مزاح لکھنا ایک نہایت سنجیدہ کام ہے۔ اس سے زیادہ سنجیدگی کی ضرورت طنز لکھنے
میں پیش آتی ہے۔ ذرا سی غیر سنجیدگی مزاح کو مذاق اور طنز کو دشنام بنا دیتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ مشکل خاکہ نویسی ہے۔ کیونکہ کسی کی شخصیت قلم کے پل صراط سے
گزارنا ہوتی ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس کاا ندازہ اس بات
سے لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ادب میں ثقہ مزاح نویس بھی جب کسی کا خاکہ لکھتے
تھے تو وہ ”شخص“ کی بجائے ایک تصوراتی شخصیت تخلیق کر کے لکھتے رہے۔ مشتاق احمد
یوسفی اور پطرس بخاری جیسی شخصیات نے خیالی کرداروں کو لے کر اپنے اہداف پر طبع
آزمائی کی۔ اس کے باوجود اگر یوسف عالمگیرین نے اپنے احباب اور اپنے عہد کی قد
آور شخصیات پر خاکے لکھنے کا ”رسک“ لیا ہے تو یہ اس کی خود اعتمادی ہی کا مظہر
ہے۔ ویسے تو یوسف نے یہ شخصی خاکے مختلف اوقات میں تحریر کئے اور شائع ہوتے رہے۔
لیکن ان کو ” خوش باشیاں“ کے نام سے حال ہی میں کتابی شکل دی ہے۔ فائن پبلی
کیشنز لاہور کی شائع کردہ اس مختصر مگر بڑی کتاب میں 32 ایسی شخصیات پر خاکے
شامل ہیں جن کو ویسے تو ہر کوئی جانتا ہے لیکن خاکے پڑھتے ہوئے جانے پہچانے لوگ
بھی ایک نئے انداز سے متعارف ہوئے ہیں۔ یوسف عالمگیرین کی بڑی کامیابی ہے کہ
ابھی تک کسی بھی ” زیر مشق“ شخصیت نے اس پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہے اور
نہ ہی یوسف کی دوستی سے دستبردار ہوا ہے بلکہ تین ” متاثرہ“ شخصیات نے تو اس
کتاب کے لئے پیش لفظ لکھ کر اپنے خوش باش ہونے کا عملی ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ ان
سے، ان کے قبیلے کے بڑے بڑے پھنے خان پناہ مانگتے ہیں۔ جی ہاں عطا الحق قاسمی،
ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے یوسف عالمگیرین کے تحریر
کردہ اپنے خاکے پڑھنے کے بعد بھی اگر اپنی خوشنودی ظاہر کی ہے تو یہ بھی کسی
انعام سے کم نہیں ہوسکتا ہے کہ یوسف نے ان کی توصیفی تحریریں کتاب میں شامل
کرکے بعض دوسرے احباب کو حوصلہ دیا ہو کہ یہ کوئی ناراض ہونے والی بات نہیں ہے
یوسف عالمگیرین نہ صرف خود خوش باش ہے بلکہ خوش باشیاں تقسیم بھی کرنے لگا ہے۔
موجودہ دور میں بلاشبہ یہ ایک بڑی نیکی ہے اور پھر یہ کتاب ایسے وقت منظر عام
پر لایا جب ملک میں انتخابات کا زمانہ اور نفرتوں کے اظہار کا دور تھا۔ ہر طرف
” شعلہ بیانیاں“ آگ بھڑکا رہی تھیں ” خوش باشیاں“ نے کم از کم چند ہزار لوگوں
کو تو اس اذیت سے نجات دلا دی ہے جو کوئی بھی اس کتاب کو پڑھتا ہے وہ مسکرائے
بغیر نہیں رہ سکتا۔ چند ساعتوں کے لئے ہی سہی وہ باہر کے دکھوں کو بھول جاتا ہے۔
کسی بھی کتاب کا اس سے بڑافائدہ اور مصرف اور کیا ہو سکتا ہے مجھے یقین ہے کہ
یہ کتاب لکھنے اور مرتب کرنے پر یوسف عالمگیرین کو صدقہ جاریہ کا ثواب بھی ضرور
ملے گا
کتاب میں چند مشہورشخصیات پر لکھا گیا ہے ان میں سے اکثر آج اس دنیا میں نہیں
لیکن یہ خاکے ان کی زندگی میں ہی تحریر ہوئے۔ البتہ کئی خاکے ذرا پہلے لکھ دیئے
گئے اور شخصیت کے کئی پہلو بعد میں واضح ہوئے۔ جیسے اشفاق احمد کا ” تلقین شاہ“
کا زمانہ تو موجود ہے لیکن ” زاویہ“ پیش کرنے کے دوران جو نیا پہلو سامنے آیا
اگر اس کا حوالہ بھی دیا جاتا تو زیادہ جامع ہو سکتا تھا لیکن اس حوالے سے یوسف
نے کوئی خیانت نہیں کی بلکہ جو مضمون جیسا بھی لکھا گیا تھا کسی مزید ترمیم کے
بغیر ہی کتاب میں شامل کر دیا -میں ایک صحافی اور ” لکھاری“ ہونے کی حیثیت سے
اعتراف کرتا ہوں کہ اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، مشتاق احمد یوسفی، سید ضمیر
جعفری، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر یونس بٹ اورڈاکٹر اے آر خالد جیسی شخصیات پر
لکھنا اور فکاہیہ انداز میں لکھنا پل صراط سے گزرنے سے کم نہیں ہے لیکن یوسف
عالمگیرین نے کمال چابکدستی سے الفاظ کو استعمال کیا ہے اور کسی بھی طرح کوئی
ناخوشگوار احساس پیدا نہیں ہو پایا۔
اشفاق احمد کے بارے میں لکھتے ہیں۔
” اشفاق احمد خود کو ملامتی صوفی کہتے ہیں لیکن لوگ انہیں ملامتی یا علامتی
ماننے کو تیار نہیں ہیں صرف ان کی سلامتی مانگتے ہیں۔ نثر کی کوئی صنف اشفاق
احمد کی دسترس سے باہر نہیں ہے لیکن شاعری سے ان کا ہاتھ تنگ ہی رہا ہے بلکہ وہ
تو بعض غزل گو شاعروں سے بھی تنگ رہے ہیں“
مشہورشاعر اور ادیب سید ضمیر جعفری کے بارے میں لکھتے ہیں
” کچھ لوگ ضمیر جعفری کو پڑھ کر ہنستے ہیں او کچھ سن کر، کچھ تو انہیں دیکھ کر
ہی محظوظ ہو لیا کرتے کہ ان سے ” خیر“ کی توقع نہیں ہوا کرتی تھی۔ ضمیر جعفری
اپنے مخصوص انداز میں لہراتے ہوئے آتے اور لہراتے ہوئے چلے جاتے تھے“
عطا الحق قاسمی کے بارے میں لکھتے ہیں
” ظفر علی خان کے بعد وزیر آباد کی جو تین چیزیں مشہور ہوئی ہیں ان میں چھریاں،
وزیر آباد جنکشن اور عطا الحق قاسمی شامل ہیں -عطا الحق قاسمی براہ راست چھریوں
کے کاروبار سے تو کبھی منسلک نہیںرہے لیکن ان کے لکھے ہوئے حروف کی کاٹ کسی
چھری کی کاٹ سے کم نہیں ہوتی“
یوسف عالمگیرین کی اس کتاب میں حسب معمول کتابت کی کمزوریاں بھی ہیں پڑھنے والے
کو ذرا احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ ویسے اس سے یہ سہولت بھی رہتی ہے کہ جو لفظ یوسف
نہ لکھنا چاہتا ہو وہ بھی ” کاتب“ یا ” کمپوزر“ لکھ دیتا ہے۔ خوبصورت شخصیات
اور خوبصورت تحریروں کی اس کتابت میں اگر ”لکیری خاکے“ بھی ذرا توجہ سے بنائے
جاتے تو زیادہ اچھا ہوتا جن آبگینوں کو یوسف عالمگیرین نے بڑی احتیاط سے
سنبھالے رکھا وہ اگر تصویری خاکے دیکھ کر ٹوٹ جائیں تو اس میں قاری کا کوئی
قصور نہیں ہوگا
بہرحال ” خو ش باشیاں“ طبیعت کو خوش باش رکھنے کے لئے ایک بہترین کتاب ہے۔ بلکہ
جو لوگ کتاب پڑھنے سے زیادہ ” رکھنے“ کے شوقین ہیں ان کی لائبریری کے لئے
خوبصورت اضافہ ثابت ہو سکتا ہے پتہ نہیں ناشر اس کتاب کو خوش باش قارئین تک
پہنچا پاتے ہیں یا نہیں |