یہ اچانک انصاف کی تحریک خیبر سے
لیکر کراچی تک اور گلگت بلتستان سے لیکر مظفرآباد تک سیاست کی فضاﺅں میں
کیسے جم گئی؟روائتی اور خاندانی وراثت کی سیاست کے دعویدار اچانک سکتہ طاری
کی کیفیت میں کیسے الجھ پڑے ؟اس بے لگام سیاسی الجھاﺅ نے بڑی بڑی جماعتوں،
وزارتوں ، عہدوں کے دعویداروں کو اچانک گھٹنے ٹیکنے اور عوام کے سامنے جواب
دہ ہونے پرکیسے مجبور کر دیا ؟ تحریک انصاف کی طرح کی گمنام سیاسی جماعتوں
کی سیاسی اوقات کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ سے انکاری اجارہ دار سیاسی جماعتوں
کی اندر کی جمہوریت نے یکدم کروٹ بدل کر ان کے ہزاروں کارکنوں کو تحریک
انصاف میں شمولیت اختیار کرنے پر کیوں مجبور کر دیا؟؟؟ان سوالات کے بھنور
میں بہت ساری حقیقتیں پھنسی ہوئی ہیں جن کو تلاش کرنا عوام کی نسبت
حکمرانوں پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی تھی اور جب حکمرانوں نے اپنی اصل ذمہ
داری کا تعین کرنے کی بجائے سیاسی بازار حسن کے اندر لوٹ مار، کرپشن ،
بدعنوانی ،رشوت خوری کو فروغ دیکر اپنی سیاسی دوکانوں کی حفاظت کیلئے
دورسرے کی سیاسی دوکانوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے ملک کے تمام آئینی اور
قانونی تقاضوں اور اعلی سیاسی روایات کو پاﺅں تلے روندھ کر اپنا منہ کالا
کرنا شروع کر دیا تو عوام نے اسی میں بہتر سمجھا کہ جمہوریت کی آغوش میں
پنا لیئے ہوئے نام نہاد جمہوریت پسندوں اور قوم کے غداروں کے کالے منہ کی
شناخت کرکے سامنے لایا جائے اور ان کا محاسبہ کیا جائے اور یقینا محاسبے کا
عمل جمہوری محاسبے کے خوبصورت عمل کی تصویر جھلکیاں اخباروں اور ٹیلی ویژن
چینلزکی حد تک نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں کے اندر موجود تبدیلی کی خواہش کو
دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے پورے ملک کے اندر تحریک انصاف کے کامیاب
ترین جلسے اور ان جلسوں کے اندر عوام کی ناقابل یقین تعدا د میں شرکت کی
صرف ایک وجہ نظر آرہی ہے اور وہ وجہ تبدیلی کی ہے ایسی تبدیلی جس طریقے سے
پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ(ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ملکر 3سال قبل منہ
بولے آمریت کے دور کو تبدیل کرکے پیپلز پارٹی کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھایا
گیا۔۔۔قوم کو یاد ہے کہ 3سال قبل اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والی پیپلز
پارٹی نے عوام سے کیا وعدے کیئے تھے آج قوم کو ان وعدوں کی تکمیل کی بجائے
ہر طرف بدامنی،ناانصافی،لاقانوعیت ، ڈراﺅن حملے ، رشوت خوری،مہنگائی، غربت
، بھوک و افلاس، تھانوں میں ٹھیکہ بازی،سیاسی دشمنوں پر مقدمہ بازی، عدالتی
فیصلوں کی حکم عدولی کی مثالیں پورے ملک کے اندر جگہ جگہ نظر آرہی ہیں
دیکھئے میگا پرجیکٹس،تعمیر وترقی اور عوام کی خوشحالی کے منصوبوں کی ہرنئی
آنے والی حکومت دعویدار رہی ہے چاہئے وہ حکومت آمریت کی ہو یا جمہوریت کی
کوئی حکومت یہ نہیں کہہ گئی کہ اس کے دور میں تعمیر و ترقی نہیں ہویہ مگر
پوری قوم آج اس بات پر متفق ہو گی ہے کہ ملک کے اندر جس چیز کی سب سے زیادہ
ضرورت ہے وہ آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی ہے انصاف کی بلا امتیاز
فراہمی ہے اور تحریک انصاف اسی سیاسی نظر یے کو لیکر باہر نکلی ہے جس کی
مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر برسراقتدار حکمرانوں نے اپنے سیاسی کردار کا
قبلہ درست کرنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی بجائے یہ کہنے سے بھی
دریغ نہیں کیا کہ عمران خان کے جلسوں کی کامیابی کی پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ
ہے یعنی برسراقتدار جماعتوں کو جب کوئی ہاتھ نظر نہ آئی یا ہاتھ نظر آنے کے
باوجود اس ہاتھ کی طاقت کو تسلیم کرنے انکار کرنا ہو تو اس کو ایجنسیوں کا
ہاتھ قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ عمران خان کے کسی جلسے کی کامیابی میں
قوم کی رائے کے عین مطابق کسی ایجنسی کا ہاتھ نہیں بلکہ عوام کے جاگنے والے
ضمیر کا ہاتھ ہے یقینا عمران خان کے جلسے اور ان جلسوں میں عوام اور
بالخصوص نوجوان نسل کی شرکت کی صورت میںجو سونامی تیاری کررہا ہے اس کی ذد
میں کوئی سنگل غرقہ پوش کردار بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا کیونکہ یہ سونامی
وہ انقلاب ہے جس کی پشت پر پاکستان قوم کی تقدیر بدلنے کی نوید درج ہے جس
کے بعد شاہد ہی کوئی سیاسی قوت پاکستانی قوم کی انقلابی سوچ کو تبدیل کر
سکے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اب یہ سونامی آگے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔
|