لِکھے کوئی، پَھنسے کوئی!

پاکستان سے روزانہ ہزاروں یا لاکھوں خطوط امریکہ سمیت کئی ممالک میں جاتے ہوں گے مگر اسلام آباد سے ایک خط امریکہ کیا پہنچا، ہر طرف ایسا غلغلہ ہے جیسے قیامت برپا ہوگئی ہے! ہم حیران ہیں کہ کاغذ کا ایک پُرزہ کیونکر چلتا پُرزہ بن بیٹھا۔ خط کو آدھی مُلاقات سمجھا جاتا ہے، مگر اِس ناہنجار میمو نے تو پوری مُلاقاتوں کا اہتمام کر ڈالا ہے! کئی ایک بے چارے تو اپنے منطقی انجام سے مُلاقات کی منزل تک پہنچ گئے ہیں! میڈیا اور سیاسی منچلے بھی کیا سِتم ظریف ہیں، اِس خط سے حِظ اُٹھانے پر تُلے ہیں!

خطوط کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف نوعیت کے خطوط ہر دور میں مُشکلات پیدا کرتے رہے ہیں۔ جب کبھی حکمرانوں کے ذہن کی اسکرین پر ”سب اچھا ہے“ کی پَٹّی چل رہی ہوتی ہے، اچانک ”بریک“ آ جاتا ہے اور کوئی نہ کوئی خط رولا پا دیتا ہے!

اردو شاعری جسمانی (زیادہ) اور کاغذی (کم) خُطوط کے ذِکر سے بھری پڑی ہے۔ غالب نے کہا تھا
غیر پھرتا ہے لیے یوں تِرے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چُھپائے نہ بنے!
داغ دہلوی نے شِکوہ کیا تھا
تمہارے خط میں نیا اِک سلام کِس کا تھا؟
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کِس کا تھا؟

خط کا مَعاملہ ایسا ہے جیسے کِسی غبارے میں ہوا بھرنے کے بعد منہ بند کئے بغیر اُسے چھوڑ دیا جائے! اگر خط محبوب تک پہنچے تو مصیبت، نہ پہنچے تو مصیبت۔ کبھی کبھی قاصد کی راہ تکتے تکتے آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خط پانے کے بعد دِل یہ سوچ کر کڑھتا رہتا ہے کہ قاصد راستے ہی میں ”قیں“ ہو جاتا تو کیا بُرا تھا! محبت کی خوشبو میں بسے بعض خطوط ایسے ہوتے ہیں کہ رقیب کے ہَتّھے چڑھیں تو قیامت آ جائے، اور اگر مکتوب الیہ کے باپ کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ ہاتھ خط لِکھنے والی گردن پر پہنچنے میں ذرا دیر نہ لگائے!

حکومت کی ناک کا بال بنے ہوئے بُہتوں کو بظاہر خط بنانے کی فُرصت نہیں تھی اِس لیے مُشیروں میں سے کسی نے شاہکار مشورہ دیا اور ایسا خط امریکہ بھجوایا جس نے اعلیٰ ترین سطح پر بیٹھے ہوئے کئی بزرجمہروں کا خط تقریبا! بنا ہی ڈالا ہے!
کسی نے کیا خوب کہا ہے
خط کے پُرزے ہیں دستِ قاصد میں
ایک کیا، سو جواب لایا ہے!

مگر صاحب! یہ خط جواب تو کیا لاتا، لاجواب حرکتیں کرنے والی کئی شخصیات کو لاجواب کر گیا ہے اور ایک سالم حکومت کو پُرزے پُرزے کرنے پر تُلا ہوا ہے!

حال ہی میں سُبک دوش ہونے والے امریکی مسلح افواج کے سربراہ ایڈمرل مائک مولن کو لکھا جانے والا ایک خط پاکستان کی سیاست کو ”خط خط“ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک ایڈمرل کو لکھا جانے والا خط سمندری طوفان کی سی کیفیت ہی پیدا کرسکتا ہے! اگر بَرّی فوج کے سربراہ کو لِکھا گیا ہوتا تو شاید اب تک قبر (یا قبریں) کھود بھی چکا ہوتا!

ایک خط نے ایسا ہنگامہ برپا کیا ہے کہ دُنیا حیران ہے۔ اِس خط میں ایسا کیا تھا کہ اِس قدر شور مچایا جارہا ہے؟ کِسی نے اپنی مجبوریاں ہی تو بیان کی تھیں، اپنی کُرسی بچانے کی اپنی سی کوشش ہی تو کی تھی۔ اِس میں کسی کو اِس قدر سیخ پا کیوں ہونا چاہیے؟ کون ہے جو اپنے مفادات کے دفاع کے لیے بھرپور کوشش نہیں کرتا؟ اور ایسی کوشش کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ واحد سُپر پاور سے استدعا ہی تو کی گئی تھی کہ ”بھائی صاحب! ذرا فوج کو قابو کرو تاکہ ہم سُکون کی نیند سوسکیں!“

واحد سُپر پاور کی حاشیہ برداری کا فرض برسوں ادا کرنے کے صِلے میں کِسی کو امریکہ میں سفیر کا درجہ ملا تو حاسدین لنگوٹ کس کر میدان میں نکل آئے۔ یہی تو ہمارے ملک کا المیہ ہے، کوئی کِسی اور کو کھاتا پیتا نہیں دیکھ سکتا۔ کِسی غریب نے غیر سرکاری تنظیموں اور غور و فکر کے تالابوں میں غوطے لگاکر تھوڑی سی ”عزت“ کمائی تو لوگ اُس کی ”بیزتی“ خراب کرنے پر کمر بستہ ہوگئے! یہی سوچ تو ہمیں عالمی برادری میں کوئی ڈھنگ کا مقام حاصل کرنے کے قابل نہیں ہونے دیتی!

ایوان صدر کو ایک خط نے پھر خبروں میں in کردیا ہے۔ ویسے سچّی بات ہے، ایوان صدر خبروں میں in کب نہ تھا؟ ”جمہوریت“ کو کسی نہ کسی طور ”بچانے“ کی ذمہ داری ایوان صدر کے ناتواں کاندھوں پر تین سال سے ہے۔ اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے خدا جانے کیا کیا جتن کئے جاتے رہے ہیں۔ عملیات کے ماہرین سے مشاورت بھی کی جاتی رہی ہے۔ سُنا ہے کبھی کبھی حکومت کو بچانے کے لیے کسی کہنہ مشق بنگالی عامل بابا سے اُلّو کا عمل بھی کرانا پڑتا ہے! ہمارے ہاں حکومت جس انداز سے چل رہی یا چلائی جارہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے تو شاید کئی اُلّوؤں کا جھٹکا کرنا پڑے گا! ضیائ جالندھری نے کیا خوب کہا ہے
شِدّت کی محبت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے!

جو گدھا حالات اور واقعات کے دام میں پھنس جائے اُسے قربانی کا بکرا بنا دینا بھی اقتدار کے ایوانوں میں مستحسن سمجھا جاتا ہے مگر یہ کافی نہیں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ سِتاروں کی چال دیکھ کر جو کچھ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ایوان صدر میں وہ سب کچھ پورے اہتمام سے کیا جاتا ہے۔ ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب کبھی کوئی بابا ایوان صدر کو خالی رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تو اُس ایوان کی واحد رونق سمندر کے کنارے آ بستی ہے۔ جب اور کچھ نہ بن پائے تو بے چارے بکروں کی شامت آ جاتی ہے۔ مہینوں یہ بھی ہوا کہ روزانہ ایک بکرا ذبح کرکے ملک کی سب سے باوقعت جمہوری کرسی بچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اب شاید پھر اُسی عمل کو دُہرانے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ دیسی گھاس پھوس اور چارے سے پیٹ کی آگ بجھانے والے بکروں کی قربانی شاید کم پڑ رہی تھی اِس لیے اب امریکہ میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والا بکرا قربان کردیا گیا ہے۔

ایک خط کو آگے بڑھانے کی پاداش میں بے چارے حسین حقانی چوہے دان میں گردن دے بیٹھے۔ معاملہ واشنگٹن سے اسلام آباد ہوتا ہوا اب راولپنڈی میں جا اٹکا ہے۔ جمہوریت کے صدر مقام سے فوج کے صدر مقام تک اچھا خاصا ملبہ دیکھا جاسکتا ہے۔ گھوم پھر کر صرف یہ سوچا گیا کہ واحد سُپر پاور کے قلب میں ایلچی بن بیٹھنے والے کی قربانی دے دی جائے۔ ٹھیک ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ اِس بار قربانی کے بکرے کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اُس کا ذبیحہ نہیں، جھٹکا کیا جانے والا ہے! قوم کو جھٹکا دینے والے خط کو مکتوب الیہ تک پہنچانے والا بکرا جھٹکے سے بچنے کی تگ و دَو میں مصروف دکھائی تو دیا مگر بچ نہیں پایا۔

حسین حقانی ابتداءہی متنازع رہے ہیں۔ اُن کا لہجہ امریکہ سے وفاداری کی سَند رہا ہے۔ اب اگر وہ دودھ سے دُھل کر بھی سامنے آ جائیں تو کوئی اُن کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ خط لِکھنے کے نہیں، صرف پہنچانے کے مرتکب ہوئے ہیں مگر پہلے مرحلے میں اُنہی کو جانا پڑا ہے۔ اور جس نے خط لکھا ہے وہ اگر نہ جاسکا تو بہت کچھ چلا جائے گا۔ سوال صرف پیپلز پارٹی کی حکومت کا نہیں، خود پیپلز پارٹی کے مستقبل کا ہے۔ اگر پارٹی نے حقیقی مجرم کو قوم کے سامنے پیش نہ کیا تو خود کو داؤ پر لگا بیٹھے گی۔ سیاست ملک کے اُمور عُمدگی اور دیانت سے چلانے کا دوسرا نام ہے۔ سیاست کو جُوئے کی طرح برتنے کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔

اقتدار سانپ سیڑھی کا کھیل ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ محض ایک خانہ چل کر سیڑھی کے ذریعے کوئی بلندی کو چُھو لیتا ہے اور پھر اگلے ہی خانے میں قدم رکھنے پر سانپ ساری بلندی ہڑپ کر جاتا ہے۔ واشنگٹن میں امریکہ کی ناک کے نیچے قائم ”حقانی نیٹ ورک“ کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہوا ہے۔ سب کچھ اچانک بدل گیا ہے، جیسے فلم میں اچانک سین بدلتا ہے۔ رات کا منظر سیکنڈ کے پچاسویں حصے میں غائب ہو جاتا ہے اور سُورج سر پر آگ برساتا دکھائی دیتا ہے۔ حسین حقانی کے لیے ٹھنڈک ختم ہوئی اور تمازت کا دور شروع ہوگیا۔

چشم فلک نے ایسے تماشے کئی بار دیکھے ہیں کہ کسی کو ناپسندیدہ اعمال کی سزا نہیں مل پاتی۔ دُنیا سمجھتی ہے کہ نصیب بلندی پر ہے۔ مگر پھر کسی ناکردہ جرم یا گناہ کی پاداش میں جو کچھ بھگتنا پڑتا ہے وہ اگلی پچھلی ساری کسر پوری کردیتا ہے! بس ایسا ہی کچھ اِس خط کے معاملے میں بھی ہوا ہے۔
اِسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524624 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More