لفظ شعر و شاعری آج کے دور میں اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ ہم لوگ اس کو ہر
شعبے میں استعمال کرتے ہیں۔ جہاں بھی دیکھو اس لفظ کا استعمال بہت ہو رہا
ہوتا ہے۔ میں بذات خود اس لفظ کو اتنا استعمال کرتا ہوں کہ کبھی خود سوچنے
پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ یہ لفظ ہے کتنا چھوٹا مگر اپنے اندر کتنا راز لیے
ہوئے ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں عاشق لوگ بہت پائے جاتے ہیں کیونکہ اس موبائل نے
بہت سے عاشق پیدا کر دیے ہیں۔ پہلے تو کبھی کوئی مجنوں نظر آتا تھا مگر آج
کل ہر موڑ پر ایک عاشق ملے گا اور دیکھیے کہ وہ ہاتھ میں موبائل پکڑے بس
عشق فرما رہا ہو گا۔ اور ہو درجے کا عاشق، چاہیے وہ ان پڑھ ہو، مگر اپنی
عشق میں شعر و شاعری ضرور استعمال کرے گا۔ اور اُسے موبائل میں کچھ لکھنا
آتا نہ ہو مگر کوئی شعر اگر بطور میسج مل جائے تو اُسے پڑھ کر محبوب تک
ضرور بھیجے گا۔
ابھی کل کی بات ہے کہ میں اپنی جاب سے گھر واپس جا رہا تھا تو راستے میں
ایک چوبیس سال کا لڑکا کسی گھر کی باہر والی دیوار پر پینٹ کر رہا تھا کہ
اچانک اُسے موبائل پر کال آئی اور موبائل کو کان پر لگا کر دیوار کے پیچھے
ہو گیا۔ اور بس عاشقی اور شعر و شاعری کو فرمانے لگا۔
وقت جس قدر نازک ہے اُتنا ہم لوگوں بھی نازک ہو گئے ہیں ۔ ہم نے اپنے علم
کو بُری طرح سے مسل دیا ہوا ہے۔ ہم لوگ اگر شاعری کو ہی لیں تو یہ شاعری
بھی اس قدر بُری طرح مسخ ہو چکی ہے کہ بہت دکھ ہوتا ہے
شاعری ایک زمانہ تھا کہ استعمال ہوتی تھی، اور اس قدر و قیمت کا احساس ہوتا
تھا۔ شعر و شاعری کا حقیقی اثرو رسوخ ختم ہو چکا ہے۔ ہر گلی میں ایک شاعر
موجود ہوتا ہے۔ ہر گھر میں ایک عاشق موجود ہوتا ہے۔ اور ہر عاشق ایک دن
محبوب کے ہاتھوں ذلیل ہو کر پھر شاعر ہی بنتا ہے۔
شاعری کا اصل رنگ تو اُن شاعروں کی زبانوں پر تھا جو گزر گئے۔ اُن کے قلم
چلتے تھے۔ ہر لفظ سے خوشبو آتی تھی۔ آج تو ہم کچھ بھی نہیں رہے۔ شاعر کی
شاعری دکھ، زندگی ، احساس، محبت ، کا نام ہوتا ہے۔ |