بے بسی یا بے حسی

ہر اچھی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کرے یا ایسا کرنے میں ناکام رہے تو قانونی و اخلاقی لحاظ سے اس کا حق حکمرانی ساقط ہو جاتا ہے۔ اور ادھر تو حال یہ ہے کہ ہرمیدان میں ناکامی کے جھنڈے لہرا رہے ہیں ۔ ملک کا ہر ایک ادارہ برباد ہو کر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ حکمران عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر غیر ممالک کے بنک بھر رہے ہیں۔ پھر انہی سے وہی پیسہ اس بد قسمت ملک کے لئے بھاری شرح سود اور کڑی شرائط کے تحت قرضے کی شکل میں حاصل کیا جاتا ہے۔ اس طرح ناروا اور غیر ضروری قرضوں میں پھنسا کر ایک ایٹمی قوت کی حامل آزاد مملکت کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ بھیک منگا اور غلام بنا دیا ہے۔ جبکہ امن عامہ کی صورتحال ابتر اور قابو سے باہر ہے۔ پھر بھی یہ حکمران ٹولہ کسی طرح جان چھوڑنے کو تیار نہیں اور مسلط رہنے پر مصر ہے ۔ عجب بے حسی ہے۔

ایک وقت تھا کہ کراچی پورے ملک کے بےروزگاروں کے لئے ماں کی آغوش بنا ہوا تھا۔ آج وہاں بھوت ناچ رہے ہیں۔ دم گھٹتا ہے۔ زندگی لرزاں و ترساں ہے۔ حکومت بے بس ہے۔ بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ لوگوں کو بسوں سے نیچے اتار لیا جاتا ہے۔ قطاروں میں کھڑا کر کے پہلے چھانٹی کی جاتی ہے اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات روز بروز ہو رہے ہیں۔ پنجاب والوں کو خصوصی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ اللہ کا عذاب ہی تو ہے۔ مسلم دشمن قوتوں نے ملک میں لسانی، قبائلی، صوبائی عصبیت اور منافرت کی آگ بھڑکا رکھی ہے اور معصوم لوگ اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ بلوچستان کی حکومت بھی بے بس ہے۔ ہماری بد قسمتی ہی کہہ لیں کہ ہر حکومت عوام کو ہمیشہ ہی لاروں اور لوریوں سے سبز باغ دکھلاتی رہی ہے۔ روٹی ،کپڑااور مکان کے ساتھ بنیادی ضروریات میں امن ، عدل، صحت اور تعلیم بھی شامل ہے۔ جو کہ عوام کا حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن وفاقی حکومت ان تمام مسائل کے حل میںبے بس بلکہ بے حس نظرآتی ہے۔

جو بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی راہ میں بے پناہ مشکلات حائل ہیں۔ بھاری اخراجات کے علاوہ محدود سیٹوں والا روگ لا علاج سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ناقابل حل مسئلہ نہیں ہے۔ جیسے کہ پنجاب کے بچوں کی ایک محدود سی تعداد بلوچستان کی انجئینرنگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ وہاں کے مخدوش حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پھر یونیورسٹی کا ہاسٹل بھی مستقل بند ہے۔ وہاں بچوں نے پرائیویٹ رہائش گاہیں کرایہ پر لے رکھی ہیں۔ جو کہ ظاہرہے۔ یونیورسٹی حدود سے باہر اور غیر محفوظ ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے شوقین بچے ہر وقت خوف کی چادر میں لپٹے رہتے ہیں۔

وفاقی حکومت تو بے بس ہے اور بلوچستان حکومت بھی۔ پنجاب حکومت بھی یوں بے بس ہے۔ کہ بلوچستان میں امن کی وہ ذمہ دار نہیں اور نہ ہی پنجاب کے چند درجن طلباءکے لئے کوئٹہ یونیورسٹی کی حدود میں محفوظ ہاسٹل بنا سکتی ہے۔ اور نہ ہی کوئٹہ سے پنجاب اور پنجاب سے کوئٹہ آتے جاتے انہیں تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ ہاں پنجاب حکومت یہ تو کر سکتی ہے کہ پنجاب کے ان ” چند درجن طلبائ“ کو جو کوئٹہ انجئینرنگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ جن کے دن اور رات خوف و ہراس کی کیفیت میں گذرتے ہیں۔ انہیں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں جگہ دے دے۔ تا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔

اس سلسلہ میں ہمیں پنجاب حکومت او ر خادم ا علیٰ شہباز شریف سے اچھی توقع اور اچھی امید ہے۔ سب بچے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ وہ آپ ہی کے بچے ہیں۔ بچے غیر محفوظ ہوں تو بھلا ماں باپ کو نیند آ سکتی ہے؟ سکون کی ایک جھپکی بھی لے سکتے ہیں؟ نا ممکن۔۔۔۔۔۔ ہر بچہ اپنے گھر کا چراغ ہے۔ کسی ماں کا جگر گوشہ ، جگر پارہ ہے۔ باپ کی لاٹھی اور بڑھاپے کا سہارا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہر بچہ اپنا اور ہمارا ہے۔ پاکستان کا چاند اور تارا ہے۔
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 11914 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.