میں کوئی الیکشن کا نتیجہ نہیں
بلکہ جبرِمسلسل کی کربناک تاریخ کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک ایسا کردار
ہوں جس نے کئی گزری نسلوں کے خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھا ہے ۔ آٹھ
بھائیوں میں میرا ساتواں نمبر ہے ۔ خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزاری۔ رو
نگٹھے کھڑے کردینے والی غربت و افلاس نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ میری
ماں نے ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ 13دن تک ایک ٹرک کے پیچھے مسلسل سفر کیا۔ 14دن
کے بعد ایک کمرے پر مشتمل رہائش میسر آئی ۔ میں صرف تین چار سال تک سکول
جاسکا۔ ٹھیک بارہ سال کی عمر میںمجھے پہلی نوکری کرنا پڑی ۔ میرا کام جھاڑو
دینا اور صفائی کرنا تھا ۔ لکھنے پڑھنے کی صرف حسرت ہی رہی ۔ انہی دنوں میں
میں نے جوتے پالش کرنے کا کام شروع کردیا ۔ 14سال کی عمر کو پہنچا تو
باقاعدہ تنخواہ کے ساتھ ساتھ ایک ویئر ہاﺅس میں نوکری مل گئی ۔ا سی دوران
میٹل پارٹس فیکٹری میں تبادلہ کردیا گیا ۔ جہاں مجھے نیشنل سروس انڈسٹری کی
طرف سے فنڈ کیے گئے ایک تربیتی پروگرام میں شامل ہونے کا موقع ملا ۔ تین
سال کا کورس کیا۔ یہ انارکی اور افرا تفری کا زمانہ تھا۔ 1964میں فوج نے
اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ایک اہم بات آپ کو بتانا بھول گیا کہ میںنے ہمیشہ
اپنی ماں کے سائے میں پرورش پائی ۔ اس عرصے میں مجھے احساس ہوا کہ ماں کو
جنت کیوں کہتے ہیں ۔ بچپن کی جان توڑ مشقت میں تھک ہار کر ماں کی گود میں
سر رکھ کر واقعی جنت کا احساس ہوتا تھا۔ اپنے باپ کو میں نے زندگی میں بہت
کم دیکھا ۔ کیونکہ وہ ایک اور شادی رچا کر ہم سے بہت دور جاچکے تھے اور یہ
13دن ٹرک کا سفر بھی باپ کی تلاش میں ہی تھا۔ باپ مل تو گیا مگر وہ اپنی
الگ دنیا بسا چکا تھا۔نئی شادی کے ساتھ ساتھ شراب نے اس کے اندر سے شفقتِ
پدری چھین لی تھی ۔ کثرتِ شراب نوشی جان لیوا ثابت ہوئی اور1978میں میرا
باپ فوت ہوگیا۔ باپ کی موجودگی یا عدم موجودگی میرے لیے کوئی معنی نہیں
رکھتی تھی ۔دکھ اور افسوس ہر انسان کی فطرت میں رکھا ہوتا ہے ، اس سے انکار
کرنا ناانصافی ہوگی۔ غربت کے ساتھ لڑائی جاری رہی ، ہمت نہیں ہاری ۔
1969میںشادی کرلی مگر 1971میں ایک منحوس دن ایسا بھی آیا جس دن میں نے نہ
صرف اپنی بیوی ماریہ کو کھو دیا بلکہ اس کے پیٹ میں آٹھ ماہ کا بچہ بھی تھا
جس کے اس دنیا میں آنے کا مجھے شدت سے انتظار تھا، وہ بھی اس دنیا سے چلا
گیا۔ میری بیوی ہیپاٹائٹس کی مریضہ تھی ۔ میں نے اس کے لیے سب کچھ کیا مگر
مطلوبہ معیار کے علاج میر ی مفلسی حائل تھی ۔آس پاس بھی غربت کے گہرے بادل
چھائے ہوئے تھے ۔ اس واقعہ نے بھی مجھے ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ بلکہ مجھے بہت
کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ۔اتنی بے بسی؟ اس بے بسی کا شکار اتنے بڑے ملک
میںمیں اکیلا تو نہیں کروڑوں اور بھی ہیں۔ 19سال کی عمر میںمیرے ساتھ ایک
اور واقعہ پیش آیا ۔میں ایک آٹو موبائل فیکٹری میںپریس آپریٹر کے طور پر
کام کررہا تھا ۔ میرا ہاتھ مشین میں آیا اور انگلی کٹ گئی ۔انگلی ضائع ہونے
کے بعد کئی ہسپتالوں کے چکر لگائے ۔ اس دوران مجھے انسانی رویوں کے حوالے
سے جس کرب ناک اذیت سے گزرنا پڑا، اس کا تصورہی وحشت ناک ہے ۔ معالج انسانی
اقدار سے دور مراعات یافتہ لوگوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ۔ افلاس کے
ستائے ہر مریض کو دوائی کی بجائے گالیاں اور تشخیص کی بجائے دھکے ملتے۔
غربت نے میرا سکول چھڑوادیا ۔ جب سکول جانے کی عمر تھی تو جوتے پالش کرتا
تھا۔ مفلسی نے میری بیوی اور بچہ بھی لے لیا 12سے14گھنٹے روزانہ مزدوری
کرتا پھر بھی تنگدستی ہر وقت میرے ایک کمرے کی رہائش کے منڈیر پر منڈلاتی
رہتی ۔ اگر آپ میری بِپتاسن کے بوریت محسوس کررہے ہیں تو آج کہانی یہیں پہ
ختم کرتے ہیں، لیکن جاہیے گا کہیں نہیں ۔ میں نے سنا ہے کہ پاکستان نام کا
ایک ملک بحرانوں اور غربت و افلاس کی چکی میں پِس رہا ہے ۔مڈل کلاس ختم
ہورہی ہے ۔۔۔امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوچکا ہے۔۔۔ خدشات ظاہر کیے
جارہے ہیں کہ ملک انارکی کی طرف جارہا ہے ۔میں ساری کہانی آپ کو سناﺅں گا
کیونکہ اس میں سبق ہے زبانی نہیں میرے تجربوں کا نچوڑ ہے کہ ”کچھ بھی
ناممکن نہیں“ ۔آج اختتام کرتے ہیں تازہ ذہن کے ساتھ میںآپ کو سفر کراﺅں گا
اور منزل تک پہنچاﺅں گا ۔ انتظار کیجیے ۔میں اپنا نام ابھی نہیں بتاﺅں گا ۔بھلا
مزدور کا بھی کوئی نام ہوتا ہے؟۔ (جاری ہے۔۔۔۔) |