر لیا تھا جنہوں نے بے حد مایوس کیا۔ 9لاکھ سے زیادہ خرچ ہو گئے مگر اتنی مہنگی پروڈکشن کی کوئی چینل اچھی پرائس دینے کو تیار نہیںتھا لہٰذا کافی نقصان ہوا، ظفر معراج نے اس کا اسکرپٹ لکھا تھا اور کاسٹ بھی کافی بڑی تھی جس میں سارہ چوہدری، شفیع محمد اور دیگر آرٹسٹ شامل تھے مگر مجھے اس پروڈکشن سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

تو کیا آئندہ پروڈکشن کرنے کا ارادہ نہیں ہے؟
٭دراصل یہ فل ٹائم جاب ہے اور میری کاروباری مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ میں پروڈکشن کے لیے وقت نہیں نکال سکتا۔ پھر چینلز کی حالت یہ ہے کہ چند بڑے پروڈیوسرز کو چھوڑ کر اگر آپ کوئی پروڈکشن کرتے ہیں تو وہاں بیٹھے لوگ آپ کو بلیک میل کرنے لگتے ہیں۔ ایسے کام کا کیا فائدہ جس میں ٹینشن زیادہ اور مالی منفعت کا امکان کم ہو۔

ڈائریکشن کرنے کا پلان ہے؟
٭اس بارے میں کبھی سوچا تو نہیں ہے مگر وقت ملا اور کوئی بہت غیر معمولی اسکرپٹ ہاتھ لگا تو ضرور کروں گا۔

ایسا کون سا ڈائریکٹر ہے جس نے آپ کو سمجھ کر کردار دیا اور جو آپ کے اندر کے فن کار کی تسکین کا باعث بنا ہو؟
٭بہت سے ڈائریکٹرز ہیں جنہوں نے مجھ سے بہترکام لیا اور مجھے اچھے کردار دیئے جن میں منظور قریشی ہیں، بابر جاوید ہیں، مگر اب تک اس فیلڈ میں کوئی گاڈ فادر ٹائپ ڈائریکٹر نہیں ملا۔ جو میرے اندر کے فن کار کو پوری طرح کھوج کر باہر لا سکے۔

اتنا عرصہ شوبز میں گزارا، کبھی کسی سے پیار ہوا یا کوئی ساتھی فن کارہ جس نے دل کی گھنٹیاں بجا دی ہوں؟
٭میری خوش قسمتی یہ رہی کہ شوبز میں آنے سے پہلے ہی شادی کر لی تھی لہٰذا ایسا کوئی چانس بنتا بھی تو کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پھر خدا نے بیوی اتنی خوبصورت اور پیار کرنے والی دی ہے کہ ا دھر ادھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ معاملات تو انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں کہ کب بھٹک جائے۔ دل بے چارے کو تو ہم خواہ مخواہ بد نام کرتے ہیں۔

آپ نے اداکاری کے ساتھ ساتھ سیلز اور مارکیٹنگ میں بھی خاصا نام کمایا، سیلی بریٹی ہونے کا بزنس کوکتنا فائدہ ہوا؟
٭دراصل میرا بزنس ڈپینڈ کرتا ہے پبلک ریلشننگ پر.... اور اداکاری کے حوالے سے میرا حلقہ احباب کا فی وسیع ہوا ہے لہٰذا شوبز کے زیادہ تر لوگ گاڑیوں کی خرید و فروخت کے لیے مجھ سے ہی رابطہ کرتے ہیں اور اس حوالے سے مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ میرے شوروم پر زیادہ تر وہی کلائنٹ آتے ہیں جو مجھے برسوں سے جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں بہت زیادہ سوشل ہوں۔
 

image

ملک کے موجودہ معاشی حالات سے آپ کے بزنس پر بھی خاصا اثر پڑا ہو گا، کیا لوگوں کی قوتِ خرید واقعی متاثر ہوئی ہے؟
٭معاشی حالات تو پوری دنیا کے تباہ ہو چکے ہیں، حال ہی میں آپ نے دیکھا کہ نیو یارک کی وال اسٹریٹ تحریک نے دنیا کے 82ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی،یونان، اسپین، پرتگال، آئرلینڈ، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور آسٹریلیاجیسے ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک کا حال آپ نے دیکھ لیا جہاں جاکر رہنااور بسنا پاکستانیوں کا خواب ہوا کرتا تھا مگر آج یہ ممالک خود اپنے لوگوں کو روزگار اور بنیادی انسانی سہولتیں دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کے حالات تو پھر بھی غنیمت ہیں۔ یہاں ابھی لوگ سڑکوں پر نہیں آئے۔ امن و امان کی صورتحال زیادہ تشویشناک ہے جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں پر اثر پڑتا ہے لیکن مجموعی طور پر ہم اب بھی آ دھی دنیا سے بہتر حالت میں ہیں ۔اگر پاکستان میں صرف لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال کنٹرول میں آ جائے تو پاکستان جنت نظیر ہے۔

دوسرے کئی پاکستانیوں کی طرح کبھی آپ کو یہ خیال نہیں آیا کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ کا رخ کیا جائے؟
٭عالمی کساد بازاری کی جو صورتحال آج ہے میں اس کا ادراک بہت پہلے کر چکا تھا، اس لیے کبھی بیرون ملک جانے کا نہیں سوچا، ہاں پاکستان سے باہر گیا ضرور ہوں مگر کبھی کسی ملک میں مستقل سکونت یا ملازمت کا خیال نہیں آیا۔ میں جانتا تھا کہ میرا مستقبل پاکستان میں ہے۔ ہمارے لوگ دراصل اپنے ملک میں محنت سے جان چھڑاتے ہیں اور باہر جا کر پیٹرول پمپ، گیس اسٹیشن یا پھر سویپر کی نوکری کر کے پیسہ کمانے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ اتنی ہی محنت کر کے آپ اپنے ملک میں انڈسٹریلسٹ بن سکتے ہیں۔ پاکستان سے باہر تمام زندگی غیروں کی خدمت کر کے بھی آپ تارکین وطن ہی کہلاتے ہیں۔

آپ نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے،کیا سیلزاورمارکیٹنگ میں اتنا اسکوپ ہے کہ نوجوان اسے کیریئر کے طور پر اپنا سکیں؟
٭یہ تو دور ہی مارکیٹنگ اور سیلز کا ہے۔ ہمارا معاشی سسٹم اوپر سے نیچے تک سیلز اور مارکیٹنگ پر انحصار کرتاہے، نوجوانوں کو میں یہی پیغام دوں گا کہ آپ اپنے لیے خواہ کوئی فیلڈ چنیں، اپنی منزل اور ٹارگٹس کا تعین کر کے پھر اُس معیار کی محنت کریں۔ اگر میں BMWیا فیراری کا خواب دیکھتاہوں تو اس کے لیے زیادہ محنت کروں گا۔ اگر میری سوچ موٹر بائیک تک محدود ہے تو پھر میں اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ یہ چیز مجھے کم محنت سے بھی مل جائے گی۔ لہٰذا اپنے ٹارگٹس کا تعین کریں اور پھر اس تک رسائی کی پلاننگ کریں۔ پلاننگ کے بغیر محنت بھی بے کار جاتی ہے۔ سیلز او رمارکیٹنگ کا بنیادی فارمولا یہی ہے۔

دس سال بعد خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
٭اپنے موجودہ مقام سے بہت آ گے.... مزید کامیابیاں میری منتظر ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے حصے کا کردار دنیا کی اسٹیج پر بھرپور انداز سے ادا کر کے یہاں سے جاﺅں۔ کچھ ایسا کر جاﺅں کہ لوگ مجھے اچھے لفظوں میں یاد رکھیں اور دوست، جن کے لیے میں ہمیشہ بے لوث ہو کر سوچتا ہوں، وہ مجھے یاد ضرور کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی فیملی اور اپنے پیاروں کے لیے اتنا کچھ کرجاﺅں کہ انہیں وہ دن نہ دیکھنا پڑیں جو میں نے زندگی کی ابتداءمیں دیکھے.... اور اسی کے لیے ہی میں آج بھی رات دن محنت کرتا ہوں۔
UMAR KHITAB KHAN
About the Author: UMAR KHITAB KHAN Read More Articles by UMAR KHITAB KHAN: 10 Articles with 18649 views Secretary General:Karachi Film & TV Journalists Welfare Association.
Executive Editor: Monthly Metro Live
Published from Karachi.
Ex Member:Central
.. View More