اِس کی کیا وجہ ہے

ہمارے لئے امریکی لاکھ بُرے صحیح مگر اوروں کے نزدیک اِن ایک بات ایسی ضرور ہے جو اِنہیں دوسروں کے سامنے امتیازکراتی ہے اور وہ ہے اِن کی ہر معاملے میں ایسی نیک نامی (معاف کیجئے گا بحیثیت مسلمان ہونے کے جِسے ہم اپنی زندگیوں میں اپنانے سے بھول چکے ہیں ) جو شائد امریکی زمین کی خصوصیات میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں بسنے والا ہر فرد اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُراکہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتاہے اَب آپ اِسی کو ہی لے لیجئے کہ امریکی ایجنسی ایف بی آئی نے موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے ڈنکے کی چوٹ پر امریکاکے اِس کونے سے اُس کونے تک ہرشعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کے ساتھ روارکھے گئے مذہب ، رنگ ونسل کے خلاف تعصب کی بنیاد پر ناروا سلوک سے متعلق سال 2010ءکی ایک ایسی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اِس نے دوٹوک الفاظ میں امریکی انتظامیہ اور دنیابھر کو یہ بات اچھی طرح بتادی ہے کہ موجودہ پہلے سیاہ فام امریکی صدر اوباما (جو خود بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں)کی حکومت میں امریکابھر میں مسلمانوں کے خلاف تعصب میں انتہائی خطرناک حد تک ایسااضافہ ہوگیاہے جو امریکی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتاہے آگے چل کر ایف بی آئی نے اپنی اِسی رپورٹ میں سال 2009ءکا تذکرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ جبکہ اعدادوشمار کے مطابق اِس سال مسلمانوں کے خلاف تعصب کی بنیاد پر جرائم کی تعدادصرف107تھی اِس کے مقابلے میں 2010ءمیں جرائم کی یہ تعداد بڑھ کر160ہوگئی جبکہ ابھی اِس رپورٹ میں رواں سال کا کوئی شامل نہیں کیاگیاہے اِس کی تفصیل آئندہ سال مرتب کی جانے والی رپورٹ میں پیش کی جائے گی ہاں اِس موجودہ رپورٹ میں اِس بات کا ذکرضرورکردیاگیاہے وہ یہ کہ جیسے جیسے وقت گزرتاجارہاہے امریکامیں مسلمانوں کے خلاف تعصب کا عنصر بجائے کم ہونے کے دیدہ ودانستہ طور پر موجودہ امریکی انتظامیہ اِس میں اضافہ کرنے کے عمل پر کارفرما دکھائی دیتی ہے۔

اِس صُورت حال میں ہماراخیال یہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ یہ سب کچھ محض اِس مقصد کے تحت کررہی ہے کے مسلمانوں کو امریکا میں تعصب کی بنیاد پر اتنا تنگ اور پریشان کردیاجائے کہ جو مسلمان امریکا میں کئی نسلوں سے آباد ہیں وہ امریکاکو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجائیں یا جو دیگر مسلم ممالک سے مسلمان امریکا آنے کا ارادہ یا رُخ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں یا بناچکے ہیں وہ بھی اپنے پیش رو کی حالتِ زندگی کو دیکھتے ہوئے اپنے ہی ممالک میں سکونت اختیار کریں اور امریکا آنے کی زحمت نہ کریں ۔

جبکہ ا مریکا میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نارواسلوک برتے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکا میں ہیومن رائٹس فرسٹ نامی ایک تنظیم نے مسلم مخالف تشدد کے روزآفزوں بڑھتے ہوئے واقعات کو امریکی روایات کے برخلاف قرار دیاہے اور اِسے بلاکسی حیل وحّجت امریکا کے جمہوری معاشرے میں معاشی، اقتصادی، سیاسی و اخلاقی مستقبل کے لئے بھی ایک بڑاخطرہ قراردیتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اور اِس کے بعد آنے والی کسی بھی نئی امریکی اُمور مملکت کی ذمہ داری سنبھالنے والی حکومت نے اِس کے فوری تدارک کے لئے ترجیحی بنیادوں پر نوٹس لیتے ہوئے پائیدار اور دیرپااقدامات نہ کئے توپھر امریکا کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتااور امریکی انتظامیہ کی بے حسی اور لاپرواہی کے باعث جہاں امریکی قدیم روایات زمین بوس ہورہی ہوں گیں تو وہیں امریکی انتظامیہ کا ایک مستحکم ڈھانچہ بھی تباہ وبرباد ہوجائے گالہذامستقبل قریب میں ایسے حالات پیداہونے سے قبل ہی موجودہ امریکی انتظامیہ کو اپنے یہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کو کنٹرول کرنے کے لئے مسلمانوں سے ہر سطح پر روارکھے گئے تعصب کو ختم کرنا ضروری ہوگا اور اپنے امریکیوں کو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ نائن الیون کے واقع میں جو لوگ ملوث تھے اُن سے اِن لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے اُن سے تعلق کے محض مفروضے کی بنیاد پر امریکا میں پہلے سے آباد او ربعد میں آنے والے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا جذبہ ختم کیاجائے اِس لئے کہ آج امریکا کی جو شان وعظمت دنیابھر میں نمایاں ہے اِس کو اِس مقام تک پہنچانے میں امریکا میں موجود کئی نسلوں سے آباد ذرائع معاش کی تلاش میں آنے والے مسلمانوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے امریکیوں اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے افراد کا ہے۔ سو نا ئن الیون کی وجہ سے امریکامیں مسلمانوں کے خلاف تعصب کو پڑھانا کسی بھی طرح سے امریکیوں کو زیب نہیں دیتاہے اور اِس کے ساتھ ہی ہماراخیال یہ ہے کہ امریکا کو اَب اپنااحتساب خود بھی کرلیناچاہئے کہ وہ نائن الیون کی بدلے کی آگ میں نہ صرف مسلم اُمہ کو جنگ کی وادی میں دھکیل رہاہے بلکہ اِس سے اِس کا اپناوجود بھی بڑی حد تک اندرونی اور بیرونی طور پر خطرے میں گھرتاجارہاہے کہیں ایسانہ ہوکہ سانحہ نائن الیون کی انتقام کی آگ میں یہ اپنا وجود بھی ختم نہ کربیٹھے۔

اُدھر اِس کی کیاوجہ ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویودیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے نپے تلے الفاظ میں ایک طرف تو پاکستان کو خبردارکردیاہے تودوسری جانب آئندہ کا امریکی پروگرام اور اِس کے جنگی عزائم کا پردہ چاک کردیاہے کہ ” اگرپاکستان پر امریکا یا کسی اور(ارے بھئی ! کرزئی جی کھل کر بولیں کسی اور ملک یعنی بھارت یا اسرائیل جیسے) ملک نے حملہ کیا تو افغان عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کا ہی ساتھ دیں گے اُنہوں نے اپنے عزم اور ارادے کا بھی کھل کر کچھ اِس طرح سے اظہار کیاکہ” خدانخواستہ امریکا یا کسی اور نے کسی بھی لمحے پاکستان پر جیسابھی حملہ کیاتو ہم افغان عوام پاکستان کا ساتھ اِس لئے دیں گے کہ ہم پاکستان کو اپنا جڑواں بھائی سمجھتے ہیں جبکہ بھارت کو اپناجگری دوست ٹھیراتے ہیں ہاں البتہ ! اُنہوں نے اِس کے ساتھ ہی اپنی یہ بات بھی پاکستان کو جتادی کہ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں سے اِسی جذبے کی توقع رکھتے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم سہ رہے ہیں اِس سارے منظر اور پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی جو اِن دنوں امریکیوں اور بھارتیوں کے نزدیک تر ہیں اُنہوںنے دوسری مرتبہ جس انداز سے پاکستان کو آئندہ کے امریکی اور بھارتی عزائم سے متعلق خبردارکردیاہے اِن کے ایک ایک لفظ اور جملے کو ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں، اپوزیشن لیڈر ،عوام اور ہماری عسکری قیادت کو سمجھتے ہوئے اِس کا ضرور جائزہ لینا ہوگا اور اِس وجہ کو جاننا ہوگاکہ ایک بارنہ صحیح مرتبہ افغان صدر نے پاکستان پر امریکا یا کسی اور ملک کی جانب سے پاکستان پر حملے کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دینے کاارادہ ظاہر کیوں کیاہے....؟؟ یقینا اِس میں کچھ نہ کچھ حقیقت بھی ہوگی جس کرزئی جی دوبار عیاں کرتے کرتے رہ گئے ہیں اور اَب اِس حقیقت کا بھی پتہ لگانا ہمارے حکمرانوں سمیت سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عسکری قیادت پر لازم ہوجاتاہے کہ وہ یہ جاننے کی ضرور کوشش کریں کہ وہ کیا وجہ ہے کہ جس کو بنیاد بناکر امریکا یاکوئی اور ملک پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنارہاہے ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.