”اے ماں کاش تو زندہ ہوتی“
شعری وارداتوں کا انوکھا تجربہ
ہمارے ہاں واردات کا لفظ سنتے ہی لوگ الرٹ ہو جاتے ہیں اور ان کا پہلا سوال
ہوتا ہے کہ یہ کہاں پڑی ہے۔ گویا ہمارے معاشرے میں واردات کو چوروں، ڈاکوﺅں اور
نوسربازوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ لفظ واردات کو اگر کسی طبقے سے عزت و تکریم سے
نوازا ہے تو وہ شاعر لوگ ہیں۔ وہ اس نفسا نفسی کے دور میں بھی ”شعری وارداتوں“
کے ذریعے لفظ واردات کے لئے کلمہ حق کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ حال ہی
میں ایک شعری واردات ”اے ماں کاش تو زندہ ہوتی“ کے نام سے شائع ہوئی جس کی
مصنفہ جنابہ رفعت انجم ہیں۔ کتاب کا نام ہی جذبوں کی سچائی اور محبتوں کی
رعنائی کی نشاندہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ میرے لئے یہ کتاب اس حوالے سے منفرد ہو
گئی کہ یہ کتاب مجھے میری شریک حیات کے توسط سے ملی چونکہ شادی سے لے کر اب تک
کے تقریباً 13سالوں میں یہ پہلی کتاب ہے جوانہوں نے مجھے پڑھنے کو دی۔ ویسے بھی
شادی کے بعد کتابیں پڑھنے کا بھلا کس کو خیال رہ جاتا ہے۔ انسان دال روٹی کے
چکروں کی وجہ سے ویسے بھی” پڑھنے “پڑ جاتاہے۔ بہرکیف کتاب دیکھی تو سرورق پر
لکھے ہوئے شعر نے اپنے ہونے کا احساس دلایا اور اسے پڑھے بغیرآگے بڑھنا مشکل
دکھائی دیا۔ آپ بھی پڑھئے۔
تمہارے ہجر میں اس قدر روئے
کہ اپنی آنکھوں کی روشنی کھو دی
محترمہ رفعت انجم کا شعری مجموعہ بلاشبہ ان کی پہلی کتاب ہے لیکن قاری کو اپنی
اور کھینچنے کی سکت رکھتاہے کہ ان کی ایک غزل کے درج ذیل اشعار بھی اپنے اندر
منفرد شعری واردات سموئے ہوئے ہیں۔
زخم بھول جانے کا ہم تو ظرف رکھتے ہیں
رنج و غم بڑھانے میں تم نے ابتدا کی ہے
سفرِ زیست میں کانٹے، کس نے بو دیئے انجم
اور سوائے کانٹوں کے ہم کو کچھ ملا بھی ہے
”ماں“ سے محبت کسے نہیں ہو گی لیکن محترمہ رفعت انجم نے جس طرح ماں کو یاد کیا
ہے اس کی مثال شاید کم کم ہے ۔محترمہ رفعت انجم جیسی بیٹی کی ماں ہونا کتنے
اعزاز کی بات ہے۔ رفعت انجم اپنی طویل نظم اے ماں کاش تو زندہ ہوتی۔“ میں اپنی
ماں کو کس طرح یاد کرتی ہیں چند اشعار آپ بھی دیکھئے۔
اے ماں کاش تو زندہ ہوتی
سر اپنا تیری گود میں رکھتی
دل کے سارے زخم دکھاتی
سن کے میرے سارے دکھ
تو پھر میرا سرسہلاتی
کتنے پیار سے بہلاتی
جینے کے پھر راز بتاتی
کانٹوں بھری اس دنیا میں
جینا ہے کیسے ؟ یہ سمجھاتی
اے ماں کاش تو زندہ ہوتی
محترمہ رفعت انجم کے شعری مجموعہ میں محبت اور وصال کے مختلف روپ اور مختلف
ادوار پر مبنی شاعری ملتی ہے۔ لیکن انہوں نے ماں بیٹی کی محبت کو اپنی شاعری کے
ذریعے امر کر دیا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
پھر اک ماں کا آنچل بھیگا
پھر اِ ک بیٹی ہوئی پرائی
رومانوی شاعری کے حوالے سے شعر کہنے کا بھی ان کا اِک اپنا ہی انداز ہے۔ انہوں
نے رومانویت کو اک سچی اور سُچی لگن کا روپ دیا ہے کہ یہ جذبات کٹھن سے کٹھن
مراحل اور دشوار گزار زندگی کو بھی یادگار بنا دیئے ہیں اور انسان کو اپنے ہونے
کا احساس دلاتے ہیں۔ چند اشعار دیکھئے۔
صرف اِک شخص ہی سے محبت ہوئی ہمیں
پھر اس کے بعد کوئی بھی بھایا نہ آنکھ کو
سمجھ نہ پائی ہوں اس شخص کو آج تک انجم
جو مجھ کو کھو کے پھر بھی میری تلاش میں ہے
سوائے میرے کسی اور کو وہ چاہ نہ سکا
یہ اور بات ہے اپنا مجھے بنا نہ سکا
محترمہ رفعت انجم کی غزلوں کی طرح نظمیں بھی اچھوتے اور نئے موضوعات کے ساتھ
قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ان کی نظم ”بے دام باندی“ تو
پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس نظم میں معاشرے میں عورت کے ساتھ بیٹی، بہن، بیوی
اور ماں کے روپ میں جیسا برتاﺅ کیاجاتا ہے۔اس کا عکس ملتا ہے نظم طویل ہونے کی
بنا پر یہاں نقل نہیں کی جارہی۔ رفعت انجم نے اس نظم کے ذریعے عورتوں کے حقوق
کے لئے جس انداز میں آواز اُٹھائی اور شعور بیدارکیاہے۔ وہ اپنی جگہ منفردہے۔
نظم کے آخری چند اشعار
ٹن ٹن ٹن۔۔۔ ارے بیگم۔۔۔ اٹھ بھی جاﺅ
دن چڑھے تک سونا تو تمہاری عادت ہے
نہ تو فکر ہے میری اور نہ ہی فکرعبادت ہے
یہ سن کر وہ تھکی ماندی عورت سوچ میں پڑ گئی
کہ ہم دنیا کی آدھی آبادی ہیں
ہماری ایک حیثیت ایک پہچان ہونی چاہئے
مگر یہ کیسا المیہ ہے کہ ہم دنیا کی ”آدھی آبادی“
”ڈگری ہولڈر“ ہونے کے باوجود
اس بیمار معاشرے میں کتنی تھکی ماندی ہیں
اور اس بیمار معاشرے کی ”بے دام باندی“ ہیں
رفعت انجم نے اپنے شعری مجموعے میں اپنا کچھ پنجابی کلام بھی شامل اشاعت کیا ہے۔
پنجابی کلام میں بھی زیادہ کلام ’ماں‘ کے بارے میں ہے۔ ایک نظم انہوں نے اپنے
مرحوم والد کے حوالے سے بھی لکھی ہے۔ وہ اپنے والد کو یوں یاد کرتی ہیں۔
جے سانہوں چھڈ کے جانٹراں سی
فیرانہاں پیار نہ پانٹراں سی
تیرے جہا نہ جگ تے کوئی لبھے، تیری یاد آوے
ان کی پنجابی شاعری بھی امکانات کی شاعری ہے۔ جس میں محبت کی وارداتیں ہیں تو
وچھوڑے کی ٹیسیں بھی اُٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کا ایک قطعہ دیکھیئے۔
ہنیر نگری اچ سُٹ کے مینوں
جے ٹرگیﺅں تے کے کریساں
تو میرے دل ول آندا آندا
جے مُڑ گیﺅں تے کے کریساں
ایہہ تیری سنگت حسین بہوں اے
درِ محبت رنگین بہوں اے
توں دل دی وادی سجا کے میری
مکر گیﺅں تے کے کریساں
رفعت انجم کا سفر ابھی جاری ہے۔ انہوں نے شعری میدان کی ابھی پہلی سیڑھی سر کی
ہے۔ گویا ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔ بہرکیف رفعت انجم بھرپور جذبوں کے
ساتھ اپنی منزل پالینے کی صلاحیت سے مالا مال دکھائی دیتی ہیں۔ |