احوال صحابھ اور تصوف

احوال حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور تصوف
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ، اما بعد فاعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم ۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ بوجہ علالت ، مدت سے غیر حاضری رہی ۔ تاہم قارئین اور خبرنامہ خلافت سے قلبی اور روحانی رشتہ بدستور قائم رہا۔ گاہے بگاہے بعض احباب سے ملاقات بھی رہی اور بذریعہ پیغام رسانی بھی رابطے رہے ۔ احباب کی جانب سے مسلسل اصرار رہا ۔ خاص کر محبی و محترمی محقق فرزند علی قادری اور عزیز از دل و جان جناب احسان صاحب ۔ بالخصوص سیدی و مرشدی مولائی شیخ القرآن و التفسیر والحدیث حضرت خواجہ سید محی الدین محبوب ابن محدث ہزاروی کے پیغامات بھی اس ضمن میں ملے کہ اس غیر حاضری کو ختم کیا جائے اور دین حق کی اشاعت میں اپنا حصہ شامل کریں سو ارشادِ احباءناطق تھا کہ مصداق ایک مرتبہ پھر احوال صحابہ اور تصوف کا سلسلہ لیکر حاضر خدمت ہوں۔ گر قبول افتد زعزو شرف ۔ امید واثق ہے قارئین خبرنامہ خلافت کے ذوق مطالعہ کے معیار پر پورا اتروں گا تا ہم اصلاح کیلئے رائے کا منتظر رہونگا ۔

سب سے پہلے حضرت سیدنا و سندنا خلیفة الرسول ایام المتقین رمز شناس مصطفےٰ ﷺ مزاج شناس رسول ﷺ حضرت ابی بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ذکر خیر کرتے ہیں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق سابق بالتصدیق ملقب بالعتیق اور من جانب اﷲ مید بالتوفیق ہیں ۔ سفر و حضر میں حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے رفیق ، زندگی کے ہر موڑ پر مہربان دوست ہیں۔ موت کے بعد بھی روضہ اطہر میں آپ کے انیس ہیں ۔ خدائے ذوالجلال نے فخر کے ساتھ آپ کو یاد فرمایا ۔ ”ثانی اثنین اذھما فی الغار۔ “ لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل یعنی (ابوبکر صدیق ) دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے ۔ تم میں سے کوئی اس کا ہمسر نہیں ہو سکتا جس نے فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور قتال کیا ۔

تصوف یہ ہے کہ ہزار رستوں کو چھوڑ کر حق کی رسی کو تھام لیا جائے ۔

جب پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام نے آپ ؓ کو حق کی طرف بلایا تو آپ نے فوراً لبیک کہا اور سب کچھ راہ خدا میں پروانہ وار لٹا کر مال و متاع سے خالی ہو گئے ۔ توحید الٰہی کو قائم کرنا آپ کا ہدف اور نشان منزل تھا ۔ جس کی وجہ سے مصائب اور پریشانیوں نے آپ کو ہدف بنا لیا ، دھن دولت سب رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر قربان کرکے زاہد بن گئے اور مخلوق سے منہ موڑ کر حق کی رسی کو تھام لیا اور حق کی طرف گامزن ہو گئے ۔

”تصوف یہ ہے کہ بندہ یکتا و تنہا ذات کے ساتھ یکتا و تنہا رہ جائے ۔“

حضرت سیّدہ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ جب قریش نے ابن الدغنہ کی ذمہ داری حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق قبول کرلی تو قریش ابن الدغنہ سے بولے کہ ابوبکر سے کہو وہ اپنے رب کو اذیت نہ دے۔ اپنے گھر کے علاوہ کہیں بھی اپنی نماز کااعلان بھی نہ کرے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے عمل کیا اپنے گھر کے صحن میں عارضی مسجد بنا لی اسی میں نماز پڑھتے اور قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے ۔ یہاں بھی مشرکین کی عورتیں اور بچے آپ کے ارد گرد جمع ہو جاتے وہ آپؓ کے قرآن پڑھنے کو سنتے اور تعجب کرتے آپ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہتے اور حضرت ابوبکر دوران تلاوت اپنے آنسوؤں کو روک نہ پاتے اور زار و قطار روتے ۔ اس بات سے مشرکین کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں ان کے بیوی بچے کلام الٰہی کی طرف مائل نہ ہو جائیں لہٰذا انہوں نے دوبارہ ابن الدغنہ کو بلوایا اور کہا کہ ابوبکر صدیق کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ یا ان سے کہو کہ یہ تلاوت و غاز سے دست بردار ہو جائیں ۔ ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے آپ کی ذمہ داری قبول کی ہے یا تو آپ اسی پر بس کرتے ہوئے تلاوت و غاز موقوف کردیں یا پھر میں اپنا ذمہ واپس لے لیتا ہوں ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں تیرا ذمہ تجھے واپس کرتا ہوں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ذمہ پر بھروسہ کرتا ہوں ۔ اس کے بعد آپ اپنے یکتا و تنہا خالق کے ساتھ یکتا و تنہا ہو گئے ۔ سب لوگوں کی امان و ذمہ سے ماوریٰ محض محبوب حقیقی کی ذمہ داری کے ساتھ ۔

تصوف یہ ہے کہ دنیا سے کنارہ کشی اسکے مال و متاع سے دست برداری کر لی جائے ۔

حضرت زید بن ارقم روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے پانی طلب فرمایا ۔ آپ کو ایک برتن پیش کیا گیا جس میں پانی اور شہد ملا ہوا تھا ۔ آپ ؓ نے پینے کی غرض سے منہ کے قریب کیا ۔ لیکن آپ ؓ نے رونا شروع کردیا اور مجلس میں دیگر لوگ بھی رو پڑے ۔ آپ ؓ چپ ہو گئے مگر حاضرین کے آنسو نہ رکے ۔ تو آپ ؓ پر دوبارہ گریہ طاری ہو گیا ۔ لوگوں کو خیال آیا کہ اس کیفیت میں تو آپ سے رونے کی وجہ نہ پوچھی جاسکے گی لہٰذا وہ خاموش ہوگئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی قدرے پرسکون ہوئے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضورؓ والا کس چیز نے آپ کو رلا دیا ؟

حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک مرتبہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کے ہمراہ تھا ۔ آپ صلی اﷲعلیہ و آلہ وسلم کسی غیر مری (ان دیکھی) چیز کو اپنے آپ سے دور کررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ پرے ہٹ ، دور ہو جا حالانکہ میں ان کے ساتھ کسی چیز کو نہ دیکھ رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کہ آپ کسی چیز کو اپنے آپ سے دور ہٹا رہے ہیں ۔ جبکہ مجھے آپ کے ساتھ کوئی چیز نظر نہیں آرہی ۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دنیا تھی جو میرے سامنے بن سنور کر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ پیچھے ہٹ جا، تو وہ ہٹ گئی اور کہنے لگی اﷲ کی قسم آپ ﷺ تو مجھ سے بچ گئے مگر آپ ﷺ کے بعد آنے والے مجھ سے بچ نہ سکیں گے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ اسی سے مجھے خوف لاحق ہوگیا کہ وہ مچھ پر غالب آگئی ہے اور اسی بات نے مجھے رلا دیا ۔

تصوف راہ طریقت میں مالک الملک کی طرف مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔

حضرت زید بن ارقم راوی ہیں۔ فرماتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ایک غلام تھا جو کما کر لاتا تھا ۔ ایک رات وہ آپ ؓ کے پاس کھانا لے کر آیا ۔ آپ ؓ نے اس میں سے ایک لقمہ لیا اور غلام نے پوچھا حضرت کیا بات ہے کہ آپ ہر روز مجھ سے سوال کرتے تھے کہ کھانا کہاں سے لائے ہو مگر آج نہیں پوچھا ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تو بھوک نے نڈھال کررکھا تھا ۔ تم بتاؤ کہاں سے لائے ہو ۔ عرض کیا میں نے زمانہ جاہلیت میں کسی کیلئے جھاڑپھونک کیا تھا انہوں نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ آج میں ان کے قریب سے گزرا تو ان کے ہاں شادی کا کھانا تیار تھا ۔ انہوں نے مجھے بھی کھانا دے دیا ۔ یہ سنا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کردیتا ۔ آپؓ نے اپنی انگلی حلق میں ڈالی اور قے کرنے لگے ۔ مگر قے نہ ہوئی کسی نے کہا کہ یہ تو پانی سے نکلے گا ۔ پھر پانی پی پی کر قے کی کوشش مسلسل کرتے رہے حتیٰ کہ یہ لقمہ نکل گیا ۔ کسی شخص نے کہا کہ اﷲ آپ پر رحم فرمائے آپ کو یہ تکلیف اس لقمے کی نحوست سے پہنچی ۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لقمہ میری جان لیکر بھی نکلتا تو میں اسے نکال کر ہی دم لیتا ۔ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے سنا ہے کہ ” ہر جسم جس نے حرام سے پرورش پائی جہنم اس کےلئے زیادہ مستحق ہے ۔“ مجھے اس سے خوف لاحق ہوا کہ کہیں میرے جسم کی معمولی پرورش بھی اس لقمے سے نہ ہو جائے ۔ لہٰذا میں نے اس کو نکال کر ہی دم لیا ۔

پیارے صاحبو! ملاحظہ فرمائیے کہ محض ایک حرام کے لقمے کو نکال باہر کرنے کیلئے اپنے مالک الملک کی خاطر جہد مسلسل ہمت و غیرت صدیقی اسی تناظر میں مدعیان تصوف کو اپنا بھی احتساب کرنا ہوگا ۔

تصوف محبوب کے وصل و شوق کی گرمی میں راحت و سکون پانے کا نام ہے ۔

حضرت اسماءبنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ ایک پکارنے والا آل ابی بکر کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابوبکر ؓ اپنے ساتھی محمد صلی ا ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی خبر لو۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر تیزی سے نکلے آپ ؓ کے بالوں کی مینڈھیاں بنی ہوئیں تھیں ۔ آپ ؓ مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔ دیکھا کہ مشرکین نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام پر ٹوٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو زدو کوب کررہے تھے ۔ آپ ان کو پیچھے ہٹانے لگے اور یہ کہتے تھے کہ افسوس تم لوگوں پر کیا تم ایسے شخص کے قتل کے درپے ہو جو کہتا ہے کہ اﷲ میرا رب ہے ۔ حالانکہ وہ اپنے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لےکر آیا ہے ۔ پس لوگوں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ و آلہ وسلم کو تو چھوڑ دیا لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو پکڑ لیا آپکو اس قدر مارا کہ آپ اس حال میں ہمارے پاس لائے گئے کہ بے ہوش تھے جب ہوش آیا کہ آپ ؓ کایہ حال تھا کہ آپ ؓ کے بالوں کے جس حصے میں ہاتھ پھیرا جاتا وہ ہاتھ میں آجاتے مگر اتنے زخمی ہونے کے باوجود آپ کی زبان پر یہ ورد جاری تھا ۔
تبارکت یا ذالجلال والکرام ،تبارکت یا ذالجلال والکرام ،اے ذوالجلال اورعزت والے تیری ذات بابرکت ہے اے جلال و اکرام کے مالک تیری ذات برکت والی ہے ۔ اور اتنے تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود بھی ذکر الٰہی کی بدولت آپ غایت درجہ راحت و سکون میں تھے ۔
اے شاہِ شاہاں تیری یادوں کی بدولت

کس درجہ سکون میں ہے میرا دل تپیدہ

تصوف اپنی تمام کوششوں کو نعمتوں کے مالک کیلئے وقف کرنے کانام ہے ۔

حضرت امام حسن بصریؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بارگاہ رسالت میں صدقہ لیکر حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم یہ میری طرف سے صدقہ ہے اور بارگاہِ الٰہی کیلئے میرے پاس اور بھی ہے اس کو مخفی رکھا ۔ پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ بھی حاضر ہوئے ۔ آپ ؓ بھی صدقہ لیکر آئے اور ظاہر کردیا و عرض کیا یا رسول اﷲ یہ میری طرف سے صدقہ ہے اور اﷲ کے ہاں میرے لئے اس کا بدلہ ہے ۔ نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر تم نے بغیر تانت کے ہی کمان کو چلہ چڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ تم دونوں کے صدقہ کے درمیان ایسا ہی فرق ہے جیسا تمہاری باتوں کے درمیان ۔

حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ اپنے والد گرامی حضرت ارقم ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میرے باپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنیکا حکم فرمایا ۔اتفاق سے میرے پاس کافی مال تھا ۔ میرے دل میں گمان گزرا کہ میں آج ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے سبقت حاصل کرکے رہونگا ۔ اسی خیال کے تحت ، اپنا نصف مال لیکر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ۔ عرض کیا مثل ذلک حضور اتنا ہی چھوڑ کر آیا ہوں ۔ جبکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اپنا سارا مال ومتاع لیکر حاضر ہوئے ۔ سرکار دو عالم نبی رحمت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوبکر گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ۔ عرض کیا ان کےلئے اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ کر آیا ہوں ۔ الغرض
پروانے کو شمع اور بلبل کو پھول بس

صدیق کیلئے اﷲ اور اس کا رسول بس
حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ میں کبھی بھی کسی بھی چیز میں ابوبکر صدیق سے سبقت حاصل نہیں کرسکتا ۔

پیارے صاحبو! محب کا متاع دنیا ، مالِ دنیا اور تمام نعمتوں کو اپنے مالک کیلئے وقف کر دینے کا تمام تصوف ہے ۔ تو اندازہ لگائیے سیدنا صدیق اکبر کا تصوف میں کیا مقام ہے ؟ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اﷲ عنہما ارشاد فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حج کیا تو حضرت ابوبکر کا سارا مال حضور نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کے دست تصرف میں تھا ۔ گویا کہ آپ ؓ نے اپنا مال حضور علیہ الصلوٰة والسلام کیلئے وقف فرما دیا تھا کہ جیسے چاہیں خرچ فرماتے ۔ آپ ؓ اپنے ہی مال سے اپنے ہی تصرف سے دست بردار ہوگئے ۔

حضرت قیس رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو پانچ اوقیہ سونے کے بدلہ خریدا اور آزاد فرمایا جبکہ ان کو پتھروں سے اذیت دی جاتی تھی ۔ فروخت کرنے والوں نے بعد ازاں کہا کہ اے ابوبکر اگر آپ محض ایک اوقیہ سونے پر اڑ جاتے تو ہم اس کے بدلے بھی بلال کو دے دیتے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم اگر تم سو اوقیہ سونے سے کم دینے پر رضا مند نہ ہوتے تو تب بھی خرید کر ہی رہتا ۔ اﷲ اکبر، سبحان اﷲ ، یہ سخاوت یہ جود ، سب ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشآء۔

تصوف ، شوق الٰہی میں اطاعت کا طوق گلے میں ڈالنا اور استقامت اختیار کرنے کا نام ہے ۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲعنہ کی شوق الٰہی میںاطاعت الٰہیہ و اطاعت رسول صحابہ میں ضرب المثل تھی ۔ اطاعت رسول میں کسی بھی لحاظ مال ، اولاد ، عزت ، وقار ، عقل ، بصارت و بصیرت متاع فانی کوئی بھی شے رکاوٹ نہیں بنی اور نہ آڑے آئی ۔ حتیٰ کہ بیٹے اور باپ کا رشتہ بڑا نازک اور کمزور ہوتا ہے ۔ مگر اطاعت رسول میں اس رشتہ کی کیا اہمیت تھی ۔ جنگ بدر میں آپ کے بیٹے کفار مکہ کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ بعد ازاں اسلام قبول کیا تو ایک دن اپنے والد گرامی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے عرض کیا ابا حضور جنگ بدر میں آپ متعدد بار میری تلوار کی زد میں آئے مگر میں نے باپ سمجھ کر ہاتھ کھینچ لیا ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جلال میں آگئے اور فرمایا کہ میرے بیٹے خدا کی قسم اگر دورانِ جنگ ایک مرتبہ بھی تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو کبھی ہاتھ نہ کھینچتا ۔ کیونکہ تم دشمنان خدا میں سے تھے۔ یہ استقامت کا ہی نتیجہ تھا کہ دنیا کی کمزوری آپ کے شوق الٰہی میں اطاعت و فرمانبرداری میں راستے کا پتھر نہ بن پائی ۔ اسی اطاعت و استقامت کا مظہر اس وقت بھی سامنے آیا جب آپ رضی اﷲ عنہ علیل ہوئے ۔ علالت بڑھتی گئی یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ لوگ آپ کی عیادت و تیمارداری کو حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو ہم آپ کے لئے طبیب کا بندوبست کرتے ہیں ۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ طبیب مجھے دیکھ چکا ہے ۔ لوگوں نے استفسار کیا کہ طبیب نے کیا تجویز کیا ہے ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ طبیب کاکہنا ہے کہ انی فعال لما ارید ۔ میں وہی کرتا ہوں جو چاہتا ہوں ۔ سبحان اﷲ العظیم ۔ شوقِ الٰہی کی یہ بہتات کہ محبوب حقیقی کے سوا کسی کو طبیب بھی تسلیم نہ کیا ۔ پھر اسی قادر مطلق ، حکیم مطلق کی اطاعت و اتباع پر استقامت ہی اختیار کی ہے ۔

اقوال سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ۔
قارئین باتعظیم ابھی آپ نے ملاحظہ کیا کہ تصوف میں عکس صدیقیؓ اور حیات صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اب پیش خدمت ہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے اقوال ، جو اس بات پر شاید عادل ہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے اقوال درحقیقت تصوف کا منبع مخرج ہیں ۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ میںحضرت ابوبکر صدیق کے ایام مرض میں بہر عبادت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو سلام عرض کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب کے بعدارشاد فرمایا میں نے دنیا کو دیکھا وہ متوجہ ہو چکی ہے لیکن ابھی وہ پوری طرح نہیں آئی ۔ عنقریب وہ آئے گی اور تم ریشم کے پردے بناؤ گے ۔ دیباج کے تکیے لگاؤ گے ۔ اون کے تکیوں اور بستروں سے تمہیں تکلیف ہوگئی ۔ تم ان کو سعدان کے کانٹے سمجھو گے اﷲ کی قسم تم میں سے کسی کی ناحق گردن مار دی جائے میرے نزدیک یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ دنیا کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرے ۔

یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا کہاں ہیں خوبصورت چہروں والے جو اپنی جوانیوں پر نازکرتے تھے ؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ جنہوں نے شہر بنائے ان کے گرد فصیلوں کے ساتھ قلعے تعمیر کروائے ؟ کہاں ہیں وہ فاتحین کامیابی جنگوں میں جنکے قدم چومتی تھی۔ زمانے نے ان کے نام و نشان مٹا ڈالے اب وہ قبروں کے گھور اندھیروں میں پڑے ہیں ۔ افسوس! افسوس! نجات ! نجات !

عبداﷲ بن حکیم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ اما بعد میں تمہیں اﷲ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں تم کو تاکید کرتا ہوں کہ اسکی وہ حمد و ثنا کرو جو اس کی شان کے لائق ہے ۔ خدا سے امید و بیم کی حالت میں رہو ۔ حدا سے الحاح و زاری کر ساتھ سوال کرو ۔ اسی وجہ سے اﷲ نے حضرت ذکریا علیہ السلام اور انکے اہل بیت کی تعریف کی ہے ۔ انھم کانوا یسارعون فی الخیرات و یدعوننا رغبا و رھبا و کانوا لنا خاشعین ۔ بے شک یہ لوگ بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرتے تھے اور ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے ۔ ہمارے آگے عاجزی کرتے تھے ۔

اے اﷲ کے بندو جان لو کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حق کے بدلے تمہاری جانوں کو گروی رکھ لیا ہے ۔ اس پر تم سے بھاری عہد و پیمان بھی لیئے ہیں اور تم سے تھوڑی سی فانی زندگی خرید کر ہمیشہ رہنے والی زندگی تم کو بخش دی ہے ۔ تمہارے بیچ اﷲ کی کتاب ہے اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے ۔ اسکا نور کبھی بجھ نہیں سکتا۔ اس بات کی تصدیق کرو اس سے نصیحت حاصل کرو ۔ تاریکی کے دن کیلئے اس سے نور بصیرت حاصل کرو۔ اﷲ نے تمہیں عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ تم پر کراماً کاتبین نگران مقرر کر دیئے ہیں جو تم کرتے ہو وہ ان کے علم میں ہے۔ بندگان خدا جان لو کہ تم ایک مقررہ وقت کی طرف صبح و شام کررہے ہو جسکا علم تم سے مخفی رکھا گیا ہے ۔ اگر تم سے ہو سکے تو اپنی عمر اس حال میں پوری کرو کہ تم اﷲ کے کام میں مشغول ہو ۔ ایسا ضرور کرو مگر یہ اﷲ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ لہٰذا تم موت کے آنے سے قبل بڑھ چڑھ کر نیکی کرتے رہو ۔ کہیںبرے اعمال پر اپنا انجام بد نہ کر لینا ۔ بہت سارے لوگوں نے اپنی عمریں دوسروں کیلئے داؤ پر لگا دیں جبکہ وہ اپنی ذات کو بھول گئے ۔ تم کو ان کے مثل بننے سے روکتا ہوں ، خبردار! خبردار! نجات ! نجات ! موت تیزی سے تمہارے تعاقب میں ہے جو تمہیں جلد آ دبوچے گی ۔

حضرت عبداﷲ بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو طلب فرمایا اور فرمایا کہ اے عمر اﷲ سے ڈرو جان لوکہ اﷲ کوئی حکم جو دن میں ادا کرنا ضروری ہے اﷲ اس کو رات میں قبول نہ فرمائیگااور رات کا عمل دن کو قبول نہ فرمائیگا ۔ پروردگار کسی کے نفل قبول نہیں فرماتا جب تک فرض ادا نہ کیا جائے ۔ قیامت کے دن ان لوگوں کا نامہ اعمال بھاری ہوگا جو حق کی اتباع میں زندگی مکمل کریں گے باطل کی پیروی کرنے والوں کا نامہ اعمال ہلکا رہ جائیگا ۔

دیکھو اﷲ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر ان کے اچھے اعمال کے ساتھ کیا ہے ان کی سیئات سے درگزر کر لیا ہے پس جب ان کو یاد کرتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان میں شامل ہونے سے نہ رہ جاؤ ۔ اﷲ تعالیٰ نے اہل جہنم کا ذکر ان کی برائیوں کے ساتھ فرمایا ہے ان کی نیکیوں کو ان پر رد کر دیا ہے پس جب ان کو یاد کرتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان میں شامل نہ ہو جاؤں ۔ بندہ کو امید اور خوف دونوں رکھنے چاہئیں ۔ بے جا امیدیں باندھنے سے احتراز کرے اسکی رحمت سے مایوس بھی ہرگز نہ ہو ۔

قارئیں با تعظیم ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲعنہ کی اس گفتگو سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ چشمہ تصوف کے تمام سوتے اقوال و افعال صحابہ سے پھوٹتے ہیں ۔

شجرہ تصوف کی جڑیں اقوال و افعال صحابہ کے پانی سے غور پاکر ہی اپنے شجر کوپروان چڑھا کر انسانیت کو سایہ عاطفت فراہم کرتی ہیں کیونکہ صحابہ ہی تصوف کے اولین علمبردار ہیں ۔
از : علامہ رشید احمد مرتضائی قادری محمودی
Muhammad Ehsan
About the Author: Muhammad Ehsan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.