میرا نام محبت

میرا نام محبت ہے میری عمر بہت ہی کم ہے ،آجکل ناجانے کیوں مُجھے لگ رہا ہے کہ میرا نام میرے ہی وجود میں کہیں گھُٹ کر مر گیا ہے اور یہ گُھٹن اتنی بڑھ چکی ہے کہ مُجھے سانس لینے میں مشکل پیش ا ٓ رہی ہے تاریخ کے اُوراق میرے تقدس کی قسم کھاتے نظر آتے ہیں میری وجہ سے بہت داستانیں بنیں مُجھے انمول اور امر بنانے کے لیے انسانوں نے بے شمار قربانیاں دیں اور اُ ن کی قربانیوں کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں چاہے میری حالت آج کتنی ہی بھیانک کیوں نہیں ہے مگر میں سانسیں لے رہی ہوں میرے اندر ایک ایسا آتش فشاں بن رہا ہے کہ مُجھے لگتا ہے کہیں اُس میں سے نکلنے والا لاوا میرے وجود کو ختم نہ کر دے میری صباحت آج خوفناک ناگن بن چکی ہے مُجھے لگ رہا ہے جو انسان میرے لیے دیوانہ ہوتا تھا میر ی خاطر کیا کچھ نہیں کر جا تا تھا آج وہ مُجھ سے دور بھاگ رہا ہے میری باتیں ضرور کرتا ہے مگر صرف مثالیں بیان کرنے کے لیے صرف لفظوں کی حد تک مگر اُس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اور تو اور آجکل تو میری صدیوں سے چلی آرہی دشمن نفرت سے دوستی بھی کر لی ہے دیکھیں آپ خود ہی فیصلہ کریں ایسی منافقت اور تضاد آخر کیوں ؟جبکہ انسان کی شروع سے دوستی تو میرے ساتھ رہی ہے ہمیشہ ہر دور میں انسان کو جیت کا تمغہ میں نے ہی لے کر دیا ہے مگر آج انسان مُجھے دھوکہ دے رہا ہے اور مُجھ سے بے وفائی کا مرتکب ہو رہا ہے-

آج کل انسان میرے نام پر بہت بھیانک کھیل کھیل رہا ہے میں نے آخر انسان کا کیا بگاڑا ہے صرف یہی کہ میں نے انسان کو اپنا وجود دیا تھا اور اپنی صباحت اپنی دلکشی اپنی خوبصورتی تک سونپ دی تھی تا کہ انسان انسان بن کر رہے اور سب سے مل جل کر رہے مگر نہیں میں تو بھول گئی تھی کہ انسان تو بہت جلد باز اور دھوکہ باز ہے انسان کی فطرت میں ہی ہوس لکھی ہوئی ہے اُسے میری دولت کی ضرورت نہیں اُسے تو صرف کاغذی ٹکڑوں کی ضرورت ہے جس سے وہ صرف خریدتا ہے اور خود کو بیچتا ہے مگر کبھی کسی کو اپنا نہیں بنا سکتا کیونکہ جب تک انسان نے میری دولت کا استعمال کیا وہ ہمیشہ پُرمسرت رہا اور پرُسکون رہا اور میری دولت کو اپنانے کی وجہ سے وہ خود انمول ہو گیا مگر اب شاید معاشرہ بدل چکا ہے اب میرا نام ہے تو سہی مگر اُس کے معنی بدل گئے ہیں اب میرے نام پر لوگ ہنستے ہیں اور قہقہے لگاتے ہیں آج میرے معنی صرف بناوٹی ہیں میں بناوٹ کا کاروبار بن چکی ہوں میرا نام صرف اپنا مطلب نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہاہے مُجھے اتنا چھیدا گیا ہے کہ میرے زخم اب صدیوں تک نہ بھر سکیں انسان سمجھتا تھا شاید وہ میری ذات سے کھیلتا رہے گا اور میں چُپ رہوں گئی مگر اب میں خاموش نہیں رہوگئی بہت ظلم ہو چکا بہت زیادتی ہو چکی مگر برداشت کی ایک حد ہوتی ہے آخر انسان اتنا احسان فراموش کیوں ہے چلیں وہ میرے لیے کچھ کر نہیں سکتا تو مُجھ پر ظلم بھی نہ کرے ، میرے نام پر جھوٹ کے کھیل کھیلنا بند کرے میرے نام پر دھوکہ دینا بند کرے ،میرے انسان سے چند مُطالبات ہیں اور وہ بھی بہت عاجزی سے ہیں بہت ہی انکساری سے کیونکہ مُجھے پتا ہے اب انسان کو بہت گھُمنڈ ہے دولت کا ،اختیارات کا ،بادشاہت کا اس وجہ سے میں انسان مُجھ سے دور ہو گیا ہے خیر تو میرے مطالبات یہ تھے کہ خدارا مُجھے میرا کھویا ہوا مقام واپس دلوا دو ۔میری لوٹی گئی چاشنی پھر سے مُجھے لٹا دو میرے وجود کے آتش فشاں پر مرہم رکھنے کے لیے میرے نام کا بے جا استعمال مت کرومیری طمانیت کے لیے میری بوجھل سانسوں کو پھر سے تازگی بخش دو ۔اگر انسان پر میں نے احسانات کیے ہیں تو میں ماضی کے انسانوں کی مقروض بھی تو ہوں اس وجہ سے میں چاہتی ہوں کہ میرا رشتہ انسانوں سے نہ ٹوٹے میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ ہر معاملے میں مُجھے لے آﺅ میں تو امن کی نوید لے کر آتی ہوں پھر مُجھ سے ڈرکاہے کو؟

دیکھوں میری عمر بہت کم ہے میں کسی لمبے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتی اس وجہ سے خدا کے لیے مُجھے دُکھ مت دو ۔میرے ہو کر رہوں اور میں یقین دلاتی ہوں میں کسی کا نقصان نہیں چاہنے والی اور نہ ہی آج تک میں نے کسی کا نقصان کیا ہے میں تو انسان جو اﷲ کی خوبصورت تخلیق ہے صرف اُسے موتیوں میں پرونا چاہتی ہوں مُجھے انسان سے بے پناہ پیار ہے مگر انسان نے جو میری دُشمن نفرت سے دوستی کر رکھی ہے وہ مُجھے تڑپاتی رہتی ہے کیونکہ انسان مُجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ نفرت کتنی خطرناک اور چالاک بلا ہے وہ جب پھیلتی ہے تو پھر پھیلتی ہے جاتی ہے وہ انسان کو انسان کا دُشمن بنانے والی ہے اور ایک دوسرے کو جُدا کرنے والی ہے میں اگر اُس کی دُشمن بنی ہوں تو صرف ا نسان کے لیے ورنہ میری تو اُس سے کوئی لڑائی نہ تھی انسان کے پاس بہت علم ہے علم کا خزانہ ہے مگر پھر بھی نہ جانے کیوں وہ اتنا با علم ہونے کے باوجود بھی نفرت سے کیوں دوستی کر لیتا ہے ۔کہیں انسان اپنے علم کا کہیں خون تو نہیں کر رہااگر ایسا ہے تو پھر بہت ہی بُری بات ہے انسان ہر ایک اچھی چیز کا خون کرنے پر کیوں تُلا ہوا ہے اب انسان کو سمجھ جانا چاہےے کیونکہ اب میں نے بار بار سمجھانے نہیں آنا-

خیر میری انسان محبت اس قدر شدید ہے اور اس وجہ سے آج میں انسان کو اپنا خون بھی معاف کرتی ہو ں جو وہ میرا ہمیشہ بہاتا رہا ہے ۔اے انسان تو سدا خوش رہے (آمین)
BabarNayab
About the Author: BabarNayab Read More Articles by BabarNayab: 26 Articles with 24390 views Babar Nayab cell no +9203007584427...My aim therefore is to develop this approach to life and to share it with others through everything I do. In term.. View More