دورِ حاضر میں غربت و افلاس فرد
یا خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔۔۔غربت سے مراد ایک فرد یا
خاندان کا ایسی حالت میں زندگی بسر کرنا ہے جس میں اس کا معیارِ زندگی باقی
تمام لوگوں کے معیارِ زندگی سے کم ہو اور وہ زندگی گزارنے کی بنیادی
سہولتوں سے محروم ہو۔ایک فرد ، معاشرہ ، قوم یا ملک اگر غربت جیسے سنگین
مسئلے سے دوچار ہو جائے تو وہ دوسروں کا ہی دستِ نگر رہتا ہے ۔اور وہ اپنی
زندگی یوں جبرِ مسلسل کی طرح کسی نہ کردہ جرم کی پاداش میں کاٹتا ہے ۔یہ
ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی وجہ سے ایک غریب ملک ہمیشہ بڑی طاقتوں کے
اشاروں کا منتظر رہتا ہے کہ اب اُدھر سے کون سا حکم ملنے والا ہے جس کی بجا
آوری کرنی ہے ۔جس کے آگے ہاتھ میں کشکول لے کر بھیک مانگی جاتی ہے تو پھر
اُس کے آگے سرِ تسلیم خم بھی کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ بھیک چھِن جانے کا
خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ غربت تمام مسائل کی جڑ ہے جوبے روزگاری اور دولت
کی غیر مساویانہ تقسیم سے معرضِ وجود میں آتی ہے ۔جب پیٹ میں مارے بھوک کے
چوہے دوڑ رہے ہوں ۔۔۔ سر چھپانے کو چھت نہ ہو سردیوں کی یخ بستہ راتیں
آسمان کی نیلی چھت تلے فُٹ پاتھ پر ٹھٹھر ٹھٹر کر گزارنی پڑیں ۔۔۔ جب پیرہن
تار تار ہو کر جسم کو چھپانے میں ناکام رہے ۔۔۔ اور باپ کے سامنے اُس کے
معصوم بچے بھوک سے بلک بلک کر جان دے رہے ہوں ۔۔۔ امیر کے کتّے بھی دودھ
پیئیں اور انسان کے بچے کو کچرے کے ڈھیر سے کھانے کو تلاش کرنا پڑے ۔۔۔۔ تو
۔۔۔ تو ایسے میں ایک مجبور باپ چور نہیں بنے گا ۔۔۔ ڈاکو نہیں بنے گا ۔۔۔
لُٹیرا نہیں بنے گا تو اور اُس سے کیا بننے کی توقع کر سکتے ہیں اُس وقت
اُسے تو اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے لئے قتل و غارت گری جیسے بھیانک جرائم
بھی کرنے پڑیں تو دریغ نہیں کرے گا ۔۔۔۔ ایسے ہی روح فرسا حالات میں بد
امنی اور قوانین سے انحراف جیسے جرائم جنم لیتے ہیں ۔نظم و ضبط کا خاتمہ
ہوتا ہے ۔۔۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں میں نظم و ضبط کا فقدان ہو
جاتاہے تو اُن کا نام و نشان صفحہءہستی سے مٹ جایا کرتاہے ۔ قومیں نظم و
ضبط سے ہی مضبو ط و طاقتور بنا کرتی ہیں ۔جو قومیں غربت کا شکار ہوتی ہیں
انہوں نے دوسروں کا سہارا تو کیا بننا ہے خود کو سہارا دینے کے قابل بھی
نہیں رہتیں ۔یہ دورِ حاضر کا ایسا مسئلہ ہے جو قومی حدود سے تجاوز کرکے
عالمی شکل اختیار کر گیا ہے ۔اس کی وجہ سے جرائم میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا
جا رہا ہے ۔گداگری ، جس کی اسلام نے پر زور مذمّت کی ہے ،دن بدن اس کی طرف
بڑی سرعت سے رجحان بڑھ رہا ہے ۔بلکہ گداگری تو ایک پیشے کی حیثیت اختیار کر
گیا ہے ۔۔۔
ایک وکیل بھیک مانگتا پکڑا گیا جب اس سے بھیک مانگنے کی وجہ پوچھی گئی تو
اس نے بتایا ”میں وکالت جیسے با عزّت پیشے سے منسلک تھا مگر میں اتنا بھی
نہیں کما سکتا تھا کہ گھر کا خرچ چلا سکوں ۔ایک دِن پریشان حال فُٹ پاتھ پر
بیٹھ گیا کہ گھر کس منہ سے جاؤں ۔لوگ سمجھے کہ بھکاری ہے ۔انہوں نے خیرات
دینا شروع کر دی ۔جب میں وہاں سے گھر جانے لگا تو میرے پاس اتنے پیسے تھے
کہ کھانے کا بندوبست کر سکوں ۔ شرم سے سر جھُکا ہوا تھا مگر پیٹ کی آگ
بجھانے کے لئے جیب میں پیسے تھے ۔۔۔ دوسرے دن اسی شش و پنج میں تھا کہ کیا
کروں ۔۔۔ دِل منع کرتا تو دماغ کہتا ، بس ایک دن اور ۔۔۔ پھر میں وہاں جا
کر بیٹھ گیا۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔۔۔ اور ۔۔۔ میں نے سوچا کہ بنا کچھ کئے
مل جاتا ہے تو سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے ۔شروع میں کچھ دن ندامت محسوس
ہوئی ۔۔۔ آج میرے پاس سب کچھ ہے ۔گھر بھی اپنا ہے ۔ “
جب لوگوں کو محنت کا صلہ نہیں ملے گا ۔۔۔ ملازمتیں نہیں ملیں گی ۔۔۔ بے
روزگاری کا خاتمہ نہیں ہو گا ۔۔۔ تو غربت میں اضافہ تو ہو گا ۔۔۔ اور تب
پڑھے لکھے لوگ بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔۔۔ اگر ہم چاہتے ہیں
کہ ملک سے برائیاں ختم ہوں تو غربت کو ختم کرنا ہو گا ۔اس کے لئے صنعتوں کو
فروغ دینا چاہیے تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو ۔تعلیم کو فروغ دیا جائے ۔۔۔
گھریلو صنعت کاری کی جائے ۔۔۔ محنت و مشقت کی ترغیب دی جائے ۔۔۔ ایسے
تربیتی مراکز زیادہ سے زیادہ قائم کئے جائیں جن میں فنّی تعلیم دی جائے ۔۔۔
فضول خرچی کو روکا جائے ۔۔۔ زراعت کو فروغ دیا جائے ۔۔۔ غریب کسانوں کی
مالی اعانت کی جائے ۔۔۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے ۔کاشتکاری جدید طریقے سے کی
جائے ۔۔۔ایسی تمام رسومات کا خاتمہ کیا جائے جو اسلام کے بھی منافی ہیں اور
ان پر روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ، تاکہ یہی روپیہ مستحق لوگوں کے
کام آئے ۔۔۔ معزوروں کے لئے فنڈز قائم کئے جائیں اور ان کو مستحق لوگوں تک
پہنچانے کا بھی بندوبست کیا جائے ۔۔۔مزدور کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ
دیا جائے ۔۔۔ آخر میں اﷲ سے دعا ہے کہ جلد سے جلد غربت کی لعنت کا خاتمہ ہو
جائے ۔۔۔ آمین ۔ |