میانہ روی آدھی خوش حالی ہے


گذشتہ چند سالوں میں مہنگا ئی کا گراف جتنی تیزی سے اوپر گیا ہے۔تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی،اگر چہ کرپشن اور ناانصافی اس کی ایک بیرونی وجہ ہے مگر کچھ اندرونی وجوہات بھی ہیں۔افراط و تفریط یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں ہر فرد اپنی بساط کے مطابق مبتلا نظر آتا ہے۔گلیمر اور میڈیا کی چکا چوند دنیا نے ہر شخص کو ھل من مزید۔۔۔اور بہتر سے بہتر آسائشات کی قطار میں لا کھڑا کیا ہے کہتے ہیں معاشروں کو بگاڑنے اور سنوارنے میں دو چیزیں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں زرائع ابلاغ اور خواتین،زرائع ابلاغ اشتہار دکھا دکھا کر لوگوں کی اشتہا بڑھا رہے ہیں اور خاتون خانہ گھر کا بجٹ۔۔۔۔

افراط اور تفر یط کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ،لوگ غربت اور مہنگائی سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف فیشن اور خوبصورت نظر آنے کی خواہش میں ہلکان ہوتیں خواتین۔۔۔۔رنگا رنگ ملبوسات،میچنگ جیولری،پرآسائش گھر،یہ سب زندگی کا مقصد بن کر رہ گیا،وہ خاتون خانہ جس کی گھٹی میں تھا جتنی چادر اتنا پاﺅں پھیلاﺅ۔۔وہ سب اکارت،کفایت شعاری،صبرو شکرجیسی بیش قیمت صفات اب کتابوں میں باقی رہ گئی،سرمایہ درانہ نظام کی بدولت دنیا کی ہر انڈسٹری زوال پزیر ہو رہی ہے مگربیوٹی انڈسٹری وہ واحد انڈسٹری ہے جو روزافزوں ترقی کی طرف گامزن ہے،اور یہ اعزاز خواتین کو جاتا ہے،گلی محلوں میں قائم بیوٹی پارلراس کا واضح ثبوت ہے،چند دن پہلے میں نے ایک باٹا کے دوکان دار سے پوچھا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے،یقینا آپ کی دوکان داری بھی متاثر ہوئی ہوئی ہو گی،مگر اس کا جواب اس کے برعکس تھا۔

یہ دو انتہائیں ہیں جس پر اس وقت ہمارا معاشرہ کھڑا نظر آتا ہے۔۔۔۔کہتے ہیں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جس کا حل نہ ہو،بلکہ مسئلے ہوتے ہی حل ہونے کے لئیے ہیں،سب سے بہتر اور رہنما اصول وہ ہیں،جو اللہ رب ا لعزت نے ہمیں عطا کئیے ہیں اسلام نے معشیت کے سلسلے میں دو رہنما اصول دئیے ہیں۔جس پر فرد سے لیکر معاشرہ اوملکی نتظام و انتصرام کی بنیادیں ہیں شریعت نے انسان کو پابند کیا ہے۔کہ وہ کمانے اور خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لے،یعنی جتنا چاہو کماﺅ،اور جو زریعہ آمدنی چاہے اختیار کرو،لیکن شرط یہ ہے کہ حلال روزی کماﺅ،دوسرا ہے خرچ کرنا،اب جو پیسہ حلال طریقہ سے کمایا ہے۔اس کو اڑانا نہیں ہے۔ہر جائز اور نا جائز جگہ پر بلکہ اعتدال سے خرچ کرنا ہے،خرچ میں اعتدال کا مطلب ہے کہ نہ اسراف ہو،نہ تبذیر ہو اور نہ ہی بخل ہو،اسراف یہ ہے کہ زائد خرچ کیا جائے،جبکہ تبذیر یہ ہے کہ نامناسب اور ناجائز کاموں میں مال خرچ کیا جائے۔قرآن و حدیث میں ان تینوں انتہاؤں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔یہاں تک کہ تبذیر کروانے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے ا لاقتصاد فی نفقتہ نصف المعیشتہ

اخراجات میں اعتدال آدھی معیشت ہے

،اخراجات میں اعتدال آدھی معیشت ہے، یہ بنیادی گر ہے جو شریعت نے انسان کو بتایا ہے۔ہماری زندگی میں محاوروں کو وہی اہمیت حاصل ہے۔جو کھانے میں نمک کو۔۔۔
جتنی چادر ہو اتنا ہی پاﺅں پھیلانا چاہیے،،
گھر کی مرغی دال برابر،،
،،اور امرت بھی اگر زیادہ پیا جائے تو زہر بن جاتا ہے،،باا لخصوص قوم کی امانت و وسائل اگر ان کو تفویض نہ کئے جائیں اور اپنے پیٹوں میں ہڑپ کر لئے جائیں۔۔۔۔تو یہ امرت زہر بن جاتا ہے،، حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ سے سنا کہ ہر امّت کے لئے فتنہ اور آزمائش ہے،چناچہ میری امت کے لئے جو فتنہ ہے وہ مال و دولت ہے،، ایک تفصیلی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا ہے،،میرے بعد ایسی قوم آئے گی،جو دنیا کی عمدہ تر اور رنگا رنگ نعمتین کھائے گی،ناز سے چلنے والے رنگا رنگ گھوڑوں میں سواری کرے گی،اور خوبصورت کپڑے پہنے گی،ان کے پیٹ تھوڑچیز سے سیر نہیں ہوں گے،اللہ کو چھوڑ کر مالودولت کو خدا بنا لیں گے،، ایک موقع پر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ کی امّت میں سب سے زیادہ برا کون ہے؟فرمایا،،مال دار،،، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مال و دولت کے سلسلے میں جو چیز مزموم ہے وہ مال و دولت کی محبت اور دنیاداری میں مبتلا ہونا اور اپنی چادر سے باہر پاﺅں پھیلانا ہے۔یہ خصلت انسان کو مال کا بندہ بنا دیتی ہے،کہ اس کی ہر سعی اور جدوجہد کا مرکز صرف اور صرف مال بن جاتا ہے۔مال کوئی بری چیز نہیں کسی کے پاس حلال طریقے سے کمایا ہوا کتنا ہی مال کیوں نہ ہو اگر مال محبت میں گرفتار نہیں تو اس کو برا کہنا درست نہیں۔
Robina Shaheen
About the Author: Robina Shaheen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.