دُنبہ ، امریکہ اور سردار جی....!

امام جلال الدین رومی ؒ لکھتے ہیں کہ ایک شخص کے پاس ایک دُنبہ تھا وہ اُسے رسی سے کھینچ کر لے جارہا تھا کہ راستے میں ایک چور نے رسی کاٹ لی اور دُنبہ لے اُڑا۔ یہ شخص چور کی تلاش میں نکلا اور ایک کنویں پر اُسے جا لیا۔وہ کنویں پر کھڑا ہو کر فریاد کر رہا تھا ۔ دُنبے کے مالک نے وجہ دریافت کی کہ وہ کیوں رو رہا ہے؟ اُس نے کہا کہ اُس کی ایک تھیلی جس میں پانچ سو درہم تھے کنویں میں گر گئی ہے۔اگر تم کنویں میں اُتر سکتے ہو تو تھیلی نکال لاﺅ اور اس کا پانچواں حصہ انعام کے طور پر رکھ لو۔ دُنبے کے مالک نے کہا کہ یہ بہت بہتر ہے کہ وہ یکدم ایک سو درہم کا مالک بن جائے گا اور پھر دُنبے کی جگہ اُونٹ خرید سکے گا۔ اُس نے کپڑے اور جوتے اُس شخص کے حوالے کئے اور خود کنویں میں اُتر گیا۔ وہاں نہ تھیلی تھی نہ درہم خوب تلاش کیا مگر کچھ نہ ملا۔چور اُس شخص کا دُنبہ، کپڑے اور جوتے لے کر چلا گیا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت آج پاکستان کی ہے۔ ہمارے آقا امریکہ بہادر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کنویں میں پاکستان کو لالچ دے کر اُتار دیا اور اب پاکستان کے دنبے کے ہمراہ جوتے اور کپڑے بھی امریکہ کے پاس ہیں۔ طالبان اور القاعدہ کو بدترین دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ایک مصنوعی ہوّا کھڑا کیا اور پوری دنیا میں اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا کہ یہ لوگ پوری دنیا کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور ان کی بیخ کنی بہت ضروری ہے۔امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی، آتش و آہن کی برسات کر کے لاکھوں مرد و زن و بچے موت کے گھاٹ اُتار دیئے اور پھر اپنی فوجیں لے کر اُس دلدل میں اُتر گیا جو اُس نے اپنے لیے خود بنائی تھی۔ جب امریکہ افغانستان کی سرزمین پر اُترا تو اُس زمین نے اس کے پاﺅں جکڑ لیے۔ستر فیصد سے زائد علاقے پر آج بھی طالبان کی حکومت ہے جسے اوپر اوپر سے امریکہ سمیت کوئی تسلیم نہیں کرتا لیکن اندر اندر سے سب جانتے اور مانتے ہیں کہ طالبان ہی افغانستان کے اصل حکمران ہیں۔اسی دوران طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں میں جب نیٹو افواج کو جوتے پڑنا شروع ہوئے اور جب اُن کے فوجیوں کی لاشیں نیٹو ممالک میں جانا شروع ہوئیں تو اُن کا عوامی اشتعال اور ردِ عمل بڑھنے لگا۔اس پر انکل سام بہت سٹپٹائے کہ اب کیا کریں خیر پانچ آزادیوں کے اس دیس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو اُسے دُنبے کا مالک یعنی پاکستان نظر آیا بس پھر کیا تھا چوم چوم کر بلائیں لیں، صدقے واری ہوا اور پھر ڈالروں کا لالچ دے کر ”طبلے والی سرکار“ کی پیٹ ٹھونکی اور اُتار دیا اُس کو کنویں کے اندر....

آج پاکستان امریکہ کی بھڑکائی ہوئی اس آگ کے اندر بہت بُری طرح جل رہا ہے۔اور خاکستر ہونے کے قریب ہے۔طالبان جو پاکستان ہی کے سپاہی تھے ، یہاں کے مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے معصوم بچے تھے، یہی پر اُن کے خاندان ، رشتہ داریاں اور تعلق تھے اور جو پاکستان کو اپنا وطن اور پاکستانیوں کو اپنا بھائی سمجھتے تھے، پاکستان نے ڈالروں کے لالچ میں انہی معصوموں کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر احسان فراموشی اور محسن کشی کی پالیسی اپنائی۔کوئی پوچھ سکتا ہے کہ طالبان ہمارے محسن کیسے ہو گئے تو سب کو علم ہونا چاہیے کہ یہ طالبان ہی تھے کہ جنہوں نے روس کو لوہے کے چنے چبوا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور روس گرم پانیوں تک رسائی کا خواب دل میں لیے واپس لوٹ گیا اور پھر درجنوں ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ یہ طالبان ہی تھے جن کی وجہ سے پاکستان کی افغانستان سے ملنے والی کئی سومیل کی سرحد محفوظ تھی اور افواجِ پاکستان اس بارڈر سے بے نیاز ہو کر کشمیر کی سرحدوں پر انڈیا پر پوری توجہ دیئے ہوئے تھے۔ ہم نے اپنے محسنوں کی پیٹ پر چھرا دے مارا۔ آج لاہور، کراچی، پشاور ،کوئٹہ اور اسلام آباد سمیت پورا پاکستان آگ اور خون میں نہایا ہوا ہے۔افواجِ پاکستان کو قبائلی علاقہ جات میں اپنے ہی بھائیوں سے برسرِ پیکار کر دیا گیا ہے اور معیشت سے لے کر امن و سکون تک ہر شے داﺅ پر لگ چکی ہے اور رہا امریکہ بہادر تو وہ ہمارا دُنبہ، جوتے اور کپڑے لے کر فرار ہونے کے چکر میں ہے۔ اس وقت اُمید کی کرن ہے تو صرف ایک کہ افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر جنرل کیانی ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک مضبوط فیصلہ کریں۔ دنیا کے 50طاقتور ترین انسانوں کی صف میں شامل جنرل کیانی ایک انتہائی سنجیدہ، محب وطن، مدبر اور بہترین پیشہ ور سپہ سالار ہیں۔امریکہ کو NOکہنے کی ہمت اور جرات بھی رکھتے ہیں۔ اگر اس موقع پر وہ یہ اہم ترین فیصلہ کر لیں تو آنے والے وقت میں پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ہمیں اپنے دُنبے، کپڑوں اور جوتوں کی حفاظت خود کرنا ہو گی۔ اس وقت بھارت، اسرائیل اور امریکہ تینوں مل کر پاکستان کے خلاف ایک ٹرائیکا بنا چکے ہیں۔ انڈیا نے اسرائیل کو پوری دنیا میں اپنا سب سے قریبی دوست قرار دے دیا ہے،اسرائیلی کمانڈوز کشمیری مجاہدین کے خلاف کارروائیوں کے لیے انڈین کمانڈوز کو ٹریننگ دے رہے ہیں جبکہ امریکہ بھارت کو سلامتی کونسل میں مستقل نشست دلوانے کے لیے لابنگ کر رہا ہے تاکہ چائنہ اور پاکستان کو نکیل ڈالی جا سکے۔صورتحال سنگین اور موڑ نازک ہے۔ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے بصورتِ دیگر وقت کے فیصلے بڑے بے رحم ہوتے ہیں اور اُن فیصلوں کے نتیجے میں دجلہ وفرات خون سے سرخ ہوجاتے ہیں، سپین جیسے المیے جنم لیتے ہیں اور سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحے منظرِ عام پر آتے ہیں ۔

اور آخر میں ایک لطیفہ
ایک سردار جی کو اپنے کندھے پر چیونٹی رینگتی محسوس ہوئی ۔ اُنہوں نے اُسے پکڑا اور اپنے پاﺅں پر لا کر چھوڑ دیا ۔ وہ چیونٹی دوبارہ چلتی چلتی کندھے تک پہنچی ۔ سردار جی نے پھر پکڑا اور دوبارہ پاﺅں پر چھوڑ دیا۔وہ دوبارہ رینگتے رینگتے کندھوں تک آئی۔ سردار جی نے آٹھ نو مرتبہ یہی کارروائی جاری رکھی تو اُن کا ایک دوست جو قریب ہی بیٹھا تھا جھنجھلا کر بولا۔
او سردار جی اب اسے مار ہی ڈالیں ناں!
سردار جی بڑھک مار کر بولے! اور نہ جی نہ میں تو اسے چلا چلا کر ہی ماروں گا۔

امریکہ بہادر اور دنبے کے مالک کے لیے اس لطیفے میں سبق پنہاں ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374238 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More