میں نے اپنے پچھلے کالم میں ہی
عرض کیا تھا کہ روٹھوں کو منانے کے فن میں صدرِ محترم کا کوئی ثانی
نہیں۔دیکھ لیجئے کہ محض ایک ہی رات میں انہوں نے سبھی روٹھوں کو ”با جماعت“
منا کر نواز لیگ کے غبارے سے ہوا نکال دی اور میاں صاحبان جو ق لیگ کے ساتھ
بات تک کرنے کو بھی تیار نہ تھے اب یہ کہتے پھرتے ہیں کہ :۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
ق لیگ کی طرف سے ٹکا سا جواب ملنے پر اب ان کی حالت کچھ یوں ہے کہ
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
لیکن مشتری ہشیار باش کہ چوہدری بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ۔ اگر ان کا
وارث مصیبت میں نہ ہوتا تو ان کے رنگ اور ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتے۔اب بھی کچھ
پتہ نہیں کہ وہ کب الٹے پاؤں پھر جائیں کہ اس فن میں اُن کا بھی کوئی ثانی
نہیں۔یہ وہی ڈیرے دار ہیں جنہوں نے اپنے ڈیرے پر دس دس فوجی وردیاں کلف لگا
کر لٹکا رکھی تھیں۔کہ انہوں نے اپنے ”آقا ئے ولی نعمت“ کو دس بار وردی میں
منتخب جو کروانا تھا۔ لیکن جب ”آقا “ پر بُرا وقت آ یا تو پھر ”تو کون اور
میں کون“ ۔ شاید اسی لئے اس ” وچھوڑے “ کے بعد اپنے ڈاکٹر نیازی صاحب ،
پرویز مشرف کے سامنے طنزیہ انداز میں یہ گنگناتے پائے گئے کہ
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
شاید انہیں اس ”داغِ مفا رقت“ پر آئین کے کسی آرٹیکل کی کسی دفعہ کی کوئی
ذیلی شِک تک نہیں ملی ہو گی اس لئے انہوں نے گنگنانے پر اکتفا کر لیاورنہ
وہ آئین سنانے سے کہاں باز آنے والے تھے۔ انہوں نے تو چوہدریوں کی ”روٹی
شوٹی“ اور ”مٹی پاؤ “ کا بھی آئین کی رو سے سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن اس
میں بھی ناکام رہے اور اسی لئے وہ سیاست پر تین حرف بھیج کر ایک دفعہ پھر
میڈیکل کی کتابوں کی گرد جھاڑ کر ان کے مطالعے کی سعی بیکار میں مصروف ہیں۔
سعی بیکار اس لئے نہیں کہ خُدا نخواستہ ان کا حافظہ جواب دے گیا ہے بلکہ اس
لئے کہ دیئے کی لو میں ان کی کمزور نظر کچھ دیکھ نہیں پاتی اور بجلی آہوئے
صحرائی کی ناف کا مشک بن گئی ہے جس کی مہک سے محض اونچے ایوان ہی معطر ہو
سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب جیسے ”منجی نشین“ نہیں۔سنا ہے کہ حکومت نے ایک دفعہ
پھر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اب عوام اس اعلان پر یقین
کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اتنی مرتبہ تو ایم۔کیو۔ایم نے بھی حکومت کے ساتھ
تعلقات کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا ہو گا جتنی مرتبہ خود حکومت لوڈ شیڈنگ
کے خاتمے کا اعلان کر چکی ہے۔ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ایم۔کیو۔ایم مہینہ بیس
دن اِدھر اُدھر منہ مارنے کے بعد واپس چلی آتی ہے اور پی پی پی بھی خوب
جانتی ہے کہ ایم۔کیو۔ایم نے لوٹنا ہی لوٹنا ہے اس لئے اگر کسی جیالے سے
سوال کیا جائے تو وہ بڑی لے میں گانے لگتا ہے کہ
وہ جہاں کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
مہینہ بیس دن لوڈ شیڈنگ ختم ہوتی ہے ۔ اس دوران بجلی بیچاری آ آ کر تھک
جاتی ہے ۔ مآل کار دو چار ماہ کے لئے استراحت فرمانے چلی جاتی ہے ۔لیکن
عوام اتنے بے صبرے ہیں کہ ڈنڈے مار مار کر اسے لوٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں
کتنی ظالم ہے یہ قوم بھی ۔کیا بجلی بیچاری کو سستانے کا حق بھی نہیں؟ لیکن
کیا کیجئے ان مردوں کا کہ جنہیں ہر ”موئنث “ سے خُدا واسطے کا بیر ہے ۔ وہ
موئنث خواہ عورت ہو ، بجلی ہو یا ڈینگی۔اب دیکھیے ناں جب سے مردوں کو پتہ
چلا ہے کہ ڈینگی کی صرف مادہ کاٹتی ہے تب سے سبھی مرد ہاتھ دھو کے اس کے
پیچھے پڑ گئے ہیں اور جب خود کچھ نہیں کر سکے تو سری لنکا ، انڈو نیشیا حتیٰ
کہ ازلی و ابدی دشمن بھارت سے بھی مدد کے طالب ہو گئے ۔ اسی لئے میں ہمیشہ
کہتی ہوں کہ ان مردوں کا کچھ نہیں ہو نے والا۔ یہ سدھر نے کے نہیں۔ اب یہی
دیکھ لیجئے کہ بے خوابی کے شکار میاں شہباز شریف صاحب اس بیچاری ڈینگی کے
پیچھے پڑ گئے ہیں ۔ انہیں بیچاری ڈینگی پر ترس بھی نہیں آتا۔وہ کرتی ہی کیا
ہے ؟ صرف اپنی بھوک مٹانے کے لئے مردوں کا تھوڑا سا خون ہی تو چوستی ہے ۔ویسے
تو میاں صاحب کسی کو بھوکا دیکھ نہیں سکتے ۔اگر وہ بھوکے کی بھوک مٹانے کے
لئے ”سستی روٹی“ سکیم کا اجرا ءکر سکتے ہیں تو ڈینگی کے لئے ”سستے خون“ کا
انتظام کیوں نہیں۔؟ ویسے بھی پاکستان میں آج کل جو شئے ارزاں ترین ہے وہ
خون ہی تو ہے ۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیجئے کہ ”دروغ بر گردنِ راوی“ آجکل
حکومتِ پنجاب کے زیرِ انتظام سبھی محکمے چپکے چپکے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ
”ڈینگی“ کا خاتمہ نہ ہو ۔ وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب ڈینگی کے پیچھے بھاگ رہے
ہیں اور وہ سبھی آرام فرما رہے ہیں ۔ |