امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت
میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؒ بن ادھم فقر اختیار کرنے سے پہلے ایک عظیم
سلطنت کے فرمانروا تھے ایک دن وہ اپنی خواب گاہ میں سور ہے تھے کہ اچانک
چھت پر کھٹ کھٹ اور ہائے ہو کی آواز سنی بیدار ہوکرسوچنے لگے کہ شاہی محل
کی چھت پر یہ کون شور کررہاہے جب کہ محل کے چاروں طرف پہرہ ہے ایک کھڑکی سے
انہوں نے آواز دی کون ہے ؟
یکایک انہوںنے دیکھا کہ چھت پر سے کچھ عجیب وغریب قسم کے لوگ نیچے جھانک
رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ ہم بڑی دیر سے تلاش کررہے ہیں ابراہیم بن ادھم ؒ
نے پوچھا تم کس کو تلاش کررہے ہو وہ بولے ہم اپنا اونٹ تلاش کررہے ہیں حضرت
ابراہیم بن ادھم ؒ نے کہا ارے اونٹ کا چھت پر کیا کام ؟
انہوں نے جواب دیا کہ اگر اونٹ چھت پر نہیں چڑھ سکتا تو توں اس شان وشوکت
کے ساتھ تخت پر بیٹھ کر خدا کو کیسے ڈھونڈ سکتا ہے ؟
حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے تاج وتخت پر
لات مار دی اور ہمیشہ کے لیے راہ فقر اختیار کرلی -
قارئین ہم نے گزشتہ کالم میں آپ کو ایک بھیانک سچائی سے آگاہ کرنے کی کوشش
کی اور وہ سچائی یہ ہے کہ ایک سفارت خانے میں پاکستانی سرزمین پر میرج ویزہ
کے لیے جو انٹرویو کیے جارہے ہیں ہماری اطلاعات کے مطابق اس میں معصوم
بچیوں کے ساتھ انٹرویو کے نام پر انتہائی بیہودہ سوالات کے ساتھ ساتھ ان کے
جسمانی معائنے کے نام پر وہ نازیبا حرکتیں کی جارہی ہیں کہ زبان اور قلم
انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں آج کی بیان کردہ حکایت اس لحا ظ سے اس صورتحال
پر صادق آتی ہے کہ معاشی خوشحالی اور دولت کی دوڑ میں ہم اس حد تک اندھے
ہوچکے ہیں کہ غیر ت اور بے غیرتی کے درمیان جو ایک موہوم سی لکیر ہوتی ہے
ہم اسے فراموش کرکے بے شرمی کو قبول کرچکے ہیں ورنہ غضب خدا کا کہ ایک ماہ
سے زائد عرصے سے اس غیر ملکی ایمبیسی میں یہ کام کیا جارہاہے اور آج یہ راز
افشاءہواہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن ،تحریک
انصاف ،اے این پی ،ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتوں سمیت جتنے لوگ غیرت اور
خو دمختاری کے چمپئن بنے پھرتے ہیں کیاکارنامہ انجام دیتے ہیں اور اس
بدمعاشی پر ان کا رد عمل کیا ہوتاہے ۔
قارئین دل بھی جل رہاہے اور روح تک اس تکلیف پھیل چکے ہیں جب سے ہم نے یہ
حقیقت جانی ہے ہمارا صرف اور صرف ایک مطالبہ ہے کہ اعلیٰ سطحی تحقیقات کروا
کرکے پتہ کیاجائے کہ یہ ظالمانہ سلسلہ کب سے جاری ہے اور اس کے پس پردہ
مقاصد کیاہیں ویسے توایک تیسری دنیا کے تھرڈ کلاس شہری ہونے کی حیثیت سے
ہمیں اپنی وقعت پتہ ہے لیکن ذلت کی جو انتہا اب ہم چھو رہے ہیں وہ پہلے نہ
تو دیکھی اور نہ ہی سنی -
قارئین ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ جنگ جو اقوام جب کسی علاقے یا ملک پر قبضہ
کرتی تھیں تو وہ ایک کارروائی ضرور ڈالتی تھیں کہ اس علاقے کی لڑکیوں
اورعورتوں کو ما ل غنیمت کی طرح استعمال کرتی تھیں اور اس طریقے سے وہ اس
علاقے کے لوگوں کو یہ پیغام دیتی تھیں کہ تمہاری سب سے محترم چیز بھی ہماری
دسترس میں ہے اس طریقے سے وہ شکست کھانے والی قوم کو زہنی طور پر وہ زخم
لگاتے تھے کہ وہ مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے برٹش ،ڈچ ،امریکن
کالونیوں میں یہ مثالیں موجود ہیں اور تاریخ کے صفحات ان کے سیاہ کارناموں
سے بھرے ہوئے ہیں ہمیں یوں محسوس ہوتاہے کہ اس غیر ملکی ایمبیسی نے پاکستان
کو ان شرمناک انٹرویو ز کے نام پر ایک پیغام دیاہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ
تمہاری محترم ترین چیز یعنی تمہاری ناموس بھی ہم سے محفوظ نہیں ہے اب فیصلہ
حکمرانوں نے کرنا ہے عوام نے کرنا ہے ،سیاست دانوں نے کر ناہے کہ وہ بے
غیرتی کی زندگی پر راضی ہیں یا غیر ت کے ساتھ جینااور مرنا چاہتے ہیں بقول
غالب ہماری حالت تو اس وقت ایسی ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی ؟
اے وہ مجلس نہیں حلوت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلک ِ ناانصاف
آہ وفریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی ہو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی
قارئین آج اس مختصر کالم پر اکتفا کریں کہ ہم زہنی طور پر اس قابل نہیں ہیں
کہ خون رلانے والی اس حقیقت پر مزید مرثیہ خوانی کرسکیں
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک بچی روتی ہوئی ماں کے پاس آئی ماں نے پوچھا رو کیوں رہی ہو بچی نے کہا
ابو ہتھوڑی سے کیل لگارہے تھے ہتھوڑی چھوٹ کر ان کے پاﺅں پر جالگی ماں نے
کہا بیٹا اس میں رونے والی کون سی بات ہے اس پر تو ہنسنا چاہیے بچی نے کہا
”اماں میں ہنسی ہی تو تھی ۔۔۔۔“
قارئین سمجھ نہیں آرہا کہ رونے کا مقام ہے کہ پاگل ہوکر گریباں چاک کرکے ہم
ہنسنا شروع کردیں ۔۔ |