اصل قصہ یہ ہے

خبرملی ہے کہ امریکا نے برصغیر جنوبی ایشیا کا نیا نقشہ تیار کرلیا ہے۔اِس نئے نقشے میں حصے بخرے صرف پاکستان کے کیے گئے ہیں۔ پاکستان امریکی حکام کے پے درپے بیانات کے مطابق دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اُس کا اتحادی اورتقریباً پچاس برس سے اُس کا دوست ہے۔ امریکا جس کا دوست ہوا پھر اُسے کسی دُشمن کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ ایک ہی ٹکٹ میں دونوں کے مزے لُوٹ لیتا ہے۔ سو ہمارے اتحادی دوست نے ہماری قوم سے یعنی ہماری قومی اسمبلی‘ ہمارے وزیرِ اعظم یا ہمارے صدر صاحب سے پوچھے بغیر ہی مجوزہ نقشے میں ہمارے ملک کے کچھ حصے بھارت کو بانٹ دیے ہیں اور کچھ حصے افغانستان کو۔ ممکن ہے کہ چند دِنوں میں ہر ایکسی لینسی امریکی سفیر کا یا کسی امریکی سپہ سالار کا یہ بیان بھی آجائے کہ پاکستان کے یہ حصے بخرے ہم نے پاکستان کی اِجازت سے بلکہ اُس کی درخواست پر کیے ہیں۔ رہے ہمارے صدر‘ ہمارے وزیرِ اعظم اور ہمارے وزیرِ خارجہ تو معاہدہ کے تحت اُنھیں یہ بیان دینے کی کھلی اجازت ہوگی کہ: ”ہم نے امریکا کو پاکستان کے حصے بخرے کرنے کی اجازت دی ہے نہ کبھی اِس کی اِجازت دیں گے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے بغیر اجازت ہی کر رہا ہے۔ مگراِس پر احتجاج کرنے یا یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں اُٹھانے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں۔ امریکا کا تو کام ہی اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے نقشے بگاڑنا ہے تاہم دفتر خارجہ کا کام تعلقات کو بگاڑنا نہیں بلکہ سنوارنا ہے“۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکا خواہ ہمارا نقشہ ہی کیوں نہ بگاڑ دے‘ ہمارا دفتر خارجہ اُس سے تعلقات ہی سنوارتا رہ جائے گا۔امریکی منصوبے ساز(بلکہ منصوبے باز) ہمارے سیاست دانوں اور ہمارے قومی رہنماؤں کے نزدیک ہمارے سیاسی رقیب نہیں شعری حبیب ہیں کہ: وہ جفا کرتے رہیں اورہم وفا کرتے رہیں اپنا اپنا فرض ہے‘ دونوں ادا کرتے رہیں ........٭٭٭........ اِس نئے نقشے کا آج کل ہمارے یہاں بڑاچرچا ہے۔ کچھ لوگ اس کے واقع ہو جانے پر اُسی طرح ایمان لے آئے ہیں جس طرح سچے مسلمان ”یوم الواقعہ“ کے واقع ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اہلِ ایمان اپنے اظہارِ ایمان کے طور پر تو اِسمٰعیل میرٹھی مرحوم کے یہ اشعار کبھی کبھی ضرورگنگنا لیتے ہیں کہ: تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا پیروں تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی اور سرپہ لاجوردی اِک سائباں بنایا مگر بعد حمد و نعت کے امریکا ہی کی تعریف میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں۔ اپنا قبلہ وکعبہ‘ ملجاوماویٰ‘ منجھی و پاوا‘سبھی کچھ امریکا کو گردانتے ہیں کہ وہی زمین ہے‘ وہی آسمان ہے‘ وہی فرش ہے اور وہی سائبان ہے۔وہی اوڑھنا ہے اور وہی بچھونا۔ وہ اپنے کاغذات پر دُنیا کا جیسا نقشہ بنائے گا‘ فرشِ زمین پر بھی ہو بہو ویسا ہی نقشہ بن جائے گا۔ اب سے پہلے جو حکمران تھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے۔ مگر اب وہ کہاں گئے؟ جنھیں امریکا پر اِس قدر ایمان تھا‘ اُن کا ایمان اُن کی کرسی بچانے میں کیوں کام نہ آیا؟ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو زمین و آسمان کا خالق ہے‘ در اصل وہی نقشے بناتااور وہی نقشے بگاڑتا ہے۔ جانتے تو ہوں گے پر مانتے نہیں‘ ان سے پہلے بھی ایسی قومیں ہو گزری ہیں جو نہیں مانتی تھیں۔ دیکھیے‘ کسے معلوم تھا کہ یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک کا نقشہ ایسا بگڑے گا کہ دُنیا کے نقشے پر اِس نام کے کسی ملک کا وجود تک نہیں رہے گا۔اور اس کے نتیجہ میں دُنیا کے نقشے پر نئے مسلم ممالک کے نقشوں کا اضافہ ہوجائے گا۔ اور کون جانتا ہے کہ یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کب تک ”یونائیٹڈ“ رہ سکے گا۔ اور کس روز موجودہ دُنیا کی اِس ”واحد سپر پاور“ کا اپنا نقشہ بگڑ جائے گا۔ بھلا کون جانتا ہے؟ ....٭٭٭........ نیا نقشہ بنانے والے سب کچھ سوچتے ہوں گے مگر یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ ہمارے سارے صوبہ سرحد اورہمارے صوبہ پنجاب کے کچھ حصے افغانستان میں جوڑ کر ”عظیم پختونستان“ بنا دیں اور ہمارے صوبہ بلوچستان کو ”عظیم تر بلوچستان“ کے نام سے آزاکرا دیں تب بھی کابل‘پشاور‘ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ڈیرہ غازی خان سوفیصد مُسلم اکثریت ہی پر مشتمل رہیں گے۔ کوئٹہ تا گوادر بھی آبادی انہی بنیاد پرست مسلمانوں کی رہے گی جو آج ہیں۔آزاد کشمیر کو بھارت کاحصہ بنا دینے سے کشمیری حریت پسندوں کی طاقت میں کمی نہیں اضافہ ہو جائے گا۔ وہ ایک پاکستان کو توڑنے کے خواہاں ہیں‘ مگر اپنی نقشے بازی کے ذریعہ سے ایک ہی خطے میں تین تین پاکستان بنا ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر فوجی طاقت‘ اسلحہ اور ڈالر ہی سب کچھ ہوتا تو یہ نقشے باز آج عراق سے بھاگنے کی فکر میں پریشان نہ ہوتے اور افغانستان میں پِٹ پِٹا کر طالبان سے ”چوردروازے سے مذاکرات“ کرنے کو سرگرداںنہ رہتے۔ دِنوں کا جو اُلٹ پھیر ہونا ہے‘ وہ ہو کر رہے گا۔ جس نئے سورج کے طلوع ہونے کا وقت آگیا ہے وہ ضرور طلوع ہوگا۔ بندوق ‘توپ‘ ایٹم بم اور ڈالر سے سورج کارستہ نہیں روکا جاسکتا۔ یہ تہذیبی تصادُم کی کہانیاں‘ یہ عالمی دہشت گردی کے قصے۔ سب مایا ہیں.... سب مایا ہیں! اصل قصہ یہ ہے کہ اب کفر کا تسلط رُو بہ زوال ہے۔عالمِ نَو جو ابھی تک پردہ تقدیر میں تھا اب اُس کی سحر بے حجاب ہونے والی ہے۔ چناں چہ مشرق کا جاں بخش سورج ‘ مغرب کے جاں بہ لب سورج کو واضح الفاظ میں یہ پیغام دے رہا ہے: وہ میں صاف کیوں نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں مَیں طلوع ہو رہا ہوں‘ تُو غروب ہونے والا
Nasar
About the Author: Nasar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.