ہم نے اپنی مختصر سی زندگانی اور
اِس عمرِ فانی میں اب تک نہیں دیکھا کہ کسی حکومت نے کبھی وہ کام کیا ہو کہ
جواس کا کام ہے۔ پھر بھی ہر حکومت بنوانے کو ووٹ ڈالنے کی خاطر عام لوگ گھروں
سے نکالے جاتے ہیں اور یہ بھلے لوگ نکل بھی آتے ہیں۔ بعد حکومت بن جانے کے
ہمارے بھولے بھالے عوام خود بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ارے! یہ کیا چیز بن گئی
ہے؟ یہ وہ چیز تو نہیں بنی جو ہم بنانا چاہتے تھے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ انہیں
ہم پر حکمرانی کا اختیار کہاں سے ملا ہے‘ ان پر غیر حکمراں لوگ جب گرجتے برستے
ہیں کہ: ”یہ کیا کر رہے ہو؟ تمہیں تو ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں“۔ تو وہ اپنی
صفائی پیش کرنے کو عوام ہی کو ملزم ٹھہراتے ہیں کہ: ”عوام نے تو ہمیں چیف جسٹس
بحال کرنے کا فریضہ سونپا ہی نہیں۔ وہ تو ہمیں ”روٹی‘ کپڑا اور مکان“ کانعرہ
مارتے دیکھ کر مارے خوشی کے ووٹ دے بیٹھے ہیں“۔ اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ:
”چلو! اِن ’خوشی کے مارے ہوئے عوام‘ کو تُم روٹی‘ کپڑااور مکان ہی فراہم کردو“۔
تووہ کہتے ہیں کہ: ”زرِ مبادلہ صرف دو ہفتے کا رہ گیاہے۔ ہم ڈھائی ماہ میں
ٹٹروں ٹوں صرف چھہ غیر ملکی دورے کر پائے ہیں۔ قومی خزانے سے اُس حکومت ہی کا
خرچہ پانی پورا نہیں ہو پا رہا ہے‘ جو عوام نے بنا کر ہمارے سر ڈال دی ہے۔ خود
عوامی حکمرانوں کا خرچہ پانی پورا کرنے کے لیے مزید زرِ مبادلہ اور آئی ایم ایف
سے مزید قرضہ لینے کی ضرورت پڑگئی ہے۔ شکر کرو کہ آئی ایم ایف نے اتنی عزت دی
کہ قطار میں سب سے آگے کھڑا کیا۔ ورنہ وُزراء اور ارکانِ اسمبلی کا خرچہ پانی
بھی پورانہ ہو پاتا۔ تُمہیں عوام کے خرچے پانی کی پڑی ہوئی ہے“۔ اگر کوئی پوچھے
کہ حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں اور شاہانہ خرچوں کے عوض بھلا عوام کو کیا ملا؟
تو وہ یہ بھی نہیں کہہ پاتے کہ: ”روٹی پانچ سے دس روپئے کی‘ کپڑے کی قیمت قوتِ
خرید سے باہر اور مکان خریدنے یا بنانے کی لاگت خواب وخیال سے بھی پرے!“
........٭٭٭........ یہی عوام گوشہ حکمرانی یعنی ایوانِ صدر‘ ایوانِ وزیراعظم
یا وزراء کالونی کی طرف جا کر جب یہ پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ: ” بتا اے
ہماری بنائی ہوئی حکومت کہ ہم سب کے بچے ایدھی گھر میں بھلا کیسے سما سکیں گے
؟“ تو اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ اُن کو تو بس ووٹ دے کر موجودہ حکمرانوں کو اِس
گوشہ حکمرانی کے اندر بھیجنے اُنہیں تخت پر بٹھانے اور تاج پہنانے تک کا”حق“ تو
حاصل تھا۔ مگر بہ سبب” علاقہ سُرخ سلامتی“Red Security Zone
ہونے کے ‘ اُنہیں
اِس علاقے میں داخل ہونے کا حق قطعاً حاصل نہیں ہے۔ کیوں کہ اب اُن کے وجود سے
”نظم‘ضبط اور قانون خطرے میں ہے“۔نہ صرف حکمرانوں کی جان خطر ے میں ہے‘
بلکہ”پوری تہذیبِ موزون خطرے میں ہے“۔ لہٰذا وہ اپنے بچوں کو یہاں نہ لائیں‘
ایدھی گھر ہی لے جائیں۔ سو‘ایسی خطرناک جگہ کو دیکھ کر عوام پھر حیران ہوتے ہیں
کہ کیا حکومت کی یہ بستی ہم نے بسائی ہے؟ اگر ہم نے بسائی ہے تو تُف ہے ہم پر
کہ کیوں بسائی؟ ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا!....بلکہ ویرانہ بسایا ہوتا!
نتیجہ کے طور پر بعض گرم خون اور گرم جوش لوگ اِس بستی کو ویرانہ بنانے کی
ترکیبیں بھی سوچنے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ.... کاخِ اُمراء کے درو دیوار
ہِلا دو۔ کوئی کہتا ہے کہ صرف ہلاو نہیں.... گِرادو....مٹادو.... ٹھکانے لگادو....
ایوانوں کو‘آگ لگادو‘ آگ لگا دو
! ........ اِن نصیبوںپر جب عوام سے
لوگ یہ مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ:”اِس حکومت کو ہٹاؤ ‘گِراؤ‘ مِٹاؤ اور پھر سے
ایک نئی حکومت بناؤ“۔ تو عوام ایک بار پھر حیران ہوجاتے ہیں کہ پہلے ہی ہماری
بنائی ہوئی حکومت کب بنی ہے کہ اب بنے گی؟ جو بھی بنے گی وہ فقط ”فارن“ سے بنے
بنائے حکمرانوں ہی کی حکومت بنے گی۔ ہماے دِل جلے بچوں نے تو ایک ملّی ترانے تک
کو ‘ تحریف کر کے‘ حسبِ حالاتِ حاضرہ بنا ڈالا ہے کہ: یہ میرا پاکستان ہے‘ نہ
تیرا پاکستان ہے یہ اُس کا پاکستان ہے جو صدرِ پاکستان ہے جو صدرِ پاکستان ہے
اُس کی بابت اِس قسم کے عوامی جذبات جان کر جب کوئی حیران ہو کر اِن حکومتی
لوگوں سے پوچھتا ہے کہ: ”اے عزیزو! جو صدرِ پاکستان ہے‘ اُسے کس نے صدرِ
پاکستان بنا دیا؟“ تو در پردہ وارداتیں‘ این آر او کی گھاتیں اور لیلائے اقتدار
سے وصل کی اصل باتیں بتانے کی بجائے سیدھے اور سادہ لوح عوام پر تہمت دھر دی
جاتی ہے کہ:”عوام نے بنا دیا!“ کون نہیں جانتا کہ عوام تو بِچارے بس بنتے ہی
چلے آئے ہیں۔اُن کے بنائے سے تو اب تک یہاں کوئی بنا نہیں۔ بات عوام کی نہیں۔
بات اُس نظام کی ہے‘ جو حکومت بنانے کے نظام کی حیثیت سے ہم پر مسلط کر دیا گیا
ہے۔اِس نظام کی پشت پر ہمارے دین ومذہب‘ ہماری تہذیب وتمدن کی تو کوئی طاقت ہی
نہیں۔ نہ تقویٰ ہے نہ شُوریٰ۔ یہ ہمارانظام کیسے ہوا؟یہ ہمارے ہی ہاتھوں سے ہم
پر ”ہمارے دُشمنوں کے کارندے“ مسلط کروانے کا ایک نہایت کامیاب نظام ہے۔ اگر
اِس نظام سے چھٹکارا نہیں پایا‘ تو ہم سے ہمارا دین تو چھین ہی لیا گیا ہے۔ایک
ایک کر کے‘ ہمیں ہمارے رب کی طرف سے عطا کی جانے والی ہر نعمتِ دُنیا بھی چھین
لی جائے گی۔ سودی‘ یہودی نظام کی حکمرانی برقرار رہی تواے اہلِ پاکستان ایک روز
تُم ہر آئے گئے سے یہ کہتے پھرو گے کہ: ”اشیائے خوردنی کو میرا سلام کہنا |