قرآن سے ہمارا رشتہ
(Ishteyaque Alam Falahi, )
ڈاکٹر صلاح الدین سلطان
ترجمہ : اشتیاق عالم فلاحی۔
میں اپنے ان بھائیوں اور احباب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو حجِ بیت اللہ
کے لئے گئے تھے، جن کی اللہ سے یہ فریاد ہے کہ ان حق کے میں ہماری دعاؤں کو
قبول فرمائے اور ہمارے حق میں ان کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ ان شاء اللہ
آج ہماری گفتگو کا موضوع ہے ۔۔۔ قرآن۔ ہمارے لئے انتہائی حیرت انگیز ہے یہ
فرق کہ قرآنِ کریم کی حامل پہلی امّت پر اس نے کیا اثر ڈالا اور ہماری نسل
پر اس کے کیا اثرات پڑے ۔۔
کبھی کبھی ہم بڑی تعداد میں ایسے حفّاظِ قرآن کو دیکھتے ہیں جن کے اندر
قرآن کا کوئی معمولی اثر بھی نہیں نظر آتا جبکہ سورہٴ طٰہٰ کی سات آیتوں نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں وہ انقلاب برپا کیا کہ ایک شخص جو محمد -صلّیٰ
اللہ علیہ وسلّم- کو قتل کرنے کے درپئے تھا اسلام کے پہلے ہی مرحلے میں
کہتا ہے: کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ پھر ہم اپنے دین پر کیوں
آنچ آنے دیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کے اندر ایسا زبردست انقلاب
برپاہوا۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ روئے پھر ہنسے۔ ان سے پوچھا گیا: آپ
ہنسے کیوں اور روئے کیوں؟ انہوں نے کہا: مجھے وہ دن یاد آیا جس دن میں نے
اپنی بچّی کو زندہ در گور کیا تھا۔ وہ عمر ﴿رضی اللہ عنہ﴾ جس کا دل جاہلیّت
میں اپنی چھ سالہ بچّی کے لئے نہیں پگھلا تھا، اس نے اسے زندہ در دفن کر
دیا، لیکن قرآن نے اس کے اندر وہ انقلاب برپا کیا کہ اپنی رعیّت میں سے کسی
بچّے کے رونے کی آواز سنتا تو خود بھی رو پڑتا تھا، اس کے بعد وہ ہنسے
کیونکہ انہیں یہ یاد آیا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ بتوں کی پوجا کرتے
تھے۔ انہوں نے کہا: میں کھجور کو بت کی حیثیت سے پوجتا تھا پھر جب مجھے
بھوک لگتی تو اسی کو کھا لیتا تھا اور پھر کسی اور کوبت بنا لیتا تھا، عمر!
آخر میری عقل یہ سب کیسے قبول کر لیتی تھی؟
پھر اسی عمر کو قرآن نے کچھ اور بنادیا، یہ رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ
وسلّم کے اصحاب کے جو نمونے تھے ان میں سے صرف ایک مثال ہے۔۔۔۔ وہ لوگ شراب
کے دلدادہ تھے، ایک شخص کہتا ہے:
ألا فاسقني خمرًا وقل لي هي الخمر ... ولا تسقني سرًّا إذا أمكن الجهر
﴿سنو، پلادو مجھے شراب اور مجھ سے کہو کہ یہی ہے شراب ، اور اگر اعلانیہ
پلانا ممکن ہو تو مجھے چھپا کر نہ پلانا﴾
لیکن جب شراب کی حرمت آئی تو ان لوگوں نے کہا : اے انس بہا دو ان گھڑوں کو۔
میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا: تیئیس سالوں سے میں اپنی بیوی کو حجاب اختیار
کرنے کے لئے سمجھا رہا ہوں۔ سبحان الله!!،یہ بہن کو جب اللہ - عز وجل- کی
آیات سنائی جاتی ہیں تو اُس پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ (فَبِأَيِّ حَدِيثٍ
بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ، ترجمہ: اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسا کلام ایسا ہو
سکتا ہے جس پر یہ ایمان لائیں؟)
ہم محض مخصوص مواقع پر قرآن کی طرف پلٹتے ہیں، کسی کی موت ہوتی ہے تو اس
وقت اسے پڑھ لیتے ہیں، گھروں اور گاڑیوں میں اسے بطورِ تبّرک رکھ لیتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ کریم کا پیغام کیا ہے اس پر گفتگو کرتے ہوئے
فرمایا: (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ)
﴿وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا﴾ ۔ ہدایت کا
مطلب ہے قرآن اور دینِ حق سے مراد ہے قرآن اور سنّت۔
یہ اس لئے نہیں ہے کہ کسی ایک محلّہ میں، کسی ایک تقریب گاہ میں، یا کسی
ایک گھر میں نجی طور پر عمل آوری کی چیز بن کر رہ جائے بلکہ یہ اس لئے ہے
کہ وإنما (لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ) ﴿تاکہ وہ اسے سارے ادیان
پر غالب کردے﴾۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم مساجد میں تو قرآن پڑھتے ہیں اور
شاہراہوں پر اس کے خلاف عمل کرتےہیں، ہم محض یہ لیکچر سن کر کمرے دروازے سے
نکل جائیں تو اس سے قرآنی اقتدار کا قیام نہیں ہوگا، یوں کہہ سکتے ہیں کہ
اس کا اقتدار محض چند دلوں میں تو ہے لیکن پوری امتِ مسلمہ پر اس کی عمومی
حکمرانی ہو ایسا نہیں ہے۔
اس صورتِ حال کو بدلنا ضروری ہے، ہمیں قرآن کے ذریعہ خود کو بدلنا ہوگا اور
اس قرآن کے ذریعہ دوسروں میں انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ ہم یہ دیکھتے ہیں
صحابہ -رضوان الله عليهم- اونٹوں کے حدی خواں قوموں کے نگہبان بن گئے، ان
بدووں سے کسریٰ و قیصر تھرّانے لگے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کی نشوو
نما بدویانہ زندگی میں ہوئی تھی، وہ جب تک اس کیفیت میں رہے اُن کے حاشیہ
بردار بن کر رہے، اُن کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے رہے، جیسا کہ آج
بھی ہو رہا ہے، لیکن جب ان لوگوں نے اس قرآن کے سائے میں جینا سیکھا، انہوں
نے راتوں میں اس سے تعلق مضبوط کیا اور دن ورات میں اس کو نافذ کیا تب جا
کر دلوں میں اُن کی ہیبت بیٹھی۔ "الصيام والقرآن يشفعان للعبد يوم القيامة،
يقول القرآن: أي ربِ منعته النوم بالليل" یعنی روزہ اور قرآن قیامت کے روز
بندوں کی سفارش کریں گے، قرآن کہے گا : پروردگار میں نے اسے رات میں سونے
سے روکا" میں نے اسے روکا یعنی وہ قرآن میں اس قدر کھو گیا جیسے کہ کوئی
عاشق، محبّت کی وجہ سے اس کی نیند غائب ہو جاتی ہے، وہ جاگتا اور گنگناتا
رہتا ہے، وہ اشعار کہتا ہے، نثر میں اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے یا شعراء
کے اشعار یاد کرتا ہے:
قفا نبك من ذكرى حبيب ومنزل ... بسقط اللوى بين الدخول فحوملِ
﴿ساتھیو! رکو کہ ہم دخول اور حومل کے درمیان سقط لویٰ کے مقام پر محبوب اور
دیارِ محبوب کی یاد میں دو آنسو بہا لیں،﴾
قرآن کہے گا کہ مجھ سے اس کا شدید تعلّق تھا،میرے تعلّق کی وجہ سے اس نے
نیندیں قربان کیں۔ لیکن کیا یہ آیات جنہیں آپ رات میں پڑھتے ہیں کیا یہ دن
میں صرف نغمات کی حیثیت رکھتی ہیں کہ انسان کے حلق سے آگے اس کی معنویت
نہیں جاتی۔ "رب قارئ للقرآن، والقرآن يلعنه" ۰قرآن کے کتنے ہی قاری ایسے
ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے﴾۔ جب میں قرآن کے کسی ایسے حافظ، قاری، یا
ماہر کو دیکھتا ہوں جو اہلِ اسلام پر آنے والی آنچ کے مقابلے میں سینہ سپر
نہیں ہوتا تو کہتا ہوں: کیا یہی حق ہے کہ اس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل
نہیں کیا؟ یہ قرآن جو زندگی اور زندگی کے حقائق کی تعمیر کرتا ہے یہ اس لئ
یہ اس لئے نہیں ہے کہ زندگی کی کچھ معاملات کی ابتداء، انتہاء اور برکتوں
کے معاملات تک محدود ہو کر رہ جائے۔ قرآن ہرگز اس کے لئے نہیں نازل ہوا
گرچہ کہ اس طرح کے کام جائز ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کا اصل کام یہ ہے کہ یہ
انسان کی تعمیر کرتاہے۔
مجھے یاد ہے کہ یورپی مجلس برائے افتاء کے اجلاس میں شرکت کے لئے آئر لینڈ
گیا ہوا تھا، مجھے آئرلینڈ سے لندن اور لندن سے امریکہ جانا تھا، میں
ایرپورٹ میں جہاں بیٹھا تھا وہاں میرے قریب کوئی نہیں تھا۔ جب مجھے آواز دی
گئی تو ہوائی جہاز پر سوار ہوا۔ میری نشست درمیان میں تھی۔ میرے دائیں طرف
ایک خاتون تھی اور بائیں طرف ایک مرد تھا۔ میں نے کہا کہ میں پہلے مرد سے
گفتگو کروں گا، اسے اللہ کی طرف بلاؤں گا۔ لیکن اس نے سونے کے لئے ٹیک
لگایا۔ میں خاتون سے گفتگو کی ابتداء کیسے کی جائے یہ سوچنے لگا۔ میں سوچ
ہی رہا تھا کہ اس نے مجھ سے سوال کیا: آپ ایر پورٹ میں بیٹھے کچھ پڑھ
رہےتھے، آپ جو بھی پڑھ رہے تھے اس کی وجہ سے میرے دل میں ہلچل ہو رہی تھی،
وہ عربی زبان کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ سبحان اللہ، یہ قرآن ہے اللہ کا کلام
، ہمارے آقا محمّد صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم پر عربی مبین میں نازل ہوا، اس کی
تلاوت عبادت ہے، یہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچا ہے، اس نے چیلنج کیا ہے کہ
اس کی چھوٹی سے چھوٹی آیت کے مثل کوئی لا سکے تو لائے۔ میں نے پوری سادگی
سے کہا: میں قرآن پڑھ رہا تھا یہ اللہ کا پیغام ہے تمہارے لئے بھی اور سارے
انسانوں کے لئے بھی، تاکہ لوگ اس سے دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کر سکیں۔
ہر فرد کو سعادت کی تلاش ہوتی ہے اور قرآن کا یہی کام ہے کہ وہ انسانیت کو
سعادت سے ہمکنار کرے، اگر یہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو تم نے اپنے دل کے
اندر جو ہلچل اور اس کی طرف میلان محسوس کیا وہ نہ ہوتا۔ چونکہ تمہارے اندر
اللہ کی روح ہے، اور یہ قرآن اُس اللہ کی طرف سے اترا ہوا ہے جس نے تمہارے
اندر موجود روح کو پیدا کیا ہے اس لئے تم نے اس کے اندر کشش محسوس کی۔ وہ
عورت اللہ کے وجود کا ہی قائل نہ تھی لیکن ہم ہوائی جہاز سے اترے تو اس طرح
کہ وہ یہ کہہ رہی تھی : : أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله،
میں نے اس سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ مہربانی فرما کر آپ "هيتھرو" ایر پورٹ
پر کچھ منٹوں کے لئے رکیں تاکہ میں آپ کے لئے کچھ کتابیں اور قرآنِ کریم کا
انگریزی ترجمہ خرید لاؤں۔ تو اس خاتون نے مجھ سے کہا: شکریہ، آپ نے اپنی
ذمہ داری پوری کردی، اب یہ میری ذمہ داری ہے، اگر قرآن کا پہلا نسخہ میں
اپنے پیسوں سے نہ خریدوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے نئے اسلام میں سچّی
نہیں ہوں۔ پھر اس نے میری پہلی بات دہرائی کہ یہ اللہ کا پیغام ہے میرے لئے
بھی اور سارے انسانوں کے لئے بھی تاکہ لوگ اس سے دنیا اور آخرت کی سعادت
حاصل کر سکیں، میرے لئے ضروری ہے کہ میں خود اس کی تلاش کروں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس لا مذہبی صورتِ حال ہے جس نے دین کو ریاست
سے الگ کر دیا ہے۔ اس لامذہبی نظام کا منہج یہ ہے کہ اللہ کا کام خلق ہے
اور امر﴿حکم﴾ ہمارا چلے گا۔ ہم زندگی کی گاڑی چلائیں گے۔ مزید یہ کہ قرآن،
انجیل، تورات جیسی کتابیں انفرادی عبادتوں کے لئے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی
حیثیت ایک انشورنس کمپنی کی طرح ہے، جب تک آپ کی کار ٹھیک ٹھاک چلتی رہے
گی، آپ کو انشورنس کمپنی کی ضرورت نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی کار کو حادثہ
پیش آجائے تو آپ انشورنس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ وہ آپ کے نقصان کی
تلافی کرے۔ ہم سیکولر نظام میں اپنے رب کا جو رول متعیّن کرتے ہیں وہ
انشورنس کمپنی کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ جب ہمیں کسی بات کا حکم دیتا ہے توہم
اس سے کہتے ہیں: آپ انتظار فرمائیں، ابھی ہم مشغول ہیں، ہمارے پاس بہت سی
ضروریات اور بہت سی مصروفیات ہیں۔ قرآن اس کے لئے نازل نہیں ہوا ہے۔
قرآن اس لئے اترا ہے کہ وہ انقلاب برپا کرے، جب ہم اللہ کا کلام سنتے ہیں
تو اپنے رویّہ پر نظر ڈالنا اور اُس پر غور و فکر کرنا نہایت ضروری ہے۔
ہمارے اوپر نہ جانے کتنے فرائض ہیں جن سے ہم پہلو تہی کرتے ہیں، اللہ کے
نزدیک ان کا جرم محرّمات کے ارتکاب سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ امر بالمعروف
اور نھی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دینا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔
حدیث میں ہے : "إذا ارتكبت المعصية في الأرض، كان من شهدها فأنكرها كمن غاب
عنها، ومن غاب عنها فرضيها، كان كمن فعلها" ﴿اگر زمین پر معصیت کا ارتکاب
ہو رہا ہو اور اس کو دیکھنے والا شخص اسے ناپسند کرے تو وہ ایسا ہے جیسے وہ
وہاں موجود ہی نہیں تھا لیکن اگر کوئی شخص وہاں موجود نہ ہو لیکن اُس معصیت
پر راضی ہو تو وہ ایسا ہے جیسے کہ وہ وہاں موجود تھا﴾۔
"كنتم خير أمة أخرجت للناس" ﴿تم بہترین امّت ہو جو لوگوں کے لئے برپا کی
گئی ہو﴾ آخر کیوں؟ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنكَرِ ﴿تم بھلائی کا حکم دیتی ہو اور بُرائی سے روکتی ہو﴾۔ ہم نے قرآن
کو کس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، قرآن ہمارے لئے متعدد امورو مسائل پیش کرتا
ہے اور ہمارا رویّہ اس کے متضاد ہوتا ہے۔
جب لارڈ کرومر مصر آیا تو اس نے کہا: میں تین چیزوں کو تباہ کرنے آیا ہوں:
1 ـ قرآن.
2ـ كعبة.
3ـ أزهر.
ان لوگوں نے 1881م سے 1906م تک اس کے لئے منصوبے تیّار کئے، ان کے منصوبے
ناکام ہوئے۔ ازھر سے کچھ فاصلے پر ان لوگوں نے ایک اجتماع منعقد کیا اور یہ
طئے کیا : قرآن پر پہلا حملہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم مسلمانوں کے دل و دماغ سے
عربی زبان کو نکال دیں، ہم عوامی زبان کی حوصلہ افزائی کریں، عربی زبان کے
اساتذہ کا مذاق اڑائیں۔ اور عربی زبان کو غیر لازمی مضمون کی حیثیت سے ہم
نصاب میں شامل کریں۔ ان کا یہ داؤ چل گیا۔
قرآن کی تلاوت تو ہوتی رہی پر اس پیغام کے جوہر سے لوگ بے خبر رہے۔ ہمارے
اور قرآن کے درمیان ایک حجاب قائم ہوگیا۔ عربی زبان کی صورتِ حال یہ ہے کہ
اس کے ماہرین اور اس کے اساتذہ کی کمی ہے۔ وہ احباب جو کمپیوٹر نہیں جانتے
روزگار کی تلاش کے لئے کمپیوٹر ٹریننگ کورسز میں شامل ہوتے ہیں۔ جو انگریزی
نہیں جانتے وہ انگریزی سیکھتے ہیں۔
قرآن پڑھنے والے کے اندر عربی زبان کا بھر پور احساس ضروری ہے، احساس کی یہ
قوت تاثیر اور انقلاب پیدا کرتی ہے۔ یہی حس فرد کو غور و فکر کے لئے آمادہ
کرتی ہے، عربی زبان فہمِ قرآن کے لئے آلہ ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں میں عربی زبان سے شغف پیدا کریں، اسکول
اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں اسے کہیں معمولی حیثیت دی گئی ہے پر یہ کافی
نہیں ہے، ہمارے نزدیک یہ انتہائی حسّاس اور زندہ مسئلہ ہے، عربی زبان ہماری
ایمانی شناخت کا حصّہ ہے جبکہ دوسری زبانیں ضرورت اور کاروبار میں استعمال،
یا نصاب کے لئے ہیں۔ اللہ شاہد ہے کہ جب میں نے محبّت اور شوق سے عربی زبان
کا مطالعہ کیا تو اس کے بعد میرے عقل و دل اور شعور و وجدان پر جس قدر قرآن
چھاگیا ، اِس سے پہلے ایسا کبھی بھی نہ تھا۔
عزیزانِ گرامی ! اگر ہم اچھی طرح عربی زبان کا مطالعہ نہ کریں تو ہمارے اور
قرآن کے درمیان ایک حجاب حائل رہے گا۔ یعنی قرآن کے راستے کی پہلی رکاوٹ
عربی زبان میں مہارت کی کمی ہے۔
دوسری رکاوٹ: قرآن سے کیفیتی تعلق کے بجائے کمیتی تعلق ہے، لوگ کہتے ہیں:
میں نے رمضان میں تین بار قرآنِ کریم ختم کیا، ہر ماہ میں ایک بار ختم کرتا
ہوں، یا کوئی کہتا ہے کہ میں ہر دو ہفتہ میں ایک بار ختم کرتا ہوں، یہ صحیح
ہے لیکن کیا اس تلاوت کے دوران آپ غور و فکر کے لئے ٹھہرتے ہیں، (ارْجِعِ
الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ ،یعنی بار بار نگاہ دوڑاؤ)، (أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ
الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا، یا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں
کرتے، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟ ).
اس میں سے سرے سے اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ انسان قرآن کو اس ارادہ سے
پڑھے کہ وہ جلد سورہ کے آخر تک پہونچ جائے یا پارہ کے اختتام تک پہونچ
جائے، آج کیفیت کے بجائے مقدار پر توجّہ ایک عام سی عادت بن گئی ہے۔
فرد کے نزدیک ایک عربی زبان ہی ناقابلِ توجّہ رہ جاتی ہے، قرآن سے اس کا
تعلق محض زبان سے اعادہ کی حد تک رہتا ہے یہ تعلق فکری تعلّق نہیں بنتا، دل
کی گہرائیوں میں یہ نہیں بستا۔ انسان اس وجہ سے قرآن پر تدبّر نہیں کرتا کہ
وہ تیزی کے ساتھ نکل جاتا ہے۔
میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جسے میں بھول نہیں سکتا۔ میں کناڈا میں
مونٹریال مسجد میں جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا، بعد میں عادت کے مطابق کچھ لوگ
سوالات کے لئے آئے۔ میں نے کئی لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیے۔ اس مسجد میں
بیشتر لوگ اہلِ مراکش تھے، یہ لوگ کافی جذباتی ہوتے ہیں، یہ لوگ جمعہ کے
خطبہ میں شدّت سے رو رہے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ سورہٴ کھف کی جن آیات پر
میں گفتگو کر رہا تھا ان کا میرے اوپر بھی کافی اثر تھا۔ ایک شخص جو کنارے
تھا، میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ سے میری ایک گزارش ہے،
کیا آپ میری مدد کریں گے، میں نے کہا کہ اگر میرے بس میں ہوا تو میں بالکل
حاضر ہوں۔ اس نے کہا: کیا آپ ہمیں غوطہ لگانا سکھائیں گے۔ غوطہ!! ہم لوگ
مسجد میں ہیں!! بھلا میں غوطہ لگانا کیسے سکھاؤں گا؟ کس طرح کی غوطہ خوری
سیکھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: قرآن میں غوطہ زن ہونا، جیسا ابھی آپ ہم سب کے
ساتھ ڈوب گئے تھے، میں نے کہا : میرے پاس ایک طریقہ ہے لیکن وہ ایک شرط پر
بتاؤں گا۔ اس نے کہا: شرط منظور ہے۔ میں نے کہا: شرط ہے کہ غوطہ بھی لگاؤ
اور "تقب" بھی کرو۔ وہ غوطہ تو سمجھ گیا لیکن "تقب" نہیں سمجھ سکا، اس لئے
کہ یہ مصری لفظ ہے۔ اس نے پوچھا "تقب" یعنی؟ میں نے کہا: یعنی غوطے بھی
لگاؤ اور نکلو بھی۔ قرآن میں غوطہ زن ہو جاؤ، گُہر لے کر نکلو، اور انسانوں
کے درمیان اسے بکھیر دو۔ اس غوطہ زنی میں تمہیں جو بھی ربّانی موتیاں اور
الٰہی انعامات ملیں وہ لوگوں میں لٹاؤ۔
میں نے یہ بھی کہا: نسخہ یہ ہے کہ نمازِ فجر اس طرح ادا کرو کہ تمہارا ذہن
کشاکشِ زندگی سے خالی، صاف ستھرا ہو۔ تین بنیادی اصولوں کے ساتھ قرآن کی
تلاوت کرو، عقل سے تدبّر کرو، قلب سے اثر لو، نفس کے اندر تبدیلی پیدا کرو،
تمہاری عقل، تمہارا شعور و وجدان دن میں جو پہلی چیز حاصل کرے گا وہ لعل و
گہر ہوں گے۔
یہ تین بنادی باتیں، بنیادی خزانے ہیں۔ ان چیزوں کے ساتھ اگر تم زندگی
گزاروتو دیکھو گے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت کسی مخصوص آیت کے پاس تمہارے دل
کی کیفیّت جدا ہوگی۔ دن کے باقی اوقات اُسی آیت کے سائے میں گزارو، اس سے
لَو لگاؤ۔
تم جس حال میں بھی رہو، ہروقت اس آیت کو اپنے عقل و دل پر، شعورو وجدان پر
طاری کرلو، اس پر عمل کرو ماہر غوطہ خور بن جاؤگے۔ اس کے بعد تمہارے سامنے
جن حکمتوں کے دروازے کھلیں انہیں لوگوں سے بیان کرو۔ اپنے گھر والوں سے،
اور اپنے بچّوں سےبیان کرو، مسجد میں اپنے بھائیوں کے سامنے بیان کرو۔ یعنی
ان موتیوں کو سمیٹنے کے لئے برتن تلاش کرو۔ ہفتہ وار حلقہٴ قرآن چلاؤ اور
صورتِ حال کچھ بھی ہو کسی بھی صورت میں اسے نہ چھوڑو۔ اس نصیحت پر عمل کرو
اس کے اثرات تمہارے سامنے آئیں گے۔ اس نے مجھ سے کہا جزاك الله خيرا اور
چلا گیا۔
میرے بھائٰیوں! یہ قرآن اپنے خزانے کے دروازے اس شخص کے لئے نہیں کھولتا جو
یوں ہی گزر جاتا ہے۔ امام حسن البناء شہید رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ
نے قرآن سے بڑے گہرے تعلّق سے نوازا تھا۔ ان کا قول ہے: یہ قرآن سمندر کی
طرح ہے۔ کچھ لوگ سطحِ سمندر تک جاتے ہیں، ہوا خوری کرتے ہیں اورواپس ہو
جاتے ہیں، کچھ لوگ پانی میں اپنا قدم ڈالتے ہیں، یہ لوگ کبھی وضوء بھی کر
لیتے ہیں، کوئی سمندر میں غسل کرتا ہے، کوئی صرف ساحل کے قریب ہی رہتا ہے
اور کوئی دور جاتا ہے۔
امام شہید رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: ہو سکتا ہے کہ ساحل کے کنارے رہنے والا
شخص پانی میں غسل کر کے ٹھنڈک حاصل کرے، کوئی چھوٹی مچھلی کا شکار کرتا ہے،
تو کوئی بڑی مچھلی کا، لیکن ایک ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو اس لئے غوطہ لگاتا
ہے کہ موتی اور گہر حاصل کرے۔ قرآن کے ساتھ سطحی زندگی گزارنے والے اور اس
کی گہرائی میں کھو جانے والے کے درمیان یہی فرق ہے۔ یہ آیات کے معانی میں
ڈوب جاتا ہے اور گوہرِ مراد لے کر واپس آتا ہے۔ جسے یہ گہر ملے وہ لوگوں
میں سب سے زیادہ مالدار ہے۔
عزیزو! ہر کسی پر یہ لازم ہے کہ قرآن سے اپنا رشتہ مضبوط رکھے، آپ میں سے
جو بھی اختصاص پیدا کرنا چاہتا ہے پہلے وہ قرآن میں اختصاص پیدا کرے۔ آپ کو
معلوم ہونا چاہئے کہ امّت کے بڑے بڑے سائنس داں اسی قرآن کے سہارے اٹھے۔
بہت سی وہ ایجادات جو اہلِ یورپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں، مسلمانوں کی دین
ہیں۔ ان ایجادات کو چرا کر غیر مسلموں کی طرف منسوب کیا گیا۔ یہ بارت صرف
مسلمان نہیں کہتے بلکہ بہت سے مغربی مفکّرین نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
مغربی مفکّرین یہ کہتے ہیں کہ فلاں قسّیس کی چوری سے ربع صدی پیشتر اس
ایجاد کے بارے میں مسلمانوں کے مدارس میں تعلیم دی جاتی تھی۔ دورانِ خون کا
موجد ابن نفیس تھا۔ یہ اور دوسرے لوگ قرآن کے سائے میں آگے بڑھے۔ اس لئے کہ
انہوں نے صرف اللہ کی ذات پر غورو فکر کے بجائے اللہ کی تخلیق پر غور کیا۔
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ
وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ
وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا
خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿آل
عمران 190-191﴾ ﴿ زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری
باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں، جو اٹھتے،
بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی
ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں، پروردگار! یہ
سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام
کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے﴾
غور کیجئے کہ اگر مسلمانوں کے پاس تھوڑا بھی شعور ہوتا تو یہ چاند پر سب سے
پہلے پہونچتے۔ (وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ) کیا ؟ (كُلَّ مَرْصَدٍ) ﴿ اور
ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو ﴾ لیکن روس کے لوگ وہاں پہونچے۔
کناڈا کے لوگ اس لئے رکے رہے کہ ان کے پاس مال نہ تھا اور نہ ہی سائنسداں
تھے لیکن ان کے پاس ارادہ تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے چاند پر پہونچنے
کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کا ارادہ کام آیا اور وہ پہونچ گئے۔
شیخ کشک کے بقول ہمارا حال یوں ہے: ہم قرآن پڑھتے ہیں، اور سنتے ہیں،پر
ہماری کیفیت ایسی ہوتی ہے گویا کہ کوئی نغمہ ہو، اس میں کیا کہا جارہا ہے
اس سے ہمیں سروکار نہیں ہوتا۔
یہ امّت قرآن پڑھتی اور اختصاص کا میدان دشمنوں کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔ میرے
لئے یہ شرم کی بات ہوگی کہ میں ایک مسلم ہوں، قرآن سے مجھے نسبت ہے، اور
کسی بھی میدان میں اختصاص پیدا کروں تو امتیازی مقام نہ حاصل کروں، یا اس
میدان میں پوری دنیا میں نمایاں شناخت بناؤں۔ صلیب، اور صنم کا پجاری اور
اپنی خواہشات کا بندہ مجھ سے سبقت لے جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں اللہ کا
بندہ ہوں، اللہ عز و جل کی آیات کی تلاوت کرتا ہوں، (إِنَّ الَّذِينَ
آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ
عملا ۔ رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم احسان کرنے
والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے) اور ہمارا عمل احسان ﴿کمالِ معیار﴾ سے
خالی رہے۔
ہمارے پاس اس قرآن میں فرد، خاندان، سماج، ریاست ، امّت اور پوری دنیا سب
کے لئے ایک مکمّل نظام ہے۔ انسان اگر عربی زبان کے آلہ سے لیس ہوکرعقل سے
تدبّرو تفکّر کرتے ہوئے اور قلب سے اثر لیتے ہوئے زندگی گزارے تب یہ نظام
اس کے لئے ثمر آور ہوگا۔ آپ جنّت سے متعلّق قرآن کی آیات پڑھیں تو آپ کا دل
اس موج کی طرح ہو جو ہلکی ہواؤں سے اٹکھیلیاں کرتی ہے، آپ کو اس کے اندر
ایک نفسِ مطمئنّہ نطر آئے۔ جب آپ سابقہ امّتوں کے عذاب کے بارے میں پڑھیں،
یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وعید سے گزریں تو آپ کا دل اس موج کی طرح ہونا
چاہئے جس میں تلاطم ہوتا ہے۔
میں جاحظ کی ایک عبارت پر اپنی گفتگو ختم کروں گا۔ جاحظ کا انتقال تقریباً
256ھ میں ہوا۔ وہ کہتا ہے: امّتِ مسلمہ کو نئی اٹھان کی ضرورت ہے، کیونکہ
اس کی عقل عوامی بن چکی ہے، اس کے اندر غلامانہ خوئی بس گئی ہے، یہ جانوروں
کے ریوڑ کی طرح پیچھے چلنے والی بن چکی ہے۔
جاحظ کہتا ہے: امّت کی عقل میں سطحیّت آگئی ہے، اس میں گہرائی باقی نہیں
رہی۔ دوسری با ت یہ کہ: اس کی طبعیت غلاموں کی سی ہوگئی ہے جو غلامی اور
پستی پر راضی رہتی ہے، اور ریوڑ کی طرح پیچھے چلنے والی کا مطلب یہ ہے کہ
ہمیں جو جدھر چاہتا ہے موڑتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ... مومنو اللہ اور
رسول کی اطاعت کرو)، اور اولو الٲمر منکم کی اطاعت اسی وقت ہے جب وہ اللہ
اور رسول کی اطاعت کریں۔ قرآن نے و وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ کہا تو اس
میں وَأَطِيعُواْ نہیں کہا، بلکہ کہا کہ (فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ
فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ
وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً) ﴿ پھر اگر
تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف
پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح
طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ﴾ اس کے بعد اللہ سبحانہ و
تعالیٰ فرماتا ہے : (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ
آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ
أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ، اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن
لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری
طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر
چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع
کریں)، طاغوت ہے خواہشِ نفسانی، رسوم و رواج، حالات کا دباؤ، اقتدار کا
خوف، یا امریکہ سے خوف زدہ حکومت کا دباؤ، (يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ
إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ
الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا، چاہتے یہ ہیں کہ اپنے
معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں
طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے
بہت دور لے جانا چاہتا ہے)، (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا
أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ
عَنكَ صُدُودًا، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے
نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری
طرف آنے سے کتراتے ہیں )
ہر معاملہ میں فیصلہ تو یہ ہے کہ (ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ
حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا، پھر جو کچھ تم فیصلہ
کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم
کر لیں)
یہ موضوع انتہائی تفصیل طلب ہے ، اس کے بہت سے ذیلی اجزاء ہیں، میں ان ہی
باتوں پر اکتفاء کروں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں آپ کی دعائیں لینے کے لئے آیا
ہوں، یہ امّید لے کر آیا ہوں کہ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں، قرآن اور آپ کے
درمیان جو حجاب ہے اسے دور کریں، عربی زبان کا مطالعہ کریں، عقل سے تدبّر،
قلب سے اثر پذیری، اور نفس کے اندر انقلاب کے اصول کی روشنی میں زندگی
گزاریں۔
وصلی اللهم على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا، وآخر دعوانا
أن الحمد لله رب العالمين.
____________
محترم ڈاکٹر صلاح سلطان کے آڈیو ریکارڈ سے قلمبند کیا گیا۔ |
|