بچہ مزدوری کے خلاف تسلیم شدہ
تمام قوانین اور ضوابط کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے دنیا بھرمیں گلوکاری، رقص اور
طنز و مزاح تک کے مقابلوں‘ فلموں‘ ٹی وی پروگراموں اور اشتہارات کو نہ صرف
دھڑلے سے بنایا جارہا ہے بلکہ انتہائی شوق سے دیکھا بھی جارہا ہے جن میں
بچے اپنی ادکاری کا جوہر پیش کرتے ہیں۔ یہ بچے راتوں رات ا سٹار بننے کے
خواب دیکھتے ہیں۔یہ خواب پورا تو ہوتا ہے لیکن بہت کچھ کھونے کے بعد۔یہی
وجہ ہے کہ ممبئی میں ایسی آرٹسٹ مینجمنٹ ایجنسیوں کی بھیڑپائی جارہی ہے جو
بچوں کو کام دلواتی ہیں۔ یہاں تک کہ تمام چائلڈ آرٹسٹوں کے والدین اور
سرپرست بھی اپنے بچوں کی مارکیٹنگ اور تشہیر میںمصروف رہتے ہیں۔ ان میں بہت
سے ایسے ہیں جو اپنے کام دھندوں اور نوکریوں کو چھوڑ کر اپنے بچوں کیلئے
کسی’ صحیح موقع‘کے فراق میںدن رات کھپارہے ہیں۔ چمک دمک کی اس دنیا میں اب
بچوں کی مانگ پہلے کے مقابلے میں چار گنا بڑھ گئی ہے۔جبکہ ہزاروں‘ لاکھوں
بچوں میں سے چند ایک کے علاوہ باقی سب کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دنوں خبر ملی کہ سنسر بورڈ نے ملیالم کی
مشہور اور اعزاز یافتہ بچوں کی فلم ’کےشو‘ کے ہندی ورژن کو پاس کر دیا ہے۔
اسے بنانے والی سرکاری تنظیم چلڈرن فلم سوسائٹی سے اس فلم کے تصویر
یںبھیجنے کی گذارش کی گئی تو جواب آیا کہ ابھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔
اب ایک دوسری مثال لیجئے۔ ممبئی کے ایک فلم ساز نے اپنی بنائی ہوئے بچوں کی
فلم ’چلر پارٹی‘Chiller Party سلمان خان کو دکھائی۔ سلمان اس فلم سے اتنے
زیادہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی سماجی تنظیم بیئنگ ہیومنBeing Human کے
بینر تلے اسے ریلیز کرنا منظور کر لیا اور ان کے کہنے پر رنبیر کپور جیسے
اسٹار نے بھی اس فلم کے ایک گانے میں کام کر ڈالا۔یہ دو مثالیں بچوں کی
فلموں کے تئیں فلموں سے وابستہ لوگوں کی سوچ اور نظریوں کی ترجمانی کرتی
ہیں ۔ کہنے کو اپنے یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے چلڈرن فلم سوسائٹی نامی ایک
سرکاری ادارہ ہے جو بچوں کے لئے اچھا سنیما بنانے ، دکھانے اور اسے حوصلہ
افزائی کرنے کا کام کرتی ہے لیکن اس کام کے سلسلے میں یہ کتنی سنجیدہ ہے
اور اس کے کتنے مثبت نتائج نکل کر آ رہے ہیں ، یہ بحث ہی نہیں بلکہ تنازع
کا بھی موضوع ہے۔حالانکہ چلڈرن فلم سوسائٹی نے ماضی میں کئی اچھی فلممیں
بال شیواجی‘ہیلو وغیرہ بنائی اور ریلیز کی ہیں لیکن عام طور پر بچوں کی
اچھی فلموں کے تئیں اس کا رویہ مایوس کن ہی رہا ہے۔ وشال بھاردواج کی ہدایت
میں بنی پہلی فلم ’مکڑی‘ کو اس ادارہ کی طرف سے رجیکٹ کرنے کا قصہ تو خیر
اب پرانا ہو چکا ہے۔ یہی دیکھئے کہ کل سے حیدرآباد میں بین الاقوامی بال
فلم فیسٹیول شروع ہو رہا ہے۔لیکن ہے کیا کہیں کوئی خبر ، کوئی بات؟ دراصل
ہر کام کو سرکاری پن سے کرنے کی ذہنیت ہی اس تنظیم کے مقاصد کے آڑے آ رہی
ہے۔
سرکاری امداد سے پرے ہندی فلم انڈسٹری نے ہمیشہ سے ہی بچوں کے لئے اور بچوں
کے بارے میں فلمیں بنائی ہیں۔ ان میں گلزار کی ’پری چے‘ہو یا راج کپور کی
’بوٹ پالش۔ وشال نے بھی ’مکڑی‘ کو پھر اپنے ہی دم پر بنایا اور وہ ایک
بااثر ڈائریکٹر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ بعد میں انہوں نے ’دی بلو
امبرےلا‘ بھی بچوں کی دنیا پر ہی بنائی۔ گلزار کی ہی ’کتاب‘ ، شیکھر کپور
کی ’معصوم‘ ، ’جاگرتی‘ ، 'دور گگن کی چھاووں میں‘ جیسی کئی کوششیں نجی فلم
سازوں کی محنت سے ہی سامنے آئیں۔ماہرین کی مانیں تو بچوں کو بچہ سمجھنے کی
غلطی قطعی نہیں کرنی چاہئے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ بڑوں کے لئے بننے والی
فلموں میں ان فلموں نے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے جن میں بچوں کے لئے بھی
کچھ تھا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم ’راون‘
کو ہی لے لیجیے۔ بھلے ہی بڑی تعداد میں اسے بڑوں نے بھی دیکھا لیکن اسے
چلانے والے بچے ہی ہیں کیونکہ ویڈیو گیمز ، 3 ڈی ، اسپیشل افیکٹس جیسی تمام
باتیں انہیں ہی زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ دراصل بچوں کومصالحے اور چٹ پٹاپن
ہمیشہ سے پسند رہا ہے۔ ’روبوٹ‘ کو آپ بھلے ہی ایک سے دو بار دیکھ کر کنارے
ہو جائیں لیکن بچے اسے بار بار دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی
دلچسپی بدل رہی ہیں اور اسی کے مطابق سنیما کا فلیور اورکلیور بھی۔
شاہ رخ خان کی فلم ’تیسرا ون‘ کے پہلے ہی سین کا آغاز ایک ایسے ہیرو کے ذکر
سے ہوتا ہے جس کا نام ہے ’لی‘ اور جس کی تین ہیروئین ہیں جن کے نام ہیں ؛
’اس کی لی‘ ، ’اس کی لی‘ اور ’سب کی لی ‘۔ پھر اس فلم میں تمل زبان کے
الفاظ ’کنجم کنجم‘اور’کو نڈوم کونڈوم‘کہنے اور گانوں میں نیم برہنہ لڑکیوں
کو نچاکر اوچھے پینتروں کا استعمال کیاگیا ہے کہ اسے دیکھنے کے لئے آنے
والے بچوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ آنے والے ان کے ممی پاپا کے تفریح
کے لئے کیا گیا۔ وہ ’دبنگ‘ یا ’سنہم‘ کو دیکھنے جائیں گے تو بچوں کو ساتھ
میں گھسیٹ لیں گے لیکن کسی ’اسٹینلی کاڈبہ‘ کے لیے ان کے ساتھ تھیٹر میں جا
کر ’اتنے مہنگے‘ ٹکٹ لینے کی بجائے انہیں وی سی ڈی کا انتظار کرنے کو کہیں
گے۔ صاف ہے کہ اگر بچوں کے لئے زیادہ مثبت تفریح پسندنہیں آ رہی ہے تو اس
کے لواحقین کے بارے میں ان فلموں کے تئیں مایوسی بھی ذمہ دار ہے۔ ورنہ کیا
وجہ تھی جو کافی ستائشوں اور انعامات کو حاصل کرنے کے بعد ’آئی ایم کلام‘
کو باکس آفس پر شکست کھانی پڑ گئی؟
مبصرین کے نزدیک بچوں کے لئے فلمیں بنانا الگ بات ہے اور بچوں کے بارے میں
فلممیں بنانا الگ۔ مثال کے طور پر ’تارے زمین پر‘ کو کسی بھی نظریے سے بچوں
کی فلم نہیں کہا جا سکتا۔ یہ فلم دراصل بچوں کے ماں باپ کے لئے بنی ہے۔ اسی
طرح سے ’ببل گم‘ بھی یہی سکھاتی ہے کہ چھوٹے پہنچے بچوں کو ماں باپ کیسے
ہینڈل کریں ۔ ’اڑان‘ بچوں کے خوابوں کو پر دینے کی وکالت کرتی نظر آتی ہے۔
حالانکہ اس بھاگ دوڑ میں کافی ساری خراب فلمیں بھی آ رہی ہیں لیکن کچھ ایک
اچھی کوشش بھی ہو رہی ہیں اور ماں باپ چاہیں تو ان سے بہت کچھ سیکھ کر اپنے
بچوں کو سکھا سکتے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر اپنے یہاں کے بچوں کا
ذائقہ اورنظریہ میں تبدیلی آئی ہے تو اپنے یہاں کابچوں کا سنیما بھی اب
اپنے عہد طفولیت سے آگے بڑھ چکا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک شوٹنگ کے دوران کیمرہ مین نے ایک چائلڈ آرٹسٹ کی توجہ اپنی
طرف متوجہ کرنے کے لئے کہا کہ بیٹے ادھر دیکھو ، ابھی اس میں سے کبوتر نکلے
گا۔ اس پر بچہ بولا انکل ، بچوں جیسی باتیں مت کرو ، توجہ ٹھیک کرو۔آپ
چاہیں تو اسے ایک لطیفہ سمجھ کر مسکرا سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار
کرنا مشکل ہے کہ اب چھوٹے بڑے پردے پر اداکار بچے آ رہے ہیں وہ پہلے کے
فنکاروں کے مقابلے نہ صرف کافی الرٹ ہیں بلکہ یہ لوگ پوری تیاری کے ساتھ
گلیمر کی دنیا میں اپنا لوہا منوانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ زمانہ اب
نہیں رہا کہ کسی بچے کی صورت ‘حرکتوں اور شرارتوں سے متاثر ہوکر کسی نے اسے
اپنی فلم میں لے لیا لیکن شوٹنگ کے دوران اس بچے سے ایک ڈائیلاگ بلوانے یا
ایک ایکشن کروانے میں فلم یونٹ کے پسینے چھٹ گئے۔ آج تو ان بچوں کے ماں باپ
باقاعدہ انہیں ٹریننگ دیتے دلاتے ہیں کہ کیمرے کے سامنے کیسے پیش آنا ہے
اور اگر کبھی میڈیا سے سامنا ہو جائے تو کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔اب
بچوں کی مانگ فلموں کے علاوہ ٹی وی سیریلوں ، رئیلٹی شو ، اشتہارات اور
یہاں تک کہ تھیٹر میں بھی کافی ہونے لگی ہے۔ کبھی دہلی کے دشینت چوہان نام
کاایک شخص اپنی بیٹی کے لئے ممبئی میں ہر کسی سے ملا کرتے تھے۔ کہنے کی
ضرورت نہیں کہ ان کی وہی گلوکارہ بیٹی آج گھر گھر میں سنیدھی چوہان کے نام
سے مشہور ہیں۔ان دنوں پیئرس صابن اورہیونڈائی کار کے اشتہار میں نظر آرہی
چار سال کی بچی ضیاءسولنکی کے والد بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو جو بھی کام
دیا جاتا ہے ، وہ اسے کافی آسانی سے سمجھ اور کر لیتی ہے۔ وہ اتنا جانتی ہے
کہ جب سیٹ پر ’ایکشن‘کہا جائے تو اسے ضیاءکی طرح نہیں بلکہ اس کردار کی طرح
سے پیش آنا ہے جو اسے سمجھایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں آئی فلم ’ببل گم‘ کے کشور
ہیرو ڈےلجاد سنجے ہرالے جب اس فلم کے پروموشن کے لئے میڈیا سے مل رہے تھے
تو اس وقت ان کے والدعلاج کیلئے خصوصی نگہداشت والے یونٹ میں داخل تھے۔ کسی
نے ذکر کیا تو ڈےلجاد کا جواب تھا کہ ایک اداکار کے لئے اس کا کام سب سے
پہلے ہے ، باقی سب بعد میں۔ واضح ہے کہ آج بچوں کی اداکاری کے پیشے سے
وابستہ نونہال اپنے پیشے کی نزاکت اور مطالبات کو اب بخوبی سمجھنے لگے ہیں۔
بچوں کے ساتھ متعدد فلموں میں کام کر چکے ڈائریکٹر گلزار بتاتے ہیں
کہ’پریچے‘ بنانے کے دوران وہ اپنے ننھے منے فنکاروں کو ’موڈ‘ میں لانے کے
لئے اکثر ان کے ساتھ کےرم بورڈ کھیلا کرتے تھے۔ متعدد بچوں کے ساتھ کام کر
چکے شیکھر کپور کا کہنا ہے کہ بچے بہت موڈی آرٹسٹ ہوتے ہیں اور ان سے صحیح
کام کروانے کے لئے انہیں کافی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ فلم ’راہل‘ کے ایک سین
میں ننھے اداکار یش کو اس کی ممی نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہدایتکار پرکاش جھا
کے کہنے پر کوڑے کے ڈھیر میں بٹھایا تھا جس کے بعد یش بیمار بھی پڑ گیا
تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میں ایسا نہیں کرتی تو ان200بچوں میں کسی کے
بھی ماں باپ اپنے بچے کو لے کر آ جاتے جن میں سے یش کو منتخب کیا گیا تھا۔
’تارے زمین پر‘ کے مصنف اور تخلیقی ڈائریکٹر رہے امول گپتے ادھر ’اسٹینلی
کا ڈبہ‘جیسی بچوں کی شاندار فلمیں لے کر آئے تھے۔ بچوں کے ساتھ وہ مسلسل
کام کرتے رہتے ہیں۔اگر وشال بھاردواج کی ’مکڑی‘ اور 'دی بلو امبرےلا‘کو
چھوڑ دیں تو ایسا نہیں لگتا کہ بچوں کی فلموں میں کچھ بدلا ہے۔ فلم میں اگر
ایک کتایا بلی کوپیش کیا جارہا ہو تو شوٹنگ کے دوران اینمل ویلفیئر بورڈ کا
آدمی سیٹ پر بٹھایا جاتا ہے کہ ان پر کہیں ظلم نہ ہوجائے لیکن بچوں پر
مظالم کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ۔اس کے برعکس ماں باپ انہیں یہ کہتے
ہیں کہ بیٹا کرو ، بیٹا کرو۔ بچوں کو اسکول سے باہر رکھ کر کام کروائیں گے
اور پھر اس کیلئے ٹیوٹر رکھ کرکہیں گے کہ اب پڑھو بھی۔ ادھر ریئلٹی شو کے
سیٹ پر جو چائلڈکاؤنسلر رکھے جا رہے ہیں وہ اصل میں خود کو صحیح دکھانے کی
کوشش ہے۔ آپ بچے کو ناشتہ ، لنچ اور ڈنر مت دیجئے اور پھر اس کو ملٹی وٹامن
گولیاں دے دیجئے تو اس کا کوئی یہ مطلب تھوڑا ہی ہواکہ اسے درست خوراک مل
گئی۔گذشتہ دنوں جون کے مہینے کے دوران ممبئی سے خبر رساں ادارے روئٹرز کے
ایک جائزے میں 14 سالہ ریما چکرورتی کی کہانی بیان کی گئی تھی جو ایسے ہی
ایک ٹی وی شو کے آڈیشن کے سلسلے میں اپنے والدین کے ساتھ ممبئی آئی ۔شام کے
پانچ بجنے کو آ گئے ہیں لیکن ریما کو دوپہر کا کھانامیسر نہیں تھا۔ چمکدار
گلابی اور سبز لباس میں ملبوس ریما بار بار نظریں اٹھا کر اپنے والد سے
شکایت کرتی کہ اسے شدید بھوک لگی ہے اور اسے بخار بھی محسوس ہو رہا ہے۔سارا
دن ریما گلوکاری کے ایک ٹی وی شو کی سخت شوٹنگ میں گزارتی لیکن دن تھا کہ
ختم ہی نہیں ہوتا۔ اسے جلد ہی لباس تبدیل کر کے ایک بار بار ججوں کے ایک
پینل کے سامنے پیش ہونا ہوتا تھاجہاں ناظرین بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے
تھے۔ یہ سلسلہپانچ چھ گھنٹوں تک چلتا جبکہ Zee ٹی وی کا پروگرام سارے گا ما
پا لٹل چیمپئنز بے حد شوق سے دیکھا جاتاتھا ۔ زی ٹی وی کے اشیشش گول واکر
کے مطابق یہ پروگرام ان کے چینل کے کامیاب ترین پروگراموں میں سے ایک تھا۔
ریما اس پروگرام کے پندرہ سال سے کم عمر کے اٹھارہ لڑکے لڑکیوں میں سے ایک
تھی۔ ہر ہفتے دو شرکاءکو پروگرام سے خارج کر کے گھر بھیج دیا جاتا ۔ جیتنے
والے لڑکے یا لڑکی کو زی ٹی وی کی طرف سے کنٹرکیٹ ملتا اور اسے موسیقی کے
ان پروگراموں میں شرکت کے مواقع ملتے جو پورے ملک میں ٹی وی پر نشر ہوتے
تھے ۔ریما مغربی بنگال کے چھوٹے سے قصبے بہرام پور سے تقریباً دو ہزار
کلومیٹر کا طویل سفر کر کے ممبئی پہنچی تھی جہاں اس کے والد انوپ چکرورتی
کی مٹھائیوں کی ایک دکان ہے جسے چھوڑ کر وہ تین ماہ کی فلم بندی کیلئے
ممبئی آن بیٹھے تھے تاکہ نہ صرف اپنی بیٹی کا شوق پورا کر سکیںبلکہ اس
پروگرام میں شمولیت کے ذریعے شاندار مستقبل کے دروازے کھول سکیں۔محض زی ٹی
وی کے شو سا رے گا ما پا لٹل چیمپئنز کیلئے ہی پندرہ سال سے کم عمر کے
تقریباً پچاس ہزار لڑکے لڑکیوں نے آڈیشن دیا ۔ ان میں سے مشکل سے اٹھارہ
فیصد کا تعلق شہر ممبئی سے تھا جہاں اس پروگرام کی شوٹنگ ہوتی تھی۔ باقی
تمام بچے اور ان کے گھر والے ملک کے دور دراز سے تھکا دینے والا سفر طے کر
کے ممبئی پہنچتے تھے۔
فلم ’اسٹینلی کا ڈبہ‘ میںا سٹےنلی بن کر آئے پاتھرے گھوش اس فلم کے مصنف
ڈائریکٹر امول گپتے کے بیٹے ہیں۔ چار سال کی عمر سے وہ سنیما کی باریکیاں
سیکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب میں نے ’اسٹینلی کا ڈبہ‘ بنانی شروع کی
تو یہ میرے ذمہ تھا کہ ہر بڑے کو’فلیش بیک‘ کی کھڑکی کے ذریعہ اس کے بچپن
میں پہنچا کر اس بینچ پر بٹھا دوں اور مجھے لگتا ہے کہ اس فلم کو پسند بھی
اسی لئے کیا گیا کہ اسے دیکھنے کے بعد ہر کسی کو یہ اپنے قریب محسوس ہوئی۔
میرا ایک پروجیکٹ ’تاروں کو گنتے گنتے‘ بھی ہے ، اسے بھی میں ضرور کبھی نہ
کبھی بنا لوں گا۔ بچوں کے ساتھ کام کرنا ہو تو وقت تو لگتا ہی ہے۔میں چار
سال کی عمر سے پاپا کے ساتھ سینما سیشن اور ورک شاپ کر رہا ہوں۔ میں دو
شارٹ فلمیں بھی کر چکا ہوں لیکن ’اسٹینلی کاڈبہ‘ میری پہلی فیچر فلم ہے۔ اس
فلم کو کرتے ہوئے زیادہ وقت تو ہم کھیلتے رہتے تھے۔ صرف ہفتہ کے روز ہی کام
کرتے تھے اور وہ بھی صرف دو بریک کے ساتھ۔ اسی لئے تو اسے پوری ہونے میں
ڈیڑھ سال لگ گیا۔ا سٹینلی کا کیریکٹر مجھ سے بالکل مختلف ہے لیکن اسے پلے
کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ مجھے یہ نہیں لگا کہ میں کوئی بڑا ٹاسک کر رہا
ہوں کیونکہ ہمیں کوئی بڑے بڑے ڈائیلاگ نہیں رٹنے تھے۔ پاپا ہمیں سچویشن
بتاتے تھے اور ہمیں جو کچھ بھی ذہن میں آئے ، وہ بولنا ہوتا تھا۔اس فلم میں
ا سٹینلی جیسی کہانیاں بناتا ہے ویسی کہانیاں بنانا اصل میں میرا شوق ہے
اور اسی سے ہی پاپا کو یہ آئیڈیا آیا کہ اسٹینلی کے کیریکٹر کو ایسا بنایا
جائے۔اس رول کے لئے مجھے جرمنی میں ایک ایوارڈ بھی ملا ہے۔ مجھے تو نہیں لگ
رہا تھا کہ مجھے ایسا کوئی ایوارڈ ملے گا۔ وہاں پر جب اعلان ہوا تو بھی میں
حیران رہ گیا تھا کیونکہ وہ میرا نام درست طور پر ادا بھی نہیں کرپا رہے
تھے لیکن جب پاپا مجھے آواز دینے لگے تو مجھے محسوس ہو کہ میرا ہی نام ہی
پکارا گیا ہے۔ اس فلم کے آنے کے بعد میری زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا
سوائے اس کے کہ اب میں کہیں باہر جاتا ہوں تو لوگ مجھے پہچان لیتے ہیں ،
بس۔ میں تو آج بھی پاپا کے ساتھ ورک شاپ کرتا ہوں۔ اس میں ایکٹنگ بھی ہوتی
ہے اور ڈائریکشن بھی۔ مجھے یہ سب کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ مجھے ٹیکنیک کے
بارے میں بھی تھوڑا تھوڑا پتہ چل رہا ہے اور میں جتنا سیکھتا جا رہا ہوں ،
اتنا ہی یہ کام مجھے اچھا لگتا جا رہا ہے۔ شاید اگلی گرمیوں کی چھٹیوں میں
میں کسی اور فلم میں کام کروں۔ بڑے ہوکر میں ایکٹنگ بھی کرنا چاہتا ہوں اور
ڈائریکشن بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ سنیما میں بچوں کے ساتھ کام کرنا کہیں زیادہ
آسان ہے بجائے کہ بڑوں کے ساتھ کام کرنے کے۔ بچے بڑے کھلے دل سے کام کرتے
ہیں ، وہ نیچرل ہوتے ہیں ، وہ دیانتدار ہوتے ہیں۔ تو میں کیا کام لوں ان سے
، میں ہوتا کون ہوں کام لینے والا ، وہ خود مجھے اتنا دے رہے ہیں۔ کام تو
مجھے بڑوں سے کروانا پڑتا ہے کہ یار یہ بڑا جھوٹا لگ رہا ہے ، بچے تو میرے
گرو ہیں۔ ان سے میں صرف سیکھتا ہوں ، انہیں کچھ سکھاتا نہیں ہوں۔ میں بہت
خود غرض آدمی ہوں ، میری خوشی بچوں سے سیکھنے میں ہے۔ |