اطاعت الٰہی و محبت الٰہی و محبت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

فرمانِ الٰہی ہے:۔
قل ان کنم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
فرما دے اے نبی! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تمہیں محبوب رکھے گا۔
اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے اچھی طرح سمجھ لو کہ بندے کیلئے اللہ اور اس کے رسول محبت ان کی اطاعت اور ان کے احکامات کی پیروی ہے اور اللہ تعالٰی کیلئے بندوں کی محبت رحمت اور بخشش کا نزول ہے۔
جب بندہ یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ کمالات حقیقی صرف اللہ ہی کیلئے ہیں اور مخلوق کے کمالات بھی حقیقت میں اللہ ہی کے کمالات ہیں اور اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں تو اس کی محبت اللہ کے ساتھ اور اللہ کیلئے ہو جاتی ہے، یہی چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بندہ اللہ کی اطاعت کرے اور جن باتوں کا وہ اقرار کرتا ہے ان امور سے اس محبت میں اضافہ ہو، اسی لئے محبت کو اطاعت کے ارادوں کا نام دیا گیا ہے اور اس کو اخلاص عبادت اور رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
حضرت حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم رب تعالٰی سے محبت کرتے ہیں، تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی اطاعتِ رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) محبتِ الٰہی کا موجب ہے۔
حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو بلند مقام کیسے عطا ہوا ؟
حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ بہجت اسرار سے خواب میں مشرف ہوا، آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا، بشر حافی! جانتے ہو اللہ نے تمہیں تمہارے ہمعصروں سے بلند مقام کیوں دیا ہے ؟ میں نے عرض کی نہیں یارسول اللہ! آپ نے فرمایا، اس لئے کہ تم نیکوں کی خدمت کرتے ہو، دوستوں کو نصیحت کرتے ہو، میری سنت اور اہل سنت سے محبت رکھتے ہو اور اپنے دوستوں سے حُسن سلوک روا رکھتے ہو۔
فرمانِ نبوی ہے جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔
شرعۃ الاسلام اور آثارِ مشہورہ میں ہے کہ جب مذہب میں فتنے پیدا ہو جائیں اور مخلوق میں پراگندگی رونما ہو جائے اس وقت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا ثواب سو شہیدوں کے اجر کے برابر ہے۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میری تمام امت جنت میں جائے گی مگر جس نے انکار کیا، عرض کی گئی، حضور! انکار کس نے کیا ؟ آپ نے فرمایا، جس نے میرا اتباع کیا وہ جنت میں جائے گا جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا انکار کیا، ہر وہ عمل جو میرے طریقے کے مطابق نہیں وہ گناہ ہے۔
ایک عارفِ باصفا کا ارشاد ہے اگر تو کسی شیخ کو ہوا پر اڑتا ہوا یا پانی پر چلتا ہوا یا آگ وغیرہ کھاتا ہوا دیکھے لیکن وہ عمداً اللہ کے کسی فرض یا نبی کی کسی سنت کا تارک ہو تو وہ جھوٹا ہے۔ اس کا دعوٰی محبت باطل ہے اور یہ اس کی کرامت نہیں استدراج ہے۔1،
حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تک اس کی توفیق کے بغیر نہیں پہنچتا اور اللہ تک پہنچنے کا راستہ، محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء و اتباع ہے۔
حضرت احمد الحواری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ اتباعِ سنت کے بغیر ہر عمل باطل ہے۔ شرعۃ الاسلام فرمانِ نبوی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ جس نے سنت کو ضائع کیا (اس پر میری شفاعت حرام ہے۔
1،۔۔۔۔ وہ خرق عادت جو کسی غیر مسلم سے سرزد ہو۔
اللہ کا دیوانہ عاشق
ایک شخص نے ایک دیوانے سے ایک ایسا عمل سرزد ہوتے دیکھا جو خلافِ توقع تھا وہ جناب معروف کرخی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں پہنچا اور واقعہ کہہ سنایا آپ نے کہا، اللہ کے بہت سے عشاق ہیں، کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے، کچھ عقلمند ہیں اور کچھ دیوانے ہیں، جس شخص کو تم نے دیکھا ہے وہ اللہ کا عاشق دیوانہ ہے۔
حکایت
حضرت جنید کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیمار ہوگئے، ہمیں ان کی بیماری کے اسباب کا پتہ نہیں چل رہا تھا، کسی نے ہمیں ایک حکیم حاذوق کا پہ بتلایا ہم ان کا قارورہ اس حکیم کے پاس لے گئے، وہ حکیم کچھ دیر توجہ سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا! یہ کسی عاشق کا قارورہ نظر آتا ہے۔ یہ سنتے ہی میں بے ہوش ہوگیا اور بوتل میرے ہاتھ سے گر گئی، جب میں نے سری سقطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو واپس آکر واقعہ بتلایا تو انہوں نے تبسم فرمایا اور فرمایا اسے اللہ سمجھے! اس نے یہ کیسے معلوم کر لیا ؟ میں نے پوچھا کیا محبت کے اثرات پیشاب مین بھی ظاہر ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا، ہاں!
حضرت فضیل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے، جب تجھ سے پوچھا جائے تو اللہ سے محبت کرتا ہے تو چپ ہوجا کیونکہ اگر تو نفی میں جواب دے گا تو یہ کفر ہوگا اور اگر ہاں کہے گا تو تیرے اندر عاشقوں جیسی کوئی صف ہی موجود نہیں ہے (اس طرح تو جھوٹا سمجھا جائیگا) پس خاموشی اختیار کرکے ناراضگی سے بچ جا۔
جناب سفیان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے جو شخص اللہ تعالٰی کے دوست کو دوست رکھتا ہے وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے احترام کرنے والے کا احترام کرتا ہے وہ اللہ کا احترام کرتا ہے۔
جناب سہل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے، حُب خدا کی نشانی حُب قرآن ہے، اور حب قرآن کی نشانی حب نبی ہے اور حب نبی کی نشانی نبی کی سنت سے محبت ہے اور حب سنت کی نشانی آخرت کی محبت ہے، آخرت کی محبت دنیا سے بغض کا نام ہے اور دنیا سے بغض کی نشانی معمولی مالِ دنیا پر راضی ہونا اور آخرت کیلئے دنیا کو خرچ کرنا ہے۔
حضرت ابو الحسن زنجانی کا قول ہے، عبادت کی بنیاد تین چیزیں ہیں، آنکھ، دل، زبان۔ آنکھ عبرت کیلئے، دل غور و فکر کیلئے اور زبان سچائی کا گہوارہ اور ذکر و تسبیح کیلئے ہو، چنانچہ فرمان الٰہی ہے:۔
واذکروا اللہ ذکرا کثیرا وسبحوہ بکرۃ واصیلا۔
تم اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔
حکایت
حضرت عبداللہ اور احمد بن حرب ایک جگہ گئے، احمد بن حرب نے وہاں خشک گھاس کا ایک ٹکڑا کاٹا۔ حضرت عبداللہ نے جناب احمد بن حرب سے کہا تجھے پانچ چیزیں حاصل ہو گئیں، تیرے اس فعل سے تیرا دل اللہ کی تسبیح سے غافل ہوا، تو نے اپنے نفس کو اللہ کے ذکر کے ماسوا کاموں کی عادت ڈالی، تونے اپنے نفس کیلئے ایک راستہ بنا دیا جس میں وہ تیرے پیچھے پڑیگا، تونے اسے اللہ کی تسبیح سے روکا اور قیامت کیلئے اپنے نفس کو رب کے سامنے ایک حجت دے دی۔
حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں میں نے شیخ جرجانی کے پاس پسے ہوئے ستو دیکھے، میں نے پوچھا آپ ستو کے علاوہ اور کچھ کیوں نہیں کھاتے ؟ انہوں نے جواب دیا میں نے کھانا چبانے اور ستو پینے میں ستر تسبیحوں کا اندازہ لگایا ہے، چالیس سال ہوئے میں نے روٹی کھائی ہی نہیں تاکہ ان تسبیحوں کا وقت ضائع نہ ہو۔
حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالٰی علیہ پندرہ دن میں صرف ایک مرتبہ کھاتے اور جب ماہِ رمضان آتا تو مہینے میں صرف ایک مرتبہ کھاتے۔ بعض اوقات تو وہ ستر دنوں تک بھی کچھ نہ کھاتے۔ جب آپ کھانا کھاتے تو کمزور ہو جاتے اور جب بھوکے رہتے تو قوی ہو جاتے تھے۔
حضرت ابو حماد الاسود رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تیس برس کعبہ کے مجاور رہے مگر کسی نے انہیں کھاتے پیتے نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ ایک لمحہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوئے۔
حکایت
جناب عمرو بن عبید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تین کاموں کے علاوہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلتے نماز باجماعت کیلئے، مریضوں کی عیادت کیلئے اور جنازوں میں شرکت کیلئے اور وہ فرماتے ہیں میں نے لوگوں کو چور اور رہزن پایا ہے، عمر ایک عمدہ جوہر ہے جس کی قیمت کا تصور نہیں کیا جا سکتا لٰہذا اس سے آخرت کیلئے خزانہ کرنا چاہئیے اور آخرت کے طلبگار کیلئے ضروری ہے کہ وہ دنیا میں ریاضت کرے تاکہ اس کا ظاہر اور باطن ایک ہو جائے، ظاہر و باطن پر مکمل اختیار حاصل کئے بغیر حالت کا سنبھالنا مشکل ہے۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ ابتدائے ریاضت میں جب مجھے نیند آتی تو میں آنکھوں میں نمک کی سلائی لگاتا، جب نیند زیادہ تنگ کرتی تو میں گرم سلائی آنکھوں میں پھیرلیتا۔
حضرت ابراہیم بن حاکم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے، میرے والد محترم کو جب نیند آنے لگتی تو وہ دریا کے اندر تشریف لے جاتے اور اللہ کی تسبیح کرنے لگتے جسے سن کر دریا کی مچھلیاں اکٹھی ہو جاتیں اور وہ بھی تسبیح کرنے لگتیں۔
حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے رب سے دعاء مانگی، میری رات کی نیند اڑا دے اللہ نے ان کی دعاء قبول کی اور انہیں چالیس برس تک نیند نہ آئی۔ (اس طرح تمام راتیں انہوں نے عبادت میں بسر کیں)
حضرت حسن حلاج رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے جسم کو ٹخنوں سے گھٹنوں تک تیرہ جگہوں سے بیڑیوں میں جکڑ رکھا تھا اور اسی حالت میں وہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نفل ادا کرتے تھے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ابتدائے حال میں بازار جاتے اور اپنی دکان کھول کر اس کے آگے پردہ ڈال دیتے اور چار سو رکعت نفل ادا کرکے دکان بند کرکے گھر واپس آجاتے۔
حضرت حبشی بن داؤد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھی۔
لٰہذا ہر مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ باوضو رہے، جب بے وضو ہو جائے تو فوراً وضو کرکے دو رکعت نفل ادا کرے، ہر مجلس میں قبلہ رو بیٹھے، حضور دل اور مراقبہ کے ساتھ یہ تصور کرے کہ وہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مواجہ شریف میں بیٹھا ہے، تحمل اور بردباری کو اپنے افعال میں لازم رکھے، دکھ جھیلے مگر بُرائی کا بدلہ برائی سے نہ دے، گناہوں سے استغفار کرتا رہے، خود بینی اور ریا کے قریب نہ جائے کیونکہ خود بینی شیطان کی صفت ہے، اپنے آپ کو حقارت سے اور نیک لوگوں کو احترام سے دیکھے اس لئے کہ جو شخص نیکیوں کے احترام کو نہیں جانتا اللہ تعالٰی اسے ان کی صحبت سے محروم کر دیتا ہے اور جو شخص عبادت کی حرمت و عظمت کو نہیں جانتا اللہ تعالٰی اس کے دل سے عبادت کی شیرینی نکال دیتا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض سے ایک سوال
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا اے ابو علی! آدمی نیک کب ہوتا ہے ؟ فرمایا جب اس کی نیت میں نصیحت، دل میں خوف، زبان پر سچائی اور اس کے اعضاء سے اعمالِ صالحہ کا صدور ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی نے شب معراج نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا اے احمد! (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو تمام لوگوں سے زیادہ پرہیزگار بننا پسند ہے تو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت کیجئے۔ آپ نے عرض کی، الٰہ العٰلمین! دنیا سے بے رغبتی کیسے ہو ؟ فرمانِ الٰہی ہوا دنیا کے مال سے بقدر ضرورت کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں لے لیجئے اور بس! کل کیلئے ذخیرہ نہ کیجئے اور ہمیشہ میرا ذکر کرتے رہئیے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا، ذکر پر دوام کیسے ہو ؟ جواب ملا لوگوں سے علٰیحدگی اختیار کیجئے، نماز کو اور بھوک کو اپنی غذا بنائیے۔ فرمانِ نبوی ہے۔ دنیا سے کنارہ کشی جسم و جان کی تازگی ہے اور دنیا کی رغبت میں غم واندوہ کی فراوانی ہے، دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے اور کنارہ کشی ہر خیرو برکت کی بنیاد ہے۔
دلِ بیمار کا علاج
ایک صالح شخص کا ایک جماعت کے پاس سے گزر ہوا، وہاں ایک معالج بیماریوں اور دوائیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ صالح جوان نے پوچھا اے جسموں کے معالج! کیا تیرے پاس دلوں کا بھی علاج ہے۔ وہ بولا ہاں بتاؤ دل میں کیا بیماری ہے ؟ صالح جوان نے کہا گناہوں کی ظلمت نے اسے سخت کر دیا ہے۔ معالج نے کہا اس کا علاج صبح و شام گریہ و زاری، استغفار، رب غفور کی اطاعت میں سعی اور اپنے گناہوں پر معذرت طلبی ہے، دوا تو یہ ہے، شفاء رب کے پاس ہے، وہ صالح جوان اتنا سنتے ہی بے حال ہوگیا اور کہنے لگا تم واقعی ایک اچھے طبیب ہو، تم نے لاجواب علاج بتلایا۔ معالج نے کہا، یہ اس کا علاج ہے جو تائب ہو کر اپنے رب کے حضور آ گیا ہو۔
دو آقاؤں کی خدمت
ایک شخص نے ایک غلام خریدا، غلام نے کہا اے مالک! میری تین شرطیں ہیں۔
1۔ جب نماز کا وقت آئے تو مجھے اس کے ادا کرنے سے نہ روکنا۔
2۔ دن کو مجھ سے جو چاہو کام لو مگر رات کو نہیں۔
3۔ مجھے ایسا کمرہ دو جس میں میرے سا کوئی نہ آئے۔
مالک نے تینوں شرطیں منظور کرتے ہوئے کہا گھر میں رہنے کے لئے کوئی کمرہ پسند کرلو، غلام نے ایک خراب سا کمرہ پسند کرلیا، مالک بولا تو نے خراب کمرہ کیوں پسند کا ؟ غلام نے جواب دیا، اے مالک! یہ خراب کمرہ اللہ کے یہاں چمن ہے چنانچہ وہ دن کو مالک کی خدمت کرتا اور رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاتا۔ ایک رات اس کا مالک وہاں سے گزرا تو اس نے دیکھا کمرہ منور ہے، غلام سجدہ میں ہے اور اس کے سر پر ایک نورانی قندیل معلق ہے اور وہ آہ و زاری کرتے ہوئے کہہ رہا ہے، یا الٰہی! تو نے مجھ پر مالک کی خدمت واجب کر دی ہے اور مجھ پر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تو میں صبح و شام تیری عبادت میں مشغول رہتا، اے اللہ! میرا عذر قبول فرما لے۔ مالک ساری رات اس کی عبادت دیکھتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، قندیل بجھ گئی اور کمرے کی چھت حسب سابق ہموار ہوگئی وہ واپس لوٹا اور اپنی بیوی کو سارا ماجرا سنایا۔
جب دوسری رات ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو ساتھ لیکر وہاں پہنچ گیا، وہاں دیکھا تو غلام سجدہ میں تھا اور نورانی قندیل روشن تھی، وہ دونوں دروازے پر کھڑے ہوگئے، اور ساری رات اسے دیکھ کر روتے رہے، جب صبح ہوئی تو انہوں نے غلام کو بلا کر کہا ہم نے تجھے اللہ کے نام پر آزاد کر دیا ہے تاکہ تو فراغت سے اس کی عبادت کر سکے، غلام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا،
یا صاحب السران السرقد ظھرا
ولا اھید حیوتی بعد ما اشھا
اے صاحب راز، راز ظاہر ہوگیا، اس میں اس افشائے راز اور شہرت کے بعد زندگی نہیں چاہتا۔ پھر کہا اے الٰہی! مجھے موت دے دے اور گر کر مر گیا۔ واقعی صالح، عاشق اور طالب مولٰی لوگوں کے حالات ایسے ہی تھے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام سے دوست کی فرمائش
زہرالریاض میں ہے کہ موسٰی علیہ السلام کا ایک عزیز دوست تھا، ایک دن آپ سے کہنے لگا اے موسٰی! میرے لئے دعاء کر لیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھے اپنی معرفت عطا فرمائے۔ آپ نے دعاء کی، اللہ تعالٰی نے آپ کی دعاء قبول فرمائی اور وہ دوست آبادی سے کنارہ کش ہو کر پہاڑوں میں وحوش کے ساتھ رہنے لگا۔ جب موسٰی علیہ السلام نے اسے نہ پایا تو رب تعالٰی سے التجا کی، الٰہی! میرا وہ دوست کہاں گیا ؟ رب تعالٰی نے فرمایا، اے موسٰی! جو مجھے صحیح معنوں میں پہچان لیتا ہے وہ مخلوق کی دوستی کبھی پسند نہیں کرتا (اس لئے اس نے تمہاری اور مخلوق کی دوستی کو ترک کر دیا ہے۔)
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عیسٰی اور یحیٰی علیہما السلام اکٹھے بازار میں جا رہے تھے ایک عورت نے انہیں زور سے ہٹایا، حضرت یحٰیی علیہ السلام نے کہا، رب کی قسم! مجھے اس کا پتہ ہی نہیں چلا، حضرت عیسٰی علیہ السلام نے کہا سبحان اللہ! آپ کا بدن تو میرے ساتھ ہے مگر دل کہاں ہے ؟ حضرت یحیٰی علیہ السلام نے جواب دیا، اے خالہ کے بیٹے! اگر میرا دل ایک لمحہ بھی غیر خدا سے متعلق ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں میں نے اپنے رب کو پہچانا ہی نہیں، کہا گیا ہے کہ سچی معرفت یہ ہے کہ انسان دنیا و آخرت کو چھوڑ کر اللہ تعالٰی کا ہی ہو جائے اور شراب محبت کا ایسے جام پئے کہ اللہ تعالٰی کا دیدار کئے بغیر ہوش میں نہ آئے، ایسا شخص ہی ہدایت یاب ہے۔
مکاشفۃ القلوب، باب نمبر11
پیرآف اوگالی شریف
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1285479 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.