ٹرین لاہور سے کتابوں کے بنڈل لے
کر روانہ ہوئی اور دو دن کا سفر طے کرکے پندرہ نومبر 2011 کی صبح کراچی
پہنچی۔ اردو بازار کراچی کے سب سے بڑے کتب فروش نے کتابوں کے کچھ ُپلندوں
کو دیگر کتب فروشوں کو بھجوا دیا ،خبر پھیلی اور طلبگار جوق در جوق بازار
کا رخ کرنے لگے۔ صبح دس بجے کتب فروش کے یہاں ملازمت کرنے والے ہمارے
’ہرکارے’ نے اطلاع دی کہ جناب رضا علی عابدی اور جناب انتظار حسین کی
خودنوشت سوانح حیات آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ انتظار حسین کی سوانح حیات کی
اطلاع ایک چونکا دینے والی خبر تھی، اس لیے کہ انتظار حسین 1999 میں اپنی
خودنوشت ’چراغوں کا دھواں‘ کے عنوان سے تحریر کرچکے ہیں جو خاصے کی چیز ہے۔
پھر یہ کیا معاملہ ہے ؟ خیال آیا کہ ہری پور ہزارہ میں مقیم ہمارے دوست
زاہد کاظمی ، انتظار حسین سے رابطے میں رہتے ہیں اور جب بھی لاہور جاتے ہیں
ان سے ضرور ملاقات کرتے ہیں، سو ان سے دریافت کیا جائے۔ زاہد کاظمی سے
معلوم ہوا کہ انتظار حسین نے رواں برس ستمبر میں انہیں اپنی سوانح حیات کے
بارے میں بتایا تھا کہ وہ اس پر کام کررہے ہیں اور جلد ہی یہ کتاب شائع
ہوجائے گی۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چراغوں کا دھواں کی اشاعت کے بعد
انتظار حسین کے دوستوں اور قدردانوں نے انہیں تقسیم ہند سے قبل پیش آنے
والے واقعات اور یاداشتوں کو سپر د قلم کرنے کی درخواست کی تھی۔ بلند شہر
کاقصبہ ڈبائی انتظار حسین کا آبائی گھر تھا۔ دوستوں کے اصرار پر انتظار
حسین نے یادوں کی راکھ کریدی اور اسی مناسبت سے کتاب کا عنوان ’ جستجو کیا
ہے‘ تجویز ہوا۔
پریم چند فیلو شپ کے سلسلے میں انتظار حسین ہندوستان گئے اور اپنی بستی کو
ڈھونڈ نکالا لیکن بقول ان کے ” اس بستی میں وہ کون سی گلی تھی اور وہ کون
سا گھر جہاں اس خانہ خراب کی نال گڑی ہے“ ۔۔۔۔بالاآخر انہوں نے وہ گھر تلاش
کرہی لیا ۔ اپنی اس کتاب کے آخر میں انتظار حسین نے چند بہت ہی نادر تصاویر
شامل کی ہیں، ان میں کہیں وہ اور ناصر کاظمی 1950 میں ایک ساتھ بیٹھے نظر
آتے ہیں تو کہیں 1959 میں محمد حسن عسکری کے ساتھ ایک پلیا سے کمر ٹکائے
دیکھے جاسکتے ہیں،کہیں وہ دیگر مشاہیر ادب کے ہمراہ 1957 میں کافی ہاؤس میں
فراق گورکھپوری کے ساتھ موجود ہیںتو کہیں ریوتی سرن شرما ، عبدالمجید بھٹی،
راجندر سنگھ بیدی، مولانا صلاح الدین احمد ، آل احمد سرور اور ڈاکٹر مالک
رام محفل آرا ہیں۔ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے ساتھ انداز بے تکلفانہ
میں ایک تصویر شامل ہے تو کہیں مظفر علی سید اور احمد مشتاق ایک انداز
محبوبانہ لیے براجماں ہیں۔
تین صد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت اس کے ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور
نے 900 مقرر کی ہے۔ یاد رہے کہ سنگ میل سے آن لائن خریداری بھی کی جاسکتی
ہے، ان کے دیے ہوئے بینک اکاؤنٹ میں کتابوں کی کل قیمت کو منتقل کیا جاتا
ہے اور ڈاک خرچ کی ادائیگی کے بعد کتابیں اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔
کتابوں کی بیرون ملک ترسیل کی سہولت بھی موجود ہے جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل
پتے پر دیکھی جاسکتی ہیں:
https://www.sangemeel.com/InfoPage.aspx?Info=Shipping
دوسری کتاب جناب رضا علی عابدی کی ”اخبار کی راتیں‘ ہے، ناشر سنگ میل
پبلیکیشنز لاہور، صفحات 190 اور قیمت 400۔
قارئین کو عابدی صاحب کی اس کتاب کا انتظار دو ماہ سے تھا ، وہ اس کتاب کا
عندیہ یا داشتوں پر مبنی کتاب ’ریڈیو کے دن ‘ میں دے چکے تھے۔ کتاب کے پس
ورق پر9 نومبر 1959 کی ایک تصویر دی گئی ہے ، اس رات کراچی سے اخبار والوں
کا قافلہ راولپنڈی پہنچا تھااور ریلوے اسٹیشن پر ا ستقبال کرنے والوں میں
شوکت تھانوی بھی موجود تھے۔
رضا علی عابدی صاحب کہتے ہیں کہ ” کچھ نامور لوگوں نے اپنی زندگی کے حالات
لکھے، کچھ غیر معمولی واقفیت رکھنے والوں نے درون خانہ معاملات پر پڑے ہوئے
پردے اٹھائے لیکن عام لوگوں نے اپنے ماحول اور اطراف کو قلم بند نہیں کیا۔“
’اخبار کی راتیں ‘ دوران ملازمت اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات
کا مرقع ہے ، اس میں ان عام لوگوں کا بیان بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور
اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خاص کہلائے، اپنی تخلیقات کے زور پر لوگوں کے
دلوں تک پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں اخبار سے وابستہ ان ساتھیوں کا تذکرہ
بھی ملتا ہے جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے۔ ایسے رفیقوں کی تعداد پچاس
تھی اور پورے پچاس برس بعد رضا علی عابدی انہیں تلاش کرنے نکلے ، پتہ چلا
کہ ان میں سے بمشکل دس زندہ ہیں اور وہ بھی بہت ضعیف ہوچکے ہیں ۔
رضا علی عابدی زیر موضوع کتاب کو سوانح حیات سے زیادہ ایک مخصوص دور کے
ماحول کی عکاسی مانتے ہیں۔ ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں اس دور سے وابستہ
یادیں اور اپنے رفقائے کار گویا چلتی پھرتی حالت میں محفوظ ہیں ، ان کیفیات
کو انہوں نے بقول ان کے ایک گراں قدر سرمایہ اور گزرے وقت کی سوغات سمجھا ،
انہیں سمیٹا ، یکجا کیا اور کاغذ پر اتار دیا۔
جناب رضا علی عابدی نے نوجوانی میں صحافت میں قد م رکھا تھا ۔یہ سن پچاس کی
دہائی کا اواخر تھا ۔ روزنامہ جنگ میں دیدہ ریزی پر مامور ہوئے جس کی تفصیل
انہوں نے پہلی باب ’ ہاں، میں پروف ریڈر تھا‘ میں درج کی ہے۔ دوران ملازمت
کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی مقیم رہے، اخبار جنگ کو خیر باد کہا تو
اخبار حریت میں براجے۔ مشرقی پاکستان میں شورش اپنے عروج پر تھی، ایک رات
جب عابدی صاحب اخبار کی شہ سرخی جما چکے تھے کہ ڈھاکہ سے نامہ نگار کا فون
آیا، کہنے لگا، لیجیے عابدی صاحب خبر لکھیے، میں اس وقت مسجد بیت المکرم کے
سامنے موجود ہوں اور یہاں مجمع مجیب بھٹو بھائی بھائی کے نعرے لگا رہا
ہے۔عابدی صاحب جھٹ دوڑے اور شہ سرخی تبدیل کردی ، نئی سرخی تھی ’ مجیب بھٹو
بھائی بھائی‘ ۔ اگلی شام کو عابدی صاحب سینہ تانے اپنی جمائی شہ سرخی کی
اچھوتی اصطلاح پر نازاں دفتر پہنچے تو ایڈیٹر کو بجھا بجھا پایا، انہوں نے
عابدی صاحب سے کہا کہ انہیں صبح صبح مالکان نے طلب کیا اور سرخی کی جانب
اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ اخبار ہم نے اس لیے تو نہیں نکالا تھا۔
رضا علی عابدی نے بی بی سی لندن میں ملازمت کی درخواست ڈال دی۔
’اخبار کی راتیں ‘ میں کئی جانے پہچانے نام نظر آتے ہیں جن میں سحاب قزلباش
، ساقی فاروقی، کارٹونسٹ نجمی، شفیع عقیل، عرش تیموری، اطہر علی،شوکت
تھانوی،حبیب الرحمان، یوسف صدیقی،رفیع الزماں زبیری،غازی صلاح الدین ، فخر
ماتری، جعفر طاہر، مولانا حسن مثنی ندوی، محمد صلاح الدین (بعد میں مدیر
تکبیر) وغیرہ شامل ہیں۔
رضا علی عابدی کو راولپنڈی میں دوران ملازمت اپنے دیگر فرائض کے علاوہ دو
مرتبہ رپورٹنگ بھی کرنی پڑی ۔ ایک تب جب حویلیاں جانے والی ٹرین پل سے اتر
کر برساتی نالے میں گر پڑی تھی، وہ اسپتال کے مردہ خانے پہنچے اور وہاں کا
منظر دیکھ کر لپک کر باہر آئے اور ایک کان کو ہاتھ لگایا۔دوسر ی مرتبہ
عدالت پہنچے جہاں ایک شریف گھرانے کی لڑکی اور اسی گھر کے ملازم کا معاملہ
پیش کیا گیا ، ملازم پر الزام تھا کہ وہ لڑکی کو ورغلا رہا ہے لہذا لڑکی کو
بچایا جائے، مجسٹریٹ نے لڑکی سے کہا کہ تم اس لڑکے سے بچ کر رہو، یہ تمہاری
عزت خاک میں ملا دے گا۔لڑکی نے مجسٹریٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’
جناب! وہ سب تو ہوچکا ہے، آپ ہمارا نکاح پڑھوا دیجیے۔“
عابدی صاحب لپک کر باہر آگئے اور دوسرے کان کو ہاتھ لگایا!
روزنامہ حریت کی ملازمت کادورانیہ مختصر ہی رہا، گرچہ اخبار فخر ماتری کی
ادارت میں بڑے طمطراق سے نکلا تھا لیکن بقول عابدی صاحب ’زیادہ عرصے جیا
نہیں۔‘
پی آئی اے کی پرواز پہلی مرتبہ قاہرہ جانے کو تھی، عابدی صاحب کو دنیا
دیکھنے کا شوق تھا، وہ فخر ماتری کے سامنے مصر ہوئے کہ انہیں بھی اس پرواز
کے ذریعے قاہرہ کے سفر پر بھیجا جائے، فخر ماتری خاموش رہے کہ جعفر منصور
کو بھیجنے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے، جعفر منصور حریت میں قطعہ لکھتے
تھے۔ 20 مئی 1965 کے روز قاہرہ جانے والی اس پرواز کے مسافر ، چار پانچ کے
سوا، تمام کے تمام اگلے جہان کو سدھارے تھے!
دوران ملازمت ، رضا علی عابدی حریت کی جانب سے دولت مشترکہ کے ایک تربیتی
کورس میں لندن گئے۔یہ بات ہے جنوری 1968 کی۔
لندن میں ایک روز وہ بس میں کہیں جارہے تھے۔ لکھتے ہیں : ” میرے برابر والی
نشست خالی تھی، اتنے میں ایک لڑکی آکر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے بدن کی
گرمی مجھے محسوس ہورہی تھی، وہ بھی اس شان بے نیازی سے بیٹھی تھی کہ جیسے
کوئی بات ہی نہیں اور میرا یہ حال کہ سارے شرعی احکام ایک ایک کرکے یاد آنے
لگے اور میں اپنے کونے میں سکڑ گیا۔
نہ ہوئے مستنصر حسین تارڑ۔“ (ص: 134)
یہاں ہمیں برسوں پہلے کا پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ
لاہور کے یعقوب ناسک دل کے آپریشن کی غرض سے لندن گئے، ایک روز ٹیوب میں
سفر کررہے تھے کہ ایک لڑکی ان کے برابر آ کر بیٹھ گئی، سفر طویل تھا، لڑکی
کی آنکھ لگ گئی اور اس کا سر دھیرے دھیرے یعقوب صاحب کے کاندھے سے آلگا۔
یعقوب صاحب نے کچھ دیر برداشت کیا اور پھر اسے جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا:
” اٹھو بی بی ! میں یعقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں!
لندن میں تربیتی کورس کے سلسلے میں قیام کے دوران ان کا ایک ہندوستانی
ساتھی اوم کمار جوشی تھا ، جوشی کمال کا صحافی تھا، اسے ان گنت لطیفے یاد
تھے۔ رضا علی عابدی کے سوڈانی دوست محمود نے ہندوستانی گالیاں سیکھ لیں،
شام کو جب یہ ٹولہ گھومنے نکلتا اور کسی گوشے میں بوس و کنار میں مصروف
لڑکے لڑکیاں ملتے تو محمود انہیں ہندوستانی گالیاں دیتا تھا۔ اوم کمار جوشی
کو ایک ہی غم کھائے جاتا تھا کہ یہ لڑکے لڑکیاں آخر آپس میں اتنی جلدی اور
آسانی سے کیسے دوستی کرلیتے ہیں ۔کچھ دن بعد سب نے یہ محسوس کیا کہ جوشی
غائب رہنے لگا ہے۔، نہ ان کے ساتھ گھومنے جاتا ہے اور نہ ہی آپس میں مصروف
جوڑوں کو گالیاں دیتا ہے۔ ایک دن جوشی کہنے لگا کہ کوئی اردو گالی بتاؤ۔
رضا علی عابدی لکھتے ہیں : ”وہ گالی ہم نے اسے بتائی،معلوم ہوا کہ جوشی
لڑکیوں کویہ کہہ بیٹھے کہ میں مشرق سے آیا ہوا ہندو پنڈت ہوں اور تمہیں
قسمت کا حال بتا سکتا ہوں، بس پھر غضب ہوگیا، انٹرنیشنل ہاؤس میں جوشی کے
کمرے کے باہر لڑکیوں کی قطار لگ گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جوشی کو سر
کھجانے کی بھی فرصت نہ رہی۔
ایک روز ہم چھ سات کی ٹولی آرام گاہ میں بیٹھی تھی کہ جوشی دو لڑکیوں کے
ساتھ وہاں پہنچ گیا
میں نے اور مرزا نے کہا: جوشی ، اردو گالی سنو گے ؟
بولا: سناؤ
ہم نے بیک آواز کہا: ××××× (ص: 137)
حریت میں ملازمت کے بیان میں عابدی صاحب نے اپنے ساتھی عنایت اللہ کا ذکر
کیا ہے جو اخبار کو پریس میں بھیجنے سے قبل ہمیشہ کہا کرتے تھے : ” اس
میںشک ڈالو“۔۔مطلب یہ کہ اچھی طرح دیکھ لو کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں۔
بقول رضا علی عابدی ، ’ وہ کم بخت ہمیشہ نکلتی تھی۔‘
اسی ضمن میں لکھتے ہیں : ” ایک بار میں اخبار پر آخری نظر ڈال رہا تھا ،
دیکھا کہ ایک چھوٹی سی خبر پر سرخی لگی ہے جس میں لکھا ہے ’علامہ رشید
شرابی علیل ہیں ، ‘رشید ترابی کے نام کا یہ حشر پہلے تو کاتب نے کیا، پھر
پروف ریڈر نے کیا۔
ایک مرتبہ ایک اور سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا ، رات پوری طرح ڈھل چکی تھی ،
آنکھیں منتظر تھیں کہ کام ختم ہو او ر گھر جائیں، آخری دو صفحات پر کڑی نظر
ڈالی جارہی تھی ، سرخی لگی تھی:
صدر ایوب غلیل ہوگئے ۔
اگر یہ خبر یونہی چھپ جاتی تو تو میں اپنی زندگی کا آخری مصرعہ کہتا:
ایک ُغلہ میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے (ص: 145)
رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی
خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ
پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی
کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی
تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر
لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مرجاتے۔ عدالت میں حریت کے
فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان
کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں
شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں۔‘
’اخبار کی راتیں ‘کی فہرست ابواب ملاحظہ کیجیے:
ہاں، میں پروف ریڈر تھا، ہندو اخبار میرے دوست ٹھہرے ، سمندر کدھر ہے ؟،
پہلی کتاب، پہلی ملازمت،مشقت شروع ہوتی ہے،میری پیٹھ پر پہلی تھپکی،دفتر
اور تکیہ،جنگ کی جنگ،کیا کیا آشنا،اردو صحافت کا تاج محل،کیسی اڑان ، گردن
پر موت کی گرم گرم سانسیں ، آگے سمندر ہے، صحافیوں کی پوری فصل، تیسرا قدم،
دوسری ہی دنیا، راہ میں پھول پڑے، جب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، بڑی سرخی بڑی
تصویر، زبان کا فن، زبان کو برتنے کا ہنر، ترجمے کے رموز، یہ مسائل تلفظ۔
آخر الذکر باب میں مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے اردو زبان کے چند الفاظ
اور ان کے تلفظ درج کیے ہیں اور قاری کو ترجمے کے رموز اور اس زبان کو
برتنے کا ہنر سکھایا ہے جس کے مٹنے کا غم سینے سے لگائے وہ دنیا بھر میں
اکثر سفر کرتے ہیں ۔ |