ایسے پر فتن دور میں جبکہ متعدد
یوروپی ملکوں میں اسکولوں میں سندولادت سے لے سند موت تک متعدد موقع پر باپ
کے نام کی بجائے ماں کا نام درج ہونے کا رواج پڑ گیا ہے‘یو پی اے حکومت نے
ہندوستان کے خاندانی نظام کی چولیں ہلا کر نئے رجحان کا اشارہ دے دیا ہے۔
لہٰذا اب مجوزہ سرکاری غذائی سیکورٹی بل میں مردوں کی بجائے عورتوں کو گھر
کے سربراہ کا درجہ مل سکتا ہے ۔ دراصل معاشرے میں رہن سہن کیلئے انسان تنہا
زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی لئے انسانوں کے ساتھ رہنے کا نظام بنایا گیا ہے
جو کہ صدیوں سے رائج ہے۔ اس نظام کے تحت انسان کسی معاشرے میں رہنے کے لئے
معاشرے میں تعلقات استوار کرتا ہے۔ اپنا ایک الگ گھر بناتا ہے اور پھر اس
گھر کا منتظم بن کر، گھر کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس نظام کو خاندان کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کے قریبی اور خونی
رشتے دار شامل ہوسکتے ہیں۔ خاندان کا سربراہ عموماً سب سے معمر شخص یا سب
سے بڑا رکن مردہوتا ہے لیکن اب حکومت رعایتی شرح پر اناج دینے کی آڑمیں
عورتوں کو گھر کا سربراہ ماننے کے فراق میں ہے یعنی نئے قانون کے تحت
سرکاراب خواتین کا انتخاب کرے گی۔ حکومت کی اس فلاحی منصوبے میں یہ انوکھی
تجویز بعد میں شامل کی گئی ہے جبکہ غذائی سیکورٹی بل کی تجویز پر سابق میں
کئے گئے مذاکرے میں اس طرح کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔تمام معاشروں میں بچوں
کی پیدائش اور پرورش خاندان میں ہوتا ہے۔ بچوں کا رسوم کرنے اور سماج کے
ضابطہ عمل میں ان کی تربیت کرنے کا کام بنیادی طور پر خاندان میں ہوتا ہے۔
اس کے ذریعہ سماج کی ثقافتی وراثت ایک سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہے۔
شخصیت کی سماجی عزت بہت کچھ خاندان سے ہی طے ہوتی ہے۔ مرد عورت کے جنسی
تعلقات کا ابتدائی مقصد خاندان کے دائرے میں توسیع ہوتاہے ۔ صنعتی تہذیب سے
پیدا ہوئے عوامی معاشروں اور شہروں کو اگر چھوڑ دیا جائے تو شخصیت کا تعارف
ابتدائی مقصد اس کے خاندان اور کل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف
ملکوں کے خاندان کے دائرے میں عورت اور مرد کے دائرہ کا ر میں واضح فرق ہے۔
عورتوں کا زیادہ تر وقت گھر میں بسر ہوتا ہے۔ کھانا بنانا ، بچوں کی دیکھ
بھال اور گھر کی صفائی کرنا اور کپڑوں کی سلائی وغیرہ ایسے کام ہیں جو عورت
کے حصے میں آتے ہیں۔ مرد بیرونی اور زیادہ محنت کے کام کرتا ہے ، جیسے
کھیتی ، تجارت ، صنعت ، پشچار ، شکار اور لڑائی وغیرہ۔ جبکہ بعض معاشروں
میں عورتیں بھی کھیتی اور شکار جیسے کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کے
برعکس قومی فوڈ سیکورٹی بل 2011 میں اپنی طرح کا یہ انوکھا اقدام اٹھاتے
ہوئے بند و بست کیا گیا ہے کہ کوئی بھی بالغ عورت جو18 سال یا اس سے زیادہ
کی ہو وہ گھر کی سربراہ ہوگی۔ اور اسے چاول ، گیہوں اور دیگر غذائی خوراک
رشن کارڈ کے ذریعے رعایتی شرح پر دیا جائے گا۔ بل میں ترجیح کی بنیاد پر
منتخب خاندانوں کوفی کس سات کلو اور عام خاندانوں کو فی کس تین کلو اناج
ماہانہ رعایتی شرح پر دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔ یو پی اے کی صدر سونیا
گاندھی کی قیادت والی قومی مشاورتی کمیٹی نے ملک کی 75 فیصد آبادی کو خوراک
کی سلامتی بل کے دائرے میں لانے کا مشورہ دیا تھالیکن 68 فیصد آبادی کو
سبسڈی والا اناج پانے کا قانونی حق مل سکتا ہے۔ خوراک وزارت کی طرف سے تیار
قومی فوڈ سیکورٹی بل کے مسودے کو اگر وزراءگروپ کی آئندہ میٹنگ میں منظوری
مل جاتی ہے تو ایسا ممکن ہو سکے گا۔ قومی مشاورتی کونسل جسے مختصر طور
پراین اے سی اور رنگ راجن کمیٹی کی سفارشات کے تجزیہ کے بعد خوراک وزارت نے
بل کا ڈرافٹ تیار کیا ہے جسے اگلے ہفتے خوراک پر وزراءکے حقوق حاصل گروپ ای
جی او ایم کے سامنے رکھا جائے گا۔
ذرائع کی مانیں تو وزارت نے موجودہ کے فی خاندان کو 35 کلو گرام چاول یا
گیہوں سبسڈی شرح پر دینے کی موجودہ نظام کی بجائے انفرادی بنیاد پر سبسڈی
والا اناج مہیا کرانے کی بھی سفارش کی ہے۔ مجوزہ بل کے مطابق ترجیح والے
خاندانوں کا انتخاب دیہی علاقوں میں موجود 46 فیصد غریب خاندانوں سے اور
شہری علاقوں کے 26 فیصد غریب خاندانوں میں سے کیا جائے گا۔ وہیں دوسری جانب
گاؤں کے 29 فیصد اور شہروں کے 22 فیصد خاندان عام قسم کے مانے جائیں گے۔اس
سلسلے میں خوراک وزیرکے وی تھامس نے بتایا کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی
کی رہنمائی میں تیار ہو رہا مجوزہ غذائی سیکورٹی کا بل یوپی اے -2 کا اب تک
کا سب سے مہنگا اور مفید قانون ثابت ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجوزہ بل میں
اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اوکھر رعایتی شرح پر ملنے والے اناج کی قیمت
کیا ہوگی۔ قیمتوں کے تعین کا معاملہ حکومت کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے۔رنگراجن
کمیٹی کا مشورہ ہے کہ ملک میں اناج ذخیرہ میں کمی کی صورت حال کو دیکھتے
ہوئے عام قسم کے لوگوں کو اس کے دائرے میں نہیں لانا چاہئے۔ ذرائع نے واضح
کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی لوگوں کو اس کے طرح لینے سے ملک میں غذائی سیکورٹی
کا دائرہ اور بڑھے گا۔ مجوزہ قانون کے تحت حکومت کا سبسڈی اناج پر خرچ کا
بوجھ سالانہ 100000 کروڑ روپے پر پہنچ جائے گا۔ فی الحال یہ رقم 80000 کروڑ
روپے ہوتی ہے جبکہ حکومت نے 2009 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ قانون لا کر غذائی
سیکورٹی مہیا کروائے گی۔ وزارت خوراک کے ایک اعلی اہلکار نے بتایا کہ اگرچہ
بل کا ڈرافٹ تیار ہو گیا ہے لیکن لگتا نہیں کہ یہ موجودہ ڈھانچے میں قانون
کی شکل اختیار کر پائے گا۔ اس میں وزراءکے گروپ کی میٹنگ اور کابینہ میں
لازمی طور پر ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے۔ کابینہ سے منظور ہونے کے بعد ہی اسے
پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ افسر کے مطابق بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے
معاملے میں سونیا گاندھی کی طرف سے متعینہ مہلت پار کر سکتی ہے۔لگتا ہے کہ
یہ مانسون اجلاس میں پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہو سکے گا۔ پھر بھی مجوزہ بل
میں ملک کی حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت کا خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
ہندوستان بنیادی طور پر کسانوں کا ملک ہے اور یہاں کی خاندانی تخلیق عام
طور پر زراعت کی ضروریات سے متاثر ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی سماج کی
روایتی حیثیت مثالی ہے۔ کسی دیگر معاشرے میں گرہستی کی اتنی پاکیزگی
اورآپسی اتحاد کی مثال نہیں ملتی جس میں والد ، بیٹے بھائی بھائی ، اور
شوہر بیوی کے اتنے مستقل تعلقات میسر ہیں۔گھر کی چاردیواری میں عورت کے
خاندان کو چلاتی ہے اور جو کام خواتین کے سپرد ہے ان کی نگرانی اور انتظام
کرتی ہے۔ کھانا تیار کرنا بچوں کا پرورش کرنا اور سےکتائی وغیرہ خواتین کے
اصل کام ہیں جبکہ تمام امور کے حتمی فیصلے مردوں کے ذمہ ہوتے ہیں جبکہ اسی
بنیادی ستون پر پہلے بھی ضرب لگانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔خواتین سربراہی
سے قبل حقوق نسواں کاشوشہ چھوڑا گیاتھا۔یہ موضوع اس وقت تک گفتگو کا موضوع
رہے گا جب تک کرئہ ارض پر مرد عورت موجود ہیں۔حالانکہ بوتل نئی ہے لیکن
شراب پرانی ہے جبکہ انداز بیاں نے بات بدل دی۔ خواتین سربراہی کا ذکرساری
دنیا میں سنائی دیتا ہے‘بالخصوص مغربی دنیا کا دعویٰ ہے کہ انکی حقوق نسواں
کی تحریکات نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ عالمی سطح پر عورتوں کے مساوی
حقوق مان لئے جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر بھی حقوق نسواں
کو تقویت ملی ہے مگر اسلامی تاریخ سے باخبر ہر ذی شعور انسان اس بات کو
تسلیم کرنے کیلئے ہر گز تیار نہیں کہ اس سے قبل دنیا میں مرد عورت کے مساوی
حقوق کا کوئی قانون نہ تھاجبکہ قرآن کریم آج سے پندر ہ سو سال قبل یہ قانون
پیش کر چکا ہے۔ اور اسلامی معاشرت میں یہ قانون رائج تھے۔ تاریخ سے ثابت ہے
کہ ظہور اسلام سے قبل عورت کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔اس وقت کی متمدن اور غیر
متمدن دنیا میں عورت کی حیثیت بالعموم حیوانوں کی سی تھی۔مذہبی اور تمدنی
اسے کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہ تھا۔یونانی اور رومی تہذیب میںبھی مرد وں
کے حقوق کا تحفظ کیا گیا عورتوں کے حقوق غیر محفوظ ہی نہیں تھے بلکہ عورتوں
کو مالوں اور جائدادوں کی طرح منتقل ہونے والا ورثہ خیا ل کیا جاتا تھا۔صرف
اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے کہ جس نے عورت کی انسانیت کو نمایاں کر کے
دکھایا جس نے مکمل طور پر عورت کے حقوق کو قائم کیا۔ اسے مذہبی اور روحانی
لحاظ سے مرد کے مساوی قرار دیا۔اور تمدنی زندگی میں اس کی مستقل اور نمایاں
حیثیت قائم کی۔اہل علم حضرات کی مانیں تورسول کریمﷺ ہی وہ پہلے انسان ہیں
جنہوں نے قرآنی تعلیم کے مطابق عورتوں کے برابر کے حقو ق قائم کئے۔جیسا کہ
سورة البقرہ میں عام قانون میں بتایا کہ مردوں او ر عورتوں کے حقوق بحیثیت
انسان ہونے کے برابر ہیں۔ہاں مگر مردوں کو کنبہ کا سربراہ ہونے کے لحاظ سے
ایک طرح کی فوقیت حاصل ہے۔گویا اسلام نے انسانیت کے لحاظ سے مرد عورت کے
درمیان کوئی تفریق نہیں کی۔فرمایا وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس
ہو۔ گویا موجب سکون اور آرام کے دونوں برابر ہیں۔مرد عورت کو ایک دوسرے کا
نیکی بدی میں شریک قراردیا اور وہ ایک دوسرے کیلئے رفیق سفر کے کام کرتے
ہیں۔مگر افسوس آج کے مسلم مشرقی سماج کے ایک بڑے حصہ میں اس اسلامی قانون
کی پیروی کی بجائے زیادہ تر باطل رسم و رواج کی پیروی پر زور دیا جاتا ہے
یعنی عورت کے مقابل پر مرد کو ہر سطح پر بر تر سمجھا گیا۔ اور مرد کی ہرسطح
پر بالا دستی کو قائم کیا گیا گویا مشرقی کلچر نے اسلام کے نام پر بھی
مردکی ہرسطح پر برتری اس کا حق قرار دیا۔گویا مرد کے اس مزعو مہ حق نے مرد
نے اپنی برتری کے زعم میں عورت کے حقوق کا استحصال کیا ہے ۔بھائی اپنی
بہنوں کی تربیت اور تکریم کو اپنا فرض جانتے ہیں خاوند اپنی بیویوں سے
بہترین معاملہ کرنے والے اور ان کی دلجوئی کو اپنی نیکی کا معیار سمجھتے
ہیں۔ بچے اپنی ماﺅں کے قدموں کے نیچے جنت یقین کرتے ہیں۔غرض اسلام نے
نسوانی دنیا کی کایا پلٹ دی۔اور عورت کا احترام اور اس کی عزت کو ہرحیثیت
میں قائم کیا۔عورت کی عزت اسلامی نقطہ نگاہ سے ہر مومن پر فرض ہے جبکہ
مغربی دنیا ’مساوی حقوق‘ کی آڑمیں عورت کو مظالم کا تختہ مشق بنا رہے
ہیں۔اہل مغرب نے عورت کو آزادی کاجھانسا دے کر عورتوں کو ان کے فطرتی دائرہ
کار گھر سے نکال کر گھر داری کی ذمہ داریوں کے علاوہ اسے اپنے شانہ بشانہ
روزی کمانے پر لگا دیا۔مردوں نے اسے جھانسا دے کر اس کا گھر اس کے محبوب
اور اسکے بچوں کی رفاقت اس سے چھین لی۔مغربی عورتیں نام نہاد مادر پدر
آزادی مساوات کے نام پرمردوں سے آگے نکلنے کی دھن میں نسوانیت کی حدود تک
پھاند گئی ہیں۔ بظاہر ترقی یافتہ مگر در حقیقت ایک متبذل شئے کی حیثیت حاصل
کررہی ہے۔ مفاد پرست مرد نے عورت کے مقام کو اس قدر گرا دیا ہے کہ اسے گھر
سے بے گھر کرکے اسے آزادی کے نام پر اسے اپنی شہوات کی تسکین کا آلہ بنا کر
رکھ دیا ہے جبکہ مشرقی عورت شمع خانہ ہے۔اسکی گھر داری ذمہ داریوں ‘اس کی
ثقافتی و معاشرتی زندگی کا جائزہ لیا جائے تومشرقی عورت مشترکہ پسندیدہ
عادتوں ثقافتی رسموں اور سماجی قدروں کا وہ مجموعہ ہے جس کی بدولت معاشرت
مستقل صور ت اختیار کرلیتی ہے۔
قد رت نے انسانی نسل کی بقاکے لئے عورت کو بے مثل سانچے میں ڈھالا ہے۔ بچے
کی پرورش کی سخت پابندیا ں اپنانے اور اہم ذمہ داریاں نباہنے کی فطری قوت
اسی میں ہے۔عورت نہ صرف بچہ کی دنیا میں آمد کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ پہلی
خوراک شیر مادر ہی ہوتی ہے۔ ہر مشرقی نیک ماں بچے کو صرف ممتا کا پیار ہی
نہیں دیتی بلکہ شروع ہی سے اس کے اندر انصاف پیدا کرتی ہے۔اس کے اندر توازن
پیدا کرتی ہے۔مشرقی عورت کا جغرافائی ماحول اسے ہر دیس کی عورت سے ممیز
کرتا ہے۔یہ پیدائشی اعتبار سے حساس‘ ہمدرد اور انکسار پسند ہستی ہے۔بیشتر
گھریلو معاملات اس کی ہمت صوابدید سے سنورتے ہیں۔مرد نے جہاں بھی اس کے
تعاون کا خیر مقدم کیا ‘ وہیں اچھے نتائج برآمد ہوئے اور زندگی بڑھ چڑھ کر
مہذب اور متمدن نظر آئی۔ مگر مغربی تہذیب میں عورت نے حیاءکو خیر باد کہہ
دیا ہے جس کی تقلید میں نت نئے شوشے منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ |