اگرعلّامہ اقبال کے متعلق کوئی
یہ کہتا ہے کہ” وہ فلسفہ کے امام ہیں ، اقتصادیات پر ان کی گہری نگاہ ہے ،
علم الاقوام بھی ان کے ذہن و دماغ میں رچا بسا ہوا ہے وہ دنیا کے نئے
رجحانات و تصورات سے بھی واقف ہیں ۔ وہ قیصریت کے بھی ادا شناس ہیں ،اور
فسطائیت کے رموز بھی جانتے ہیں ،وہ جمہوریت کے اسرار کے بھی ماہر ہیں اور
اشتراکیت کی گہرائیوں میں غوطے لگا چکے ہیں ۔ غرض کہ دنیا کی کوئی تحریک ،
کوئی رجحان ، کوئی تصور ایسا نہیں ہے جس سے اقبال واقف نہ ہوں جس کا اقبال
نے مطالعہ نہ کیا ہو ، جس کے محرکات پر اقبال کی نظر نہ ہو ۔ وہ بیرونی اور
مقامی نظریات جدید اور قدیم کو بھی جانتے ہیں اور انہیں پرکھ چکے ہیں“ تو
غلط نہیں کہتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ اپنی ان جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ رفتہ
رفتہ اقبال کی شاعری اس قدر مقبول ہوئی کہ دور حاضر میں مشکل سے کسی شاعر
کو یہ فخر حاصل ہے۔ان کا کلام نہ صرف ہندو پاک بلکہ ایران ، افغانستان ،
امریکہ ،انگلستان ، جرمن، فرانس ، روس، عرب وغیرہ جیسے ممالک میں بھی قدر
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جا سکتا ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کی بڑی بڑی ہستیوں مثلاً جسٹس امیر علی ،
شمس العلماءمولوی سید علی بلگرامی ، سر شیخ عبدالقادر ، مولانا غلام رسول
مہر ، نواب بھوپال حمید اللہ خاں ، سیٹھ محمد جمال ، سر محمد اسمٰعیل ،
مہاراجہ کشن پرشاد ، سر اکبر حیدری ، نظام حیدر آباد، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی
، سر سید احمد خاں کے پوتے سر راس مسعود ، سر سکندر حیات ، لالہ لالجپت
رائے ، ڈاکٹر لمعہ حیدر آبادی ،ہز ایکسی لنسی گورنر پنجاب ، سرندر سنگھ
مجیٹھا ، منوہر لال چودھری ، سر چھوٹو رام ، میاں عبدالحی ، جسٹس عبدالرشید
، جسٹس دین محمد، جسٹس بخشی ، ٹیک چند ، جے ڈی پینی ، رابندر ناتھ ٹیگور،
سبھاش چندر بوس ، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جناح ، مہاتما گاندھی
اور پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ نے اقبال کی عظمت کا صدق دل سے اعتراف کیا
ہے ۔اس بات پر ان تمام حضرات کو فخر تھا کہ اقبال بھی ان کی طرح ہندوستانی
ہیں ۔ اقبال کی قدرومنزلت کا اندازہ ان کے انتقال کے بعد چند تعزیتی
پیغامات سے بھی ہوتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور لکھتے ہیں:
” ہمارے ادب میں ایک ایسا خلاءپیدا ہوگیا ہے جس کے پُر ہونے میں ایک جان
لیوا زخم مندمل ہونے کی مانند بہت عرصہ لگے گا ۔ ہندوستان جس کی آج دنیا
میں کوئی وقعت نہیں ہے ایسے شاعر کی وفات سے اور بھی قلّاش ہوگیا ہے جس کی
شاعری عالمگیر اور آفاقی شہرت کی حامل تھی۔“
مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں:
” یہ سوچ کے ناقابل بیان صدمہ دل پہ گزرتا ہے کہ اب اقبال ہم میں موجود
نہیں رہے ۔جدید ہندوستان اردو کا ان سے بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکے گا ۔ ان
کی فارسی شاعری بھی جدید فارسی ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے ۔ ان کی
وفات سے تنہا ہندوستان کو نہیں بلکہ پورے مشرق کو نقصان پہونچا ہے ، ذاتی
طور پر مجھے اس بات کا انتہائی قلق ہے کہ میرا ایک دیرینہ دوست مجھ سے بچھڑ
گیا۔“
نیتا جی سبھاش چندر بوس نے کہا تھا :
” سر محمد اقبال کی رحلت کے یہ معنی ہیں کہ ہندوستانی ادب کے آسمان پر جو
ستارے روشن تھے ان میں سے درخشاں ستارہ ٹوٹ گیا ۔ صف اوّل کے شاعر اور نقاد
ہونے کے علاوہ سر محمد اقبال ایک منفرد کردار کے بھی حامل تھے ۔ ان کی رحلت
سے ہم سب کو جو عظیم نقصان پہونچا ہے اسے شدت کے ساتھ سارے ملک میں محسوس
کیا جائے گا۔
محمد علی جناح نے اقبال کی عظمت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا تھا :
”اگر میں ہندوستان میں اسلامی حکومت کو قائم ہوتا دیکھنے کے لئے زندہ ر ہوں
اور اس وقت مجھ سے کہا جائے کہ ایک طرف اس اسلامی حکومت کے رئیس اعلیٰ کا
عہدہ ہے اور دوسری طرف اقبال کی تصنیفات تو میں تصنیفات کو ترجیح دوں گا۔“
مہاتما گاندھی لکھتے ہیں:
” ڈاکٹر اقبال کے بارے میں کیا لکھوں ۔میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جب ان
کی مشہور نظم ” ہندوستان ہمارا “ پڑھی تو میرا دل بھر آیا۔ بڑودہ جیل میں
تو سینکڑوں بار اس نظم کو گایا ہوگا ۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے
لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔“
یہ غیر منقسم ہندوستان کی چند اہم شخصیات کے تعزیتی پیغامات کے اقتباسات
ہیں ۔ ممکن ہے کچھ لوگ یہ کہہ کر در گزر کردیں کہ ہندوستانیوں کو ہندوستانی
شاعر سے انسیت و محبت تو ہوگی ہی ۔ لیکن میں اس سے قبل بھی عرض کرچکا ہوں
کہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف دنیا کے بہت سارے ممالک نے کیا ہے ۔ ان
میں ازہر یونیورسیٹی قاہرہ کے شیخ الجامعہ ، مصر کے ڈاکٹر محمد حسنین ہیکل
، محمد علی پاشا ، شہزادہ ولی عہد مانگرول ، روم کے ڈاکٹر اسکارپا پروفیسر
جنٹلی ، ڈاکٹر نکلسن، مسولینی ، اٹلی کے پرنس کیتانی بیرن ، فلسطین کے مفتی
اعظم امین الحسینی ، پیرس کے میگ نون برگساں ، اسپین کے پروفیسر آسین ،
افغانستان کے نادر شاہ سردار صلاح الدین سلجوقی وغیرہ کے نام خاص طور پر
قابل ذکر ہیں ۔ ان حضرات اور ان کے علاوہ دیگر عالموں ، مدبروں ، فلسفیوں ،
مفکروں ، شاعروں ، ادیبوں اور ناقدین نے وقتاً فوقتاً اقبال کی پر بہار
شخصیت اور ان کی پُر اثر شاعری سے متاثر ہوکر اس کا اعتراف صدق دل سے کیا
ہے ۔ اس سلسلے میں چند شخصیتوں کے خیالات اس طرح ہیں ۔ اقبال کے فلسفہ کے
استاد پروفیسر تھامس آرنلڈ فرماتے ہیں:
”ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا سکتا ہے۔“
روم کے ڈاکٹر اسکارپا کہتے ہیں:
”ایسے اچھوتے نادر اور پُر از حقائق خیالات کا آدمی میں نے کبھی نہیں
دیکھا۔“
اقبال جب قاہرہ پہونچے تو ان کے قیام کے دوران مصر کے مشہور بزرگ سید محمد
قاضی ابوالعزائم اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ان سے ملنے آئے ، اس موقع پر
علّامہ اقبال نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا ” آپ نے کیوں تکلیف کی میں خود آپ
کی زیارت کے لئے آپ کے پاس چلا آتا“ اقبال کی اس بات پر قاضی صاحب فرمانے
لگے: ” خواجہ دوجہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ جس نے دین سے
تمسک حاصل کیا ہوتو اس کی زیارت کے لیے جاؤگے تو مجھے خوشی ہوگی۔“
مسولینی نے خاص طور پر ڈاکٹر اسکارپا کے ذریعہ اقبال سے ملنے کی خواہش ظاہر
کی تھی جسے اقبال نے قبول کرلیا تھا ۔ اور 27 نومبر 1933ءکو ملاقات کے
دوران اقبال کی زبان سے ایک پیغام سنا تو وہ انگشت بدنداں رہ گیااور کرسی
چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اور میز پر ہاتھ پٹکتا ہوا چلّانے لگا۔
"What an excellent idea : What an excellent idea"
دنیا کے مشہور فلسفی اور مفکر ”برگساں“ نے جب اقبال کی زبانی یہ حدیث سنی
کہ ”لا تسبرّالدھر انّ الدھر ھو اللہ۔“(زمانے کو برا مت کہو کہ زمانہ خود
خدا ہے )تو وہ جو گٹھیا کا مریض تھا اور کرسی کے بغیر اِدھراُدھر ہل ڈُل
نہیں سکتا تھا ، کرسی چھوڑ کر آگے بڑھا اور علّامہ اقبال سے پوچھنے لگا:
”کیا یہ واقعی حدیث ہے۔“
یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ برگساں اپنی بیماری کی وجہ کر بالکل گوشہ
نشیں ہوگیا تھا اور کسی سے ملتا جلتا نہیں تھا ۔لیکن اقبال سے ملنے کے لئے
،اس نے خاص طور اہتمام کیا۔
یہ تمام باتیں ایسی ہیں ،جو علاّمہ اقبال کی بین الاقوامی شہرت و مقبولیت
کا مظہر ہیں ۔لیکن باوجود اس کے اردو کے معروف ناقد کلیم الدین احمد کا
اقبال کے متعلق یہ خیال ہے کہ_
”اقبال کا علمی ادب میں کوئی مقام نہیں۔“
اور ان کے بعد اسی ہندوستان کے مشہور شاعر فراق گورکھپوری فرماتے ہیں کہ _
”اخلاقی یا روحانی حیثیت سے اثر انداز ہونے والی شخصیت کی فہرستوں میں بھی
ڈھونڈنے سے ڈاکٹر اقبال کا نام نہیں ملے گا۔“ مگر اسی کے ساتھ ساتھ انھوں
نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ”دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے یہاں جو خوبیاں ہیں
، وہ اقبال کے یہاں بھی موجود ہیں ۔“ لیکن کلیم الدین احمد کے اس خیال کو
کہ_”اقبال کا عالمی ادب میں کوئی مقام نہیں“تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر
ایسی بات ہوتی تو اقبال کے کلام کا عرب کے ڈاکٹر عبدالوہاب عزائم ، عراق کے
امیر نورالدین ، شام کے عمیر الامیری ، مصر کے صادی شعلان، یمن کے ابین
زہیری وغیرہ اپنے اپنے ملک کی ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمہ نہیں کرتے یا
پھر دنیا کی بڑی زبانوں میں اقبال پر کتابیںنہ لکھی جاتیں۔ بقول ڈاکٹر عالم
خوندیری : ” ان کی (اقبال کی) پہلی قابلِ ذکر اور معرکة الآراءشعری فکری
تخلیق ”اسرار خودی“ منظر عام پر آئی تو اس نے اپنے دور کے سب سے زیادہ
مستند اور عظیم مغربی مستشرق کو اس حد تک متاثر کیا کہ انھوں نے اس کی
اشاعت کے دو برس بعد اس کا انگریزی ترجمہ شائع کردیا۔“
نکلسن فرماتے ہیں :
” اقبال صرف اپنے عصر کی آواز نہیں بلکہ اپنے دور سے آگے بھی ہیں اور ساتھ
ہی اپنے زمانے میں بر سر جنگ بھی۔“
اس کے بعد نکلسن کے شاگرد اور جانشیں آرتھر آربیری نے اقبال کی چند شعری
تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ،جو 1947ءمیں شائع ہوا اور بعد ازاں
آرتھرآر بیری نے ”رموز زبور عجم “ و ” شکوہ اور جواب شکوہ“ اور ”جاوید
نامہ“ کے انگریزی ترجمے دنیا کے سامنے پیش کئے ۔ پھر براؤن نے بھی فارسی
ادب پر کتاب لکھی ۔ ”بوزانی“ نے جاوید نامہ کو اطالوی قالب میں ڈھالا ۔ اور
اقبال اور دانتے کا موازنہ بھی کیا ۔یورپ کی دوسری اہم زبان دلندیزی میں
بھی”جاوید نامہ“ کا نثری ترجمہ MEYEVOVITCHنے کیا ۔انہوںنے اقبال کے خطبات
کا بھی فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا ۔MEYEVOVITCHکے علاوہ LUCECLALIDEنے
بھی اقبال کو روشناس کرایا ۔ اور فرانسیسی ترجمے کا پیش لفظ مشہور و ممتاز
مستشرق ”مسینون “ نے لکھا ۔
بون یونیورسیٹی کے ماہر اسلامیات پروفیسر اناماری شِمل نے اقبال کی بعض
تخلیقات کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ۔اقبال پر پروفیسر شِمل کی بہترین
تصنیف Gabriels Wingہے۔ان زبانوں کے علاوہ مشرقی یورپ اور سوویت یونین کی
زبانوں میں بھی مثلاً چیک زبان میں چیک عالم ”یان مارک“ اور روسی زبان میں
روسی عالم ”انی کیار“ نے بھی اقبال کی تخلیقات کا ترجمہ کیا ۔ مختصر یہ کہ
مندرجہ بالا حقائق اقبال کی عالمی شہرت ، عظمت اور مقبولیت کے واضح ثبوت
ہیں ۔ |