محبتیں ادھوری سی ۔ حال ہی میں شائع ہونے والا ناول ہے جس کے مصنف محمد ظہیر
بدر ہیں۔ یہ وہی ظہیر بدر ہیں جنہیں ہم ’سیدی ظہیر بدر‘ بھی کہتے ہیں۔ جو لوگ
سیدی ظہیر بدر کو جانتے ہیں وہ ان سے اسی قسم کے کام کی توقع کر رہے تھے جو ان
سے سرزد ہو گیا ہے۔ اردو زبان چونکہ خود اتنی پرانی نہیں ہے لہذا اردو ادب‘ بھی
ابھی جوانی کے مراحل میں ہے کہ ادب کی زندگی اگر ایک ڈیڑھ صدی پر محیط ہو تو
اسے بوڑھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ادب تو گویا ایسی حقیقت ہے جہاں لفظ ہمیشہ
جوان رہتے ہیں اور ان کی تروتازگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔
انگریزوں سے جو چند ایک اچھی چیزیں ہمیں ملیں ان میں ’ناول‘ بھی ہے کہ یہ
انگریزی ہی سے ہمارے ہاں آیا اور بہت جلد مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس کی وجہ
شاید یہ بھی ہوئی کہ اسے نذیر احمد اور عبدالحلیم شرر جیسے لوگ شروع ہی میں مل
گئے۔ شرر کا فردوس بریں تو ان کا شاہکار تسلیم کیاجاتا ہے۔ بعد ازاں منشی سجاد
حسین ۔ مرزا محمدہادی، پریم چند، عصمت چغتائی ، نسیم حجازی ، شوکت تھانوی، قرة
العین حیدر، عبداللہ حسین ، ممتاز مفتی،جمیلہ ہاشمی، شوکت صدیقی ، خدیجہ مستور،
الطاف فاطمہ ، بانو قدسیہ، بشریٰ رحمن اور بعض دیگر ناول نگاروں کے ناولوں کو
پذیرائی ملی۔ گزشتہ برس ”دروازہ کھلتا ہے“ کے نام سے ابدال بیلا کا ناول بھی
شائع ہوا۔ اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل ناول اپنے اسلوب کے حوالے سے اپنی شناخت
ضرور قائم کرے گا۔
اور اب سید ظہیر بدر کی” محبتیں ادھوری سی“ سے پڑھنے کو ملا ہے۔ جو بلاشبہ اردو
ادب اور بالخصوص ناول نگاری کی فہرست میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند زندہ
رہے گا۔”محبتیں ادھوری سی“ پڑھ کر قاری گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے کہ اسے نامکمل
محبتیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی یا کسی بھی یونیورسٹی سے ہو
کر نکلنے والے شخص کے لئے ”محبتیں ادھوری سی“ تو ”بیڈروم بک“ کی حیثیت اختیار
کرگیا ہے۔ کسی بھی ناول کی یہ خوبصورتی ہوتی ہے کہ اس کا پلاٹ ، کردار ، مکالمے
، منظر کشی ، جذبات نگاری اور اسلوب بیان قاری کواپنا گرویدہ بنالیں اور وہ
چاہتے ہوئے بھی اس کے سحر سے نہ نکل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ”محبتیں ادھوری سی“ کا
دل سے مطالعہ کرنے والا قاری اسے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالتا ہے۔
جناب محمد حمید شاہد اس کا دیباچہ ”چند ادھوری باتیں“ لکھتے ہوئے رقمطراز ہوتے
ہیں کہ ”یہ ادھوری محبتوں کی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی زندگی کے زوال
کا نوحہ بھی ہے۔ایسے اسلوب میں لکھا گیا نوحہ ، جس میں متعین مطالب کہیں بھی
سطروں سے بے وفائی نہیں کرتے۔ کردار اپنی اپنی الگ شباہت بناتے اور پوری قامت
پاتے ہیں۔ واقعات میں بہاﺅ ہے۔ یہ بولتے ہوئے ہیں اور ان میں کہیں اکھاڑ پچھاڑ
نہیں ہوتی۔زمانی ترتیب آخر تک اپنی متعین دھج پر رہتی ہے۔ ہماری زندگیوں میں
اندر تک دخیل ہونے والی محبت اور سیاست کو اس ناول میں بڑی ہوشیاری سے برتا گیا
ہے اسی تجزیاتی برتے پر مجھے اپنے اس یقین کا اظہار بھی کر لینے دیجئے کہ صاحب!
ظہیر بدر کے اس ناول کو بہت قاری میسر آئیں گے۔ “میں جناب حمید شاہد کی اس رائے
سے سو فیصدی متفق ہوں کہ سیدی ظہیر بدر مستقبل میں پڑھا جانے والا ناول نگار ہو
گا کہ ”محبتیں ادھوری سی“ کے تمام کردار وواقعات جیتے جاگتے ہیں اور یوں معلوم
ہوتا ہے جیسے ہمارے ارد گرد ہی کہیں موجود ہیں اور ہم بھی ان کرداروں کا حصہ
ہیں ۔ سیدی ظہیر بدر نے کردار نگاری کے تانے بانے بنتے ہوئے تمام مثبت یا منفی
کرداروں کو ’باکردار‘ انداز میں پیش کیا ہے۔ یوں کوئی ”لعنتی کردار“ ان کے ناول
میں گھسنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ایسے کرداروں کی انہوں نے بہرکیف نشاندہی
ضرور کی ہے۔
سچ پوچھئے تو ظہیر بدر کی محبتیں ادھوری سی ، سے بڑھ کر قاری کا جی چاہتا ہے کہ
’محبتیں ادھوری ہی‘ اچھی لگتی ہیں کہ جب محبت کی انتہا ہی کوئی نہیں تو پھر اسے
تکمیل کے لبادے میں اوڑھنے کی سعی بھی تو سعی لاحاصل ہی ہو گی۔ ظہیر بدر کے اس
ناول کی اشاعت سے اردو ادب میں ناول نگاری کو ایک نئی ترنگ نصیب ہو گی اور ناول
نگاری کا وہ سلسلہ جو بظاہر رکا رکا سا معلوم ہوتا ہے اک انوکھی جدت اور حدت کے
ساتھ سامنے آئے گا۔ یہ سیدی ظہیر بدر کا اسلوب بیان اور واقعات نگاری ہی تو ہے
جس کی وجہ سے قارئین ”محبتیں ادھوری سی“ کے حصہ دوم کا شدت سے انتظار کر رہے
ہیں۔ جناب احمد عقیل روبی ناول کے فلیپ میں لکھتے ہیں ”ظہیر بدر کہانی کہنے کے
فن سے واقف ہے۔ زبان و بیان پر اس کی گرفت مضبوط ہے۔ اسلوب سنجیدہ ہے۔ کرداروں
کی سائیکی جانتا ہے۔ واقعات کی بُنت ہنرمندی سے کرتا ہے۔ کسی سے متاثر نہیں۔ اس
نے اپنا راستہ خود تلاش کیا ہے۔ اعتماد سے چل رہا ہے۔ راستہ طے کر رہا ہے۔ نہ
تھکا ہے نہ سانس پھولی ہے۔ ایک اچھے اور کامیاب لکھاری کے لئے اور کیا خواص ہو
سکتے ہیں“۔ جناب احمد عقیل روبی کے ان تاثرات کے بعد بھلا سید ظہیر بدر کے بارے
میں اور کیا لکھا جا سکتا ہے۔ ”محبتیں ادھوری سی“ پڑھئے اور سر دھنیئے۔ وما
علینا الالبلاغ۔ |