حضرت حمزہ کی شھادت

“وحشی“ جو ایک حبشی غلام تھا اور اس کا آقا جبیر بن مطعم اس سے وعدہ کر چکا تھا تو اگر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کر دے تو میں تجھ کو آزاد کر دوں گا۔ وحشی ایک چٹان کے پیچھے ہوا تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تاک میں تھا جوں ہی آپ اس کے قریب پہنچے اس نے دور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا جو آپ کی پشت کے پار ہو گیا اس حال میں بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تلوار لے کر اس کی طرف بڑھے مگر زخم کی تاب نہ لاکر گر پڑے اور شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ ( بخاری باب قتل حمزہ ج2 ص582 )

کفار کے علمبردار خود کٹ کٹ کر گرتے چلے جا رہے تھے۔ مگر ان کا جھنڈا گرنے نہیں پاتا تھا ایک کے قتل ہونے کے بعد دوسرا اس جھنڈے کو اٹھا لیتا تھا۔ ان کافروں کے جوش خروش کا یہ عالم تھا کہ جب ایک کافر نے جس کا نام “صواب“ تھا مشرکین کا جھنڈا اٹھایا تو ایک مسلمان نے اس کو زور سے تلوار مار دی کہ اس کے دونوں ہاتھ کٹ کر زمین پر گر پڑے مگر اس نے اپنے قومی جھنڈے کو زمین پر گرنے نہیں دیا بلکہ جھنڈے کو اپنے سینے سے دبائے ہوئے زمین پر گر پڑا اسی حالت میں مسلمانوں نے اس کو قتل کر دیا۔ مگر وہ قتل ہوتے ہوتے یہی کہتا رہا کہ “میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔“ اس کے مرتے ہی ایک بہادر عورت جس کا نام “عمرہ“ تھا اس نے جھپٹ کر قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لیکر بلند کر دیا یہ منظر دیکھ کر قریش کو غیرت آئی اور ان کی بکھری ہوئی فوج سمٹ آئی اور ان کے اکھڑے ہوئے قدم پھر جم گئے۔ (مدارج جلد2 ص116 وغیرہ)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381773 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.