نام کتاب --------- ذیابیطس کے
ساتھ ساتھ
موضوع -------- طبی سائنس
مصنف -------- ڈاکٹر عابد معز
مصنف کا فون نمبر اور برقی ڈاک -------- موبائل : 09502044291 ای میل:
[email protected]
تبصرہ نگار --------- رشید انصاری
سنہ اشاعت --------- بار اول مئی 2009 ء بار دوم جنوری 2011ء
صفحات ---------- 432
زیر اہتمام ---------- سید عبدالباسط شکیل
قیمت ------------250روپے
ناشر -------------- ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس ، 455، پرانی حویلی، حیدرآباد
500 002؛ فون 040-2451 4892, 664 8137
سائنسی علوم کی انگریزی کتابوں کے ترجمے اور اشاعت کے کام کو سر سید احمد
مرحوم نے شروع ہی سے بڑی اہمیت دی تھی۔ ماضی میں عربوں کے عروج کا ایک اہم
سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے دوسری زبانوں خاص طور پر یونانی و لاطینی زبان
کے علمی خزانوں کو عربی میں تسلسل و تواتر سے منتقل کرتے رہنے کو اپنا
معمول بنالیا تھا۔یوروپ کی ’نشاة ثانیہ‘ (renaissance) کا ایک اہم راز یہ
بھی تھا کہ عربوں نے علوم و فنون کے جن خزانوں کو عربی زبان میں منتقل کیا
تھا ان سے اہل یوروپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور عربوں سے ان کے علوم حاصل
کرکے ان سے بھی آگے بڑھ گئے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام سے پہلے اور بعد میں
بھی اردو میں مختلف علوم کی کتابوں کے ترجمے، ترتیب و اشاعت کا کام جس
منصوبہ بند و منظم انداز میں جس محنت و لگن سے کیا گیا تھا وہی جامعہ
عثمانیہ میں اردو ذریعہ تعلیم کی کامیابی اور جامعہ عثمانیہ کے بلند معیار
اور شاندار کارکردگی کا راز یا اہم سبب تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں
مختلف علوم و فنون پر اردو میں تصنیف، تالیف، ترجمے اور کتابوں کی اشاعت کا
کام کسی بھی سطح پر تقریباً موقوف ہوگیا تھا۔ تاہم دہلی میں ڈاکٹر اسلم
پرویز اور حیدرآباد میں ڈاکٹر عابد معز اور چند دیگر اصحاب نے زائد از ربع
صدی سے قابل قدر خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ بھی
انشاءاللہ تعالی دیتے رہیں گے۔ مختلف سائنسی علوم و فنون پر ترجمہ، تالیف و
تصنیف منتقل کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے اور مجبور و بے بس بلکہ کسمپرسی اور
اپنوں کی بے اعتنائی ، بے حسی اور بد دیانتی کا شکار اردو زبان کو اس کی
سخت ضرورت ہے۔ ہم تو عابد معز سے (معذرت کے ساتھ) عرض کریں گے کہ ان کی
طنزومزاح نگاری سے اردو کو زیادہ ضرورت طبی سائنس پر مزید ایسے کاموں کی ہے
(جو وہ کرتے رہے ہیں) ۔
حیرت بلکہ بہت زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔
کسی کتاب کا (وہ بھی سائنس سے متعلق)دوسرا ایڈیشن شایع ہونا ازخود کتاب کی
قدروقیمت و پزیرائی کا ثبوت ہے۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کل ’ذیابیطس‘ ہمارا ’قومی مرض‘ بن چکا
ہے۔ حیدرآباد اردو زبان و ادب و اسلامی تہذیب و ثقافت کا ملک کا بڑا مرکز
ضرور ہے لیکن مرض ذیابیطس کا بھی تو صدر مقام ہے۔
’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘ مرض ذیابیطس پر ایک مکمل، جامع اور مبسوط و مفصل
کتاب ہے۔ یوں ہندوستان ہی کیا دنیا بھر میں ذیابیطس کے بارے میں رسالوں میں
شایع ہونے والے مضامین، کتابوں اور الیکٹرانک میڈیا پر مختلف پروگراموں کے
ذریعہ آئے دن مفید یا بکواس اور دلچسپ یا بورنگ قسم کی باتیں اور معلومات
پڑھنے، دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں لیکن ذیابیطس پر ہر پہلو اور ہر زاویہ
نظر سے تحریر شدہ تمام مضامین یا ریڈیو و ٹی وی کے پروگراموں کا یکجا ملنا
محال ہے۔ جبکہ زیر تبصرہ کتاب میں ذیابیطس کے تعلق سے مکمل معلومات آپ کو
یکجا ملیں گے۔ زبان و اسلوب ایسا ہے کہ خالص علمی موضوعات پر لکھی گئی
تحریروں میں ایسی خشکی جو تحریروں کو غیر دلچسپ ہی نہیں ناقابل فہم بنادیتی
ہے وہ آپ کو نہیں ملے گی۔ بلکہ کتاب کا سرِ ورق ہی دل لبھانے والا، دل کش
اور پر کشش ہے۔ رنگوں کے امتزاج اور اشکال وتصاویر دیکھنے والے کی توجہ
سرورق پر مبذول ومرکوز کردیتی ہے۔ عمدہ دبیز کاغذ پر کتابت و طباعت بہت
اچھی ہے۔ کتاب میں خاکے، اشکال، جدول اور تصاویر قاری کی توجہ کو سرورق سے
اندرونی صفحات پر کامیابی سے نہ صرف منتقل بلکہ برقرار رکھتی ہیں۔ اشکال،
جدول، خاکوں اور تصاویر کی تعداد (گوکہ کہیں دی نہیں گئی ہے) کتاب کے جملہ
صفحات (432) کے تقریباً برابر ہی ہوں گی۔ صاحب کتاب کی حیثیت سے ڈاکٹر عابد
معز نے جو محنت اور توجہ اس کتاب کی تیاری میں کی ہوگی وہ تو کتاب کے
مطالعہ کے دوران معلوم ہوتی ہے وہیں اس کتاب کی طباعت و اشاعت میں ناشر کی
محنت و توجہ بھی کچھ کم نہیں ہے اور یہ کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی
محسوس ہوتی ہے۔ سید عبدالباسط شکیل اور ان کا ادارہ ھدی بک ڈسٹری بیوٹرس
بھی نہ صرف لائق ستائش بلکہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ باوجود ضخامت اور بے
شمار خوبیوں کے کتاب کی قیمت انتہائی معقول ہے۔
کتاب کے قارئین کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ صفحہ 17 تا 40 پر دیا گیا کتاب کا
خلاصہ پہلے نہ پڑھیں کیوں کہ اس میں خطرہ یہ ہے کہ انتہائی مبسوط خلاصہ
پڑھنے کے بعد آپ کاہلی کاشکار ہوکر معلومات آفریں مکمل کتاب کے مطالعہ سے
محروم نہ رہ جائیں۔
حصّہ اول میں 14 باب ہیں۔ ذیابیطس کیا ہے؟ اس سوال کا جواب باب 10، 11 اور
12 میں تقریباً 14 صفحات پر ملتا ہے۔ ذیابیطس کا انسولین سے جو تعلق ہے اس
لحاظ سے ص 80 پر انسولین کے افعال کا بطور مطالعہ ضروری ہے۔ ان ابواب سے
قبل اس مرض کی تاریخ باب 6 اور عام معلومات کے لیے ابواب 7، 8 اور 9 پڑھے
جاسکتے ہیں۔ یہ مرض صدیوں سے انسان کو اذیت دیتا آرہا ہے (ص48)۔ اس کے بعد
ذیابیطس کی اقسام کے بعد ایک باب (نمبر 14) ’قبل ذیابیطس ایک جوکھمی حالت‘
(ص90) کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس حصّہ کے دیگر 5 ابواب میں اس مرض کی
وجوہات، شکایات وعلامات، تشخیص، پیشاب اور خون کے معائنے اور گلوکوز کی
پیمائش پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کا حصّہ دوم ’ذیابیطس پر قابو پانے کے غیر دوائی طریقے‘ 19 ابواب اور
174صفحات پر مشتمل ہے۔ علاج، غذا، وزن، پرہیز اور احتیاط کے تعلق سے ضروری
ہدایات کے لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ ذیابیطس کے علاج یا اس پر قابو پانے کے
طریقوں کی وضاحت کے لیے ص 153 کا خاکہ بے حد مفید ہے۔ کئی صفحات پر کہی
جانے والی بات ایک چھوٹے سے خاکے میں کہی گئی ہے۔ اس مرض میں قد کے تناسب
سے وزن کی اہمیت، ورزش کی ضرورت اور فوائد، وزن میں کمی کی ضرورت اور فوائد
کے ساتھ علاج میں غذا کی بنیادی اہمیت کیوں ہے؟ اس تعلق سے ضروری معلومات،
مٹھاس کے استعمال، زیادہ استعمال کے نقصانات اور مصنوعی مٹھاس کی حقیقت کے
تعلق سے ضروری معلومات کتاب کے اس حصے کے مختلف ابواب سے کیے جاسکتے ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے رہنما اصولوں ضروری ہدایات واحتیاط و پرہیز کی
اہمیت سے بھلا کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ان ہی تمام باتوں کا حصول ان ابواب
میں ہے۔
دوسرے حصے کا ہماری نظر میں باب 21 (ص 151) سب سے اہم ہے۔ ’ذیابیطس کا
علاج‘ کے عنوان سے اس باب میں ذیابیطس کے لاعلاج ہونے اور عمر بھر ساتھ نہ
چھوڑنے کی تسلی بخش انداز میں تردید کی گئی ہے۔ دواؤں کے استعمال، غذا میں
پرہیز و احتیاط اور ورزش وحفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرکے اس مرض کا علاج
ممکن ہے تاہم موسمی بخار کھانسی وزکام وغیرہ کی طرح جس طرح دواؤں سے مرض سے
نجات مل جاتی ہے، یہ ذیابیطس میں ممکن نہیں ہے۔ ذیابیطس کے علاج کا مقصد
بڑھے ہوئے خون گلوکوز کو کم کرکے نارمل حد میں رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے
ذیابیطس کا علاج موجود ہے۔
اسی حصّہ میں ورزش، وزن اور قد ، وزن میں مناسب کمی کی افادیت کے علاوہ
ذیابیطس کے علاج میں غذا کی بنیادی اہمیت سے متعلق معلومات بھی ہیں۔ نیز
ذیابیطس سے بچنے اور مرض کو قابو میں رکھنے کے لیے غذا کے تعلق سے مفید
معلومات وہدایات ہیں۔ بندہ اگر بہ فضل رب الکریم اس مرض میں مبتلا نہ ہو تب
بھی یہ معلومات اس کے لیے افادیت رکھتی ہیں۔
قد اور وزن کے تناسب پر عمر کا بھی اثر لازمی ہے۔ اس تعلق سے تشنگی کا
احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح ورزش اور جسمانی محنت سے حراروں کے خرچ پر عمر کا
اثر اور بچوں بوڑھوں اور جوانوں کی غذائی ضروریات ان کو درکار حراروں کی
مقدار ان کے لیے درکار مقویات (nutrients)، شکریات، چکنائی اور لحمیات ،
حیاتین اور معدنیات میں جو فرق ہے وہ بھی نمایاں نہیں کیاگیا ہے۔ ایک جوان
آدمی جتنی دیر ورزش کرسکتا ہے بوڑھا اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس فرق
وضرورت کا بیان بھی ضروری تھا۔ ص 239 و ص240 پر بچوں کے لیے یومیہ درکار
توانائی کی سفارشات کا جو جدول ہے ویسے ہی جدول بڑوں، نوجوانوں اور ضعیفوں
کے لیے بھی ہوتے تو ان کی بوڑھوں کے لیے خاصی افادیت ہوتی۔ راقم الحروف نے
اپنی ضعیفی کو مدنظر رکھ کر معلومات تلاش کیں تو زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔
حصّہ دوم کی سرخی میں ’غیر دوائی طریقے‘ کی اصطلاح کچھ مناسب نہیں لگتی ہے۔
دوسری تمام اصطلاحات معیاری ہیں۔ اختصار کی خاطر بھی ایسی اصطلاح کا
استعمال نامناسب ہے۔ اس سرخی کو اس طرح لکھا جاسکتا تھا ’ذیابیطس پر قابو
پانے کے طریقے(بغیر دوا)‘۔
حصّہ دوم کے آخر میں پیروں کی نگہداشت اور حفظان صحت خصوصی توجہ کے مستحق
ہیں۔ حفظان صحت میں آنکھوں کا بیان (ص 313) خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔
’ذیابیطس اور ذہنی دباؤ‘ کا بیان بہ مشکل دیڑھ صفحے پر ہے (ص 314) اس خیال
کے پیش نظر کہ ذہنی دباؤ stress اور tension کی وجہ سے بھی ذیابیطس ہوسکتا
ہے۔ یہ موضوع تفصیلی ہونا چاہیے تھا۔ یہ موضوع ایسا ہے جس میں تشنگی کا
احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
کتاب کا تیسرا حصّہ ذیابیطس کے دواؤں اور انسولین کے علاج کے بارے میں ہے
جو زیادہ تر علاج کی ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتا ہے لیکن ذیابیطس کے تعلق سے
عام معلومات کا حصول فی زمانہ اس کے مریضوں کی زیادتی کے پیش نظر مریضوں کے
گھر والوں اور خاص طور پر تیمار داروں کے لیے ضروری ضرور ہے۔ مثلاً انسولین
کے بارے میں کچھ نہ کچھ ہر ایک کو جاننا چاہیے۔ انسولین کیا ہے اور اس کی
اقسام جاننے کے لیے (ابواب 41 اور 42) کا مطالعہ بے حد مفید ثابت ہوگا۔ اسی
طرح اسی سلسلے میں مزید ابواب مریضوں اور مریضوں سے متعلق اصحاب کے لیے اہم
و مفید ہیں لیکن ’انسولین کی حفاظت‘ (ص348) اور انسولین کے استعمال کے
فوائد و نقصانات (ص 376) کا مطالعہ تقریباً ضروری ہے۔
’فرہنگ وتشریحات‘ کا باب بجائے آخر ابتدا میں دینا زیادہ مفید ہوتا۔
ذیابیطس کے متعلق ویب سائٹس فراہم کرنا بھی لائق ستائش ہے۔
ہر باب کی سرخی کے ساتھ باب نمبر بھی اگر درج کیاجاتا تو زیادہ سہولت بخش
ہوتا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ ساری کتاب کے مطالعہ کے بعد خلاصہ
(باب 4ص 17) کا مطالعہ بے حد مفید ثابت ہوگا۔
ڈاکٹر ماجد قاضی جو سعودی شاہی خاندان کے خصوصی معالج رہے ہیں نے اپنے
مقدمہ میں چند قابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ مریضوں
اور عام قاریوں کے لیے ریکارڈ اور یادداشت درج کرنے کے لیے جو جدول اور
سادہ صفحات دئیے گئے ہیں وہ ایک مفید کام ہے۔
کتاب کی پہلی اشاعت کے بعد جو تاثرات دئیے گئے ہیں ان میں سے چند آرا کا
اندراج لائق دلچسپی ہوگا۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد۔ ’عمومی طور پر سائنس کو مشکل بناکر پیش کیاجاتا ہے
لیکن ڈاکٹر عابد معز نے مشکل کو آسان بنادیا ہے۔‘
ڈاکٹر سید مصطفی کمال ایڈیٹرماہنامہ شگوفہ ۔ ’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘
حیدرآباد ہی نہیں بلکہ برصغیر میں اپنی نوعیت کی طب پر لکھی جانے والی
منفرد کتاب ہے۔‘
آرکیٹکٹ محمد عبدالرحمن سلیم (ریاض)۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے
کہ مادری زبان میں جو چیز آسانی سے سمجھی اور سمجھائی جاسکتی ہے وہ دوسری
زبان میں ممکن نہیں ہے۔‘
محمد مجاہد سید (جدہ)۔ عابد معز کی یہ قدر ضخیم تالیف اللہ کے بندوں سے ان
کی محبت اور مریضوں کی خدمت پر ان کے یقین کو ظاہر کرتی ہے۔‘
اس کتاب کو مندرجہ ذیل سے حاصل کیاجاسکتا ہے:
1۔ ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس ، 455، پرانی حویلی، حیدرآباد 500 002؛ فون
040-2451 4892, 664 8137
ڈاک برقی: [email protected]
2۔ اسلامی کتاب گھر،2681 کوچہ چیلان، دریا گنج، نئی دہلی110 002۔
3۔ نیوکریسنٹ پبلشنگ کمپنی، 2035 قاسم جان اسٹریٹ، بلیماراں، نئی دہلی 110
006 ۔
٭ ٭ ٭
رشید انصاری
موبائل :09949466582
ڈاک کا پتہ: Flat # 207
Jahandar Towers, Reti Bowli,
Mehdipatnam, Hyderabad 500 0028
Email: [email protected] |