عورت جنسِ بازار کیوں بنی؟

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اسلام نے تمام افراد کے حقوق اور فرائض بیا ن فرمائے ہیں۔مرد ،عورت ،چھوٹے ،بڑے سب کے حقوق کا انتہائی درست اور مؤثر انداز میں تعین کیا ہے ۔لیکن ان تمام افراد میں اسلام نے جس طبقے کے حقوق کو باالخصوص بیان کیا ہے وہ عورت ہے ۔ جیسا کہ یہ ایک مسلمہ اور واضح بات ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل عورت کے ساتھ بد ترین سلوک کیا جاتاتھا اور معاشرے میں عورت حیوانوں سے بھی بد تر زندگی بسر کر رہی تھی ۔کو ئی ظلم و ستم اور بد سلوکی ایسی نہ تھی جو عورت کے ساتھ روا نہ رکھی جاتی ہو ۔مگر جب اسلام آیا توا سلام نے عورت کو ایک statesاور مقام و مرتبہ بخشا ۔عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق دیئے ۔معاشرے کے ظلم و ستم کے چنگل سے عورت کو آزاد کرایا اور ایک باعزت طرز پر زندگی گزارنے کا اسلوب دیا ۔

اسلام نے عورت کو ہر درجے میں عزت اور مقام بخشا ۔عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہو تو اسلام نے اس کے الگ حقوق بیان فرمائے ۔بہن کی صورت ہوتو اسلام نے اس کے سر پر عصمت اور عفت کی چادر ڈالی ۔اگر بیوی کے روپ میں ہو تو اسلام نے اس کو بہترین رفیق سفر بنایا اور ماں کی روپ میں ہو تو اس کے قدموں میں جنت کو رکھ دیا ۔لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا عورت بھی اسلامی قوانین سے ہٹتی گئی اور جب غیر اسلامی تہذیبیں اسلامی تہذیب کے ساتھ ملیںتو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ خواتین کا ہے ۔اور رفتہ رفتہ اپنے تمام مقام و مرتبہ اور عزت و وقار کو کھوتی چلی گئی ۔ان تمام حقوق کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو غلامی محسو س کرنے لگیں اور اپنے لیے آزادی تلاش کرنے لگیں۔اسلام نے عور ت کے حقوق کی اتنی وضاحت کی کہ لونڈیوں اور غلاموں سے ان کے حقوق کو تفصیلی طور پر واضح کیا تاکہ کوئی ان کو اس بات پر نہ ابھا ر سکے کہ اسلام نے ان کو غلام بنادیا ۔

اگر تاریخی پسِ منظر کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلما نوں کے بعد سب سے زیادہ مہذب اور باپردہ خواتین انگلینڈ کی خواتین تھیں ۔ان کا لباس ،رہن سہن ،اٹھنا بیٹھنا انتہائی مہذب تھا ۔پھر ایسا ہو اکہ ایک خاتون نے اپنی ہم خیال خواتین کو ملایا اور آزادی نسواں کا نعرہ لگایا ۔جب مغرب کے پر وردہ مردوں نے یہ نعرہ سنا تو اس کی خوب حوصلہ افزائی کی اور اس کو خوب promoteکیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کی تلاش میں عورت آہستہ آہستہ اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو تی چلی گئی ۔ اور آج ایسے مقا م پر آپہنچی کہ اپنے لباس سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔

اس بات کو جب مغرب پرست مسلمانوں نے دیکھا تو اپنے نفس کی تسکین اور وقتی قلبی اطمینان کے لئے اسی بات کو اسلامی معاشرے میں بھی رائج کرنے کی کو شش کی اورروشن خیالی کے نام پر صنف ِنازک کی یہ ذہن سازی کی کہ عورت معاشرے کا ایک فرد ہے اور اسے ہر میدان میں آگے آنا چاہئے ۔اسلامی قوانین نے عورت کے حقوق سلب کر دئے اور اس کو چادر اور چار دیواری کے اند ر محدود کر دیا حلاں کہ جب تک عورت ہر کام میں مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلے اس وقت تک معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ۔اور اسلامی قوانین کو[ معاذاللہ ]قدیم اور فرسودہ کہہ کر اس بات کو اچھالا کہ عور ت کو وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر اپنے آپ ڈھالنا چاہئے ۔لہٰذا اس طرح کی باتیں کر کے مسلمان عور ت کا حجاب جو اس کا سب سے بڑا محافظ تھا اس کو چھین لیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ آج پاکستان جو اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے ، کلمہ طیبہ کے نام پراور ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا تھا اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اس اسلامی ملک کا کوئی بھی چو ک یا چوراہا ایسا نہیں جس میں عورت کی تصویر نہیں ہوئی ۔

میں کراچی کی ایک معروف شاہراہ پہ لگے سائن بورڈکو دیکھ کر اپنے ساتھ بیٹھے اپنے محسن اور شفیق استاذکے سامنے شرمندگی سے بات نہ کر سکا ۔ایک نجی کمپنی اپنی productsکی تشہیرمیں عورت کو اس حالت میں دیکھا رہا ہے( الامان والحفیظ )اور آج مغرب زدہ عورت ہے کہ جدیت کے نام پہ اس قدر اپنی توہین پہ بھی خاموش اور خوش ہے ۔ بے پردگی اور فحاشی کا ایک سیلِ رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا ۔اور کسی کی بیٹی ،بہن کی عزت محفوظ نہیں ۔معاشرہ ترقی کی بجائے بری طرح تنزلی کا شکارہے ۔

اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ کا درجہ دیا تھااور عورت کو اپنے سرتاج کی خدمت پر جنت کی بشارت سنائی تھی ۔آج جدت پسند معاشرے نے عورت سے آزادی کے نام پر وہ تمام درجات اور بلندیاں چھین لیں ہیں۔آج جو شخص اپنے شوہر کی خدمت اور اپنے بچوں کی پرورش کوغلامی کا نام دیتاہے اس سے یہ سوال ہے کہ اگر شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش غلامی ہے تو کیا تیس ہزار فٹ کی بلندی پر ائر ہو سٹس کے طورپر غیروں کے آ گے پلیٹیں لئے پھرنا اور ان کی میزیں صاف کر نا کیا یہی آزادی ہے ؟کیا قوم کی بیٹی کو چوکوں اورچوراہوں پر ننگا کر نا آزادی ہے ؟کیا یہی آزادی ہے کہ عورت کو ٹی وی کی سکرینوں پر غیروں کے ساتھ نچوایا جائے ؟کیا عورت کو اپنے لباس سے محروم کردینا آزادی ہے ؟بحیثیت مسلمان ہونے مسلمان کے میرے اور آپ کے لئے ایک لمحئہ فکریہ ہے ۔اس پر ضرورسوچیں۔جب ہم نے اس کمپنی کے کچھ افراد سے بات کرنے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارا دل بھی نہیں چاہتا کہ ہم ایسا کریں مگر اس کے بغیر ہماری پراڈکٹس کیسے فروخت ہوں گی اور کون خریدے گا ؟تب ان کی سمجھ میں شاید یہ نہ تھا کہ اس ملک میں صحیح مسلمان بھی بستے ہیں اللہ ہمت دے ان صنف نازک مگر ہمت کی جوان و شیر دل خواتین کو جنہوں نے احتجاج کیا اور وہ اشتہاربالاخر اترا۔میں ان کا ایک بار پھر مشکور ہوں کہ انہوں نے اس وقت ہمارا ساتھ دیکر ایک سازش کو ناکام بنایا ۔

آج دیکھا جائے تو اس اشتہار کے اس انداز میں یوں آویزاں ہونے میں کچھ کردار ہمارا بھی ہے ۔کاش ہم اغیار کی سازش کو سمجھ سکتے کہ کس طرح ان ایڈورٹائزرکمپنیوں کے زریعے ہمارے زہنوں میں ایک بات داخل کی جتی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ہونے کے اس کو برا محسوس تک نہیں کرتے اور اس فیشن کو گھرمیں لے آتے ہیں۔اگر واقعی ہم صیح معنوں میں اس مغربی کلچر سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کی آغوش میں اپنا وجود ڈالنا ہو گا اور خود کو اسلامی روایات و اقدار کا پابند بنانا ہو گا ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 59305 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.