ماسٹر کی -دوسرا حصہ

انہوں نے اپنے سامنے رکھے قلم سے اس کی فائل میں لگے کاغذ پر کچھ نوٹ کیا اور کچھ سوالات اِدھر اُدھر کے کئے جو اس کی بے چینی کو ختم کرکے اس کو پُرسکون کرسکیں، ایسے میں اچانک انہوں نے ایسا سوال کیا جس کا جواب دینے میں اسے چند سیکنڈ لگ گئے۔۔ ڈاکٹر ظہیر نے اپنا سوال دہرایا’’ آپ میرے پاس دوبارہ کیوں نہیں آنا چاہتے ؟‘‘اب کہ وہ فوراً بولا ’’ کیونکہ آپ کی فیس ادا کرنا بذات خود ایک مسئلہ بن جائے گا جو میری الجھنوں میں اضافہ کردے گا‘‘ اپنی حیرت سے سنبھل کر اس نے ڈاکٹر سے واضح الفاظ میں کہا۔حیرت اس بات پر تھی کہ ڈاکٹر ظہیر نے کیونکر یہ بات جان لی تھی کہ وہ دوبارہ ان سے ملنا نہیں چاہتا۔
’’فیس کی ادائیگی کیا الجھن زدہ زندگی میں رہنے سے زیادہ مشکل ہے؟‘‘
’’میرے لئے ایسا ہی ہے!‘‘ دھیمے لہجے میں جواب دیا گیا۔
’’ٹھیک ہے تمہاری مرضی ‘‘ڈاکٹر ظہیر نے فائل بند کرکے قلم ہاتھ سے رکھ دیا ۔
ڈاکٹر کے حتمی لہجے پر نوجوان کی آنکھوں میں شعلہ سا لپکا اور پھر بے بسی کی لہر ابھری ،شکریہ کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر آگیا۔کلینک سے باہر آکر اس نے دو چار گہری سانسیں لیں اور قریبی بس اسٹاپ کی جانب بڑھ گیا۔
*******
’’یار رمیز کہاں ہو تم ،کل تمہاری پریزنٹیشن ہے۔کام پورا کرلیا تم نے؟موبائل کے اسپیکر سے ابھرتی آواز میں سخت جھنجھلاہٹ تھی۔فون کیوں بند کررکھا تھا ،زمانے سے ملا رہا ہوں۔میری طرف آجاؤ سب انتظار کررہے ہیں،ثنا بے چاری بھی پریشان ہورہی ہے ‘‘ اور کال منقطع ہوگئی۔

ہاسٹل کے کمرے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے شیراز کی کال ریسیو کی تھی اور کمرے میں داخل ہوکر اس نے شکر ادا کیا کہ اس کا روم میٹ موجود نہیں ہے ۔بیڈ پر جوتوں سمیت گرتے ہی اسے شدید تھکن کا احساس ہونے لگا ۔ایک امید جو پچھلے ہفتے ابھری تھی وہ ڈاکٹر ظہیر فضل سے مل کر دم توڑ گئی تھی۔نفسیات کے کیسے ڈاکٹر ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ ہر پندرہ دن بعد ایک ہزار روپے ان کی نذر کرنا بذات خود ایک مسئلہ ہے۔آج بھی ہزار روپے بخش کر آیا اور حاصل کیا ہوا مجھے؟ یہ تو میں دیواروں کو بھی سنا سکتا تھا ۔اب پورا ہفتہ اس خرچہ کو ایڈ جسٹ کرنے کے لئے دوپہر کو کھانے کے بجائے چائے بسکٹ پر گزارا کرنا ہوگا۔دودھ،پھل بھی بھول جانے پڑیں گے کہ ڈاکٹر ظہیر کو پورے ہزار روپے دان کردیئے ہیں۔حساب کتاب لگاتا وہ کچھ دیر قبل ریسیو کی گئی کال بھول چکا تھا ’’چلو جی دوائیوں کا خرچہ تو بچا لیا ،غم نہ کر سب چنگا رہے گا‘‘ اپنے آپ کو فرسٹریشن کے دریا میں ڈوبنے سے بچاتے ہوئے اس نے سوچا اوربستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔

پچھلے ہفتے ہی اس کے کلاس فیلو علی احمد کی پریزینٹیشن تھی۔عروج جعفری نے کمال خوبصورتی سے پورے گروپ کو لیڈ کیا تھا۔ دلکش سی صہبا اعوان بھی علی کے گروپ میں تھی گو وہ عام سی قابلیت کی لڑکی تھی لیکن ہر دم کھل کھلاتی ہی رہتی ہنسنے سے اس کے گالوں میں کئی گڑھے پڑ جاتے ،بقول عہدانی کے یہ ہنستی ہی اس لئے ہے تاکہ دوسروں کا شکار کرسکے۔پتہ نہیں یہ دوسرے وہ کن کو کہتا تھا۔خود وہ صہبا کی خدمت میں اکثر ہی حاضر رہتا ہے۔

عنیزہ قدوائی کی ذہانت سے متاثر ہونے سے قبل رمیز کو بھی صہبا نے متاثر کیا تھا۔لیکن علی احمد کے گروپ میں اسکی جگہ نہ بن سکی ،رمیز کی تمام تر ذہانت کے باوجود چار لڑکوں پر مشتمل اس کا گروپ بنا کسی نسوانی وجود کے اسے اجڑا اجڑا اور بدرونق ہی لگتا۔تینوں لڑکے اوسط درجے کے تھے،نہ چمکتی ہوئی شخصیت نہ متاثر کن ذہانت،یہ اکّیس برس کی عمر میں پہلی بار اسے قلق ہوا کہ وہ کسی بھی لڑکی کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس کے پاس کوئی بھی رنگین سی شاموں پر مبنی یادداشت نہیں،کسی بھی دوست نے اسے کنسرٹ کے ٹکٹ کی آفر نہیں کی جہاں بے شمار رنگ برنگے نظارے موجود ہوتے ہیں ،وہ اپنے ملک کے علاوہ کسی بھی ملک کے ڈیوٹی فری شاپس کے قصے نہیں سنا سکتا اور تو اور وہ اپنے والدین کو اتنی اہمیت دیتا کہ دوسرے اسے Mama's boy کہہ جاتے ہیں ۔

ہندسوں اور اعداد کی گھتیاں سلجھانے کا ماہر رمیز اپنی تمام تر غیر معمولی ذہانت کے باوجود اپنے آپ سے شاکی ہوچکا تھا ۔لڑکیوں میں مقبول ہونے کی خواہش دن بہ دن جڑ پکڑتی جارہی تھی ۔کتنی حیرت کی تھی جھیل ایک پانی کا پیالہ بننے کی طلب میں تھی،اور پھر حیرت کا جھٹکا اسے اسی وقت لگا جب مقامی شاپنگ سینٹر میں برقی زینے سے اپنے مطلوبہ فلور پر قدم رکھتے ہیں اس کی نگاہ اپنے گروپ کے شیراز انصاری پر پڑی جو کلاس کی شوخ ترین لڑکی ثنا خواجہ کے ساتھ ایک طرف کھڑا بات چیت مین مصروف نظر آیا۔دونوں کے درمیان فاصلہ اعتراض حد تک کم تھا ۔ثنا کی نگاہ بھی رمیز پر پڑگئی،فوراً ہی بے نیازی سے دوسری جانب نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے شیراز سے کچھ کہا تو اس نے اِادھر اُدھر نگاہیں گھمائیں،رمیز نے سرعت سے اپنی جگہ بدلتے ہوئے اپنا رخ ہی موڑ لیا۔

’’گھُنا ہے پورا!کتنی جی داری سے سر عام مصروف تھا‘‘بے اختیار اسے شیراز سے کراہیت سی محسوس ہوئی ،مگر اگلے ہی لمحے اس کو شیراز اپنے آپ سے بہتر بھی لگا کہ کم از کم وہ کسی حسینہ کو اپنے ارد گرد رکھنے کا گُر جانتا ہے۔

رمیز بنیادی طور پر ایک سنجیدہ جوان تھا اس کا خمیر شرافت سے گندھا تھا،وہ جن ’’خوبیوں ‘‘ سے محرومی پر کُڑھتا تھا درحقیقت وہ انہیں کبھی بھی نہیں اپنا سکتا تھا۔اس لئے ہی فوری طور پر اسے شیراز کو غیر متوقع حالت میں دیکھ کر کراہیت محسوس ہوئی۔ہاسٹل پہنتے ہی اس نے سب کاموں سے فارغ ہوکر پہلا کام یہ کیا کہ شیشے میں بغور اپنا جائزہ لینا شروع کردیا۔

’’آج شام پولیس آئی تھی‘‘ اس کے روم میٹ عابد نے سیل فون کی مصروفیت سے فارغ ہوکر اس اطلاع دی ۔’’ان کا خیال ہے کہ زین کو کسی نے دھکا دے کر مارنے کی کوشش کی تھی ،جبکہ وہ خود کہہ چکا ہے کہ وہ کھڑکی سے باہر بیٹھا چپس کھا رہا تھا کہ فون سنتے ہوئے توازن بر قرار نہ رکھ پایا اور گر گیا‘‘

’’شکر ہے کہ بچ گیا ورنہ مرنے کی پوری پوری تیاری س نے خود کی تھی،کیا تُک تھی دوسری منزل کی کھڑکی سے باہر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھنے کی؟‘‘

’’پولیس صرف مال بنانے کے چکر میں ہاسٹل کے چکر لگا رہی ہے پندرہ دن سے ‘‘

رمیز نے زین اقبال پر کوئی تبصرہ کئے بغیر پولیس کو کوسا اور الماری سے ایک کتاب نکال لی’’انسانی ذہن کی پوشیدہ طاقتیں‘‘

’’جاری ہے‘‘
Nusrat Yoususf
About the Author: Nusrat Yoususf Read More Articles by Nusrat Yoususf: 16 Articles with 14149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.