اور میں مسلمان ہو گئی۔۔۔

ترجمہ :-مختار احمد فخروولکوی

کوِیتا سے نور فاطمہ تک۔۔۔

یہ ایک نو مسلم خاتون کی اپ بیتی یا روداد ہے جس کا گھرانا ہندو بنیاد پرست اور تعلّق مبیّنہ طور ہندو شدّت پسند تنظیم سے تھا ؛یہ ایک طرف دل خراش داستان ہے اور دوسری جانب سبق آموز و ایمان افزا بھی ہے؛اصل میں ایک انگریزی کالم نگاربنت ارشد ساہی نے اس خاتون کی تفصیلی گفتگوقلم بند کی ہے جوقارئین ِاردوکی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی انشا ءاللہ۔۔۔ اسی کے مدّنظر یہاں اسی کو اردو میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔جو کہ سوال وجواب یا مکالمہ کی شکل میں ہے۔

سوال:قبولِ اسلام سے پہلے اپکا نام کیا تھا؟
جواب :میرا نام کویتا تھا لیکن پیار سے مجھے پونم پکارا جاتا تھا
سوال :اور اپکا اسلامی نام کیا ہے؟
اسلام قبول کرنے کے بعد میرا نام نور فاطمہ رکھا گیا ہے
سوال:آپ کہاں پیدا ہوئیں اور اب آپکی عمر کیا ہے؟
جواب ممبئی میں پیدا ہوئی اور اسوقت میری عمر تیس سال ہے؛ لیکن میں اپنے اپکوپانچ سالہ کمسن سمجھتی ہوں؛کیونکہ اسلام کہ بارے میں میری معلومات پانچ سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے
سوال: کیا آپ اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہیں؟
جواب:ممبئی میں ابتدائی تعلیم کے بعد اعلی ٰتعلیم کیلیے جامعہ کیمریج (برتانیہ) چلی گئی جہاں سے سند حاصل کرنے کے بعد کئی کمپوٹرکورسس مکمّل کیے ؛لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں نے دنیاوی زندگی کیلیے بہت سی سندیں( ڈگریاں) اکھٹی کر لی؛لیکن اپنی بعد والی زندگی کے لیے کچھ نہ کر سکی؛اب میں چاہتی ہوں کے اسکے لیے بھی کچھ کروں۔۔
سوال:کیا اپ اپنی زندگی کے اہم پہلو پر ر وشنی ڈال سکتی ہیں؟
جواب:بنیادی طور پر میرا تعلق ہندوراجپوت گھرانہ سےٍ تھا اور میری ابتدائی تعلیم ایسے اسکول میں ہوئی تھی جہاںصرف راجپوت یا اعلیٰ ذات کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیںجو کہ ہمارے یہاں فخر اور امتیاز کی بات ہوتی تھی؛
سوال:آپ نے کہاں شادی کی تھی اور اپ کے کتنے بچے ہیں؟
جواب:میری شاد ی ممبئی میں ہی ہوئی تھی لیکن بعد میں شوہر کے ساتھ بحرین چلی آئی جہاں مجھے دو بیٹے ہوئے
سوال: تو پھرکیسے اپ اسلام میں داخل ہوئی؟
جواب:سب سے پہلے میں اللہ کا شکرادا کرتی ہوں جس نے مجھ پربڑا فضل کر کے گمراہی سے ہدایت کی طرف رہنمائی کی ہے؛جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ ::جس سے اللہ بھلائی کا ارادہ کرتاہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے::جس ماحول میں پلی بڑی وہ ایک ہندوبنیاد پرست گھرانہ تھا جنہیں مسلمانوں سے سخت نفرت تھی ؛اسلام کومیں نے شادی کے بعد ہی گلے لگایا تھا؛ لیکن بچپن سے ہی مجھے بت پرستی سے نفرت تھی یہاں تک کہ ایک بار میں نے اپنے گھر کے بت کو غسل خانہ تک پہنچا دیا تھا؛ اس پر میری والدہ سخت ناراض ہوئیں تھی؛لیکن اظہارحق کے طور پر میں نے کہاتھاکہ یہ بت جوخوداپنی حفاظت نہیں کر سکتا تو پھر ہماری کسطرح مددکر یگا؟ تو پھراس کی پوجا یا عبادت کرنااور مدد طلب کرنا ہی بیکا ر ہے؛یہ ہمیں کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی مدد پہنچا سکتے ہیں نتیجتاً مجھ پر گھر والوں کاعتاب ٹوٹا تھا؛اور ہمارے یہاں ایک رسم جاری تھی کہ جب کوئی نئی لڑکی بیاہ ہوتی اسے اپنے شوہر کے پیر دھو کر پینا پڑتا تھا؛ لیکن میں نے ایساکرنے سے انکار کر دیا تھا؛جسکی وجہ سے بھی شادی کے پہلے دن سے ہی مجھ کو سختیوں کا سامنا رہا؛اور جیسا کہ میں بتا چکی کہ اسکول میں ایک معلّمہ کی حیثییت سے جڑی تھی اور اُس وقت اپنی کار خود چلایا کرتی تھی اور قریب ہی اسلامی مرکز تھاجہاں میں نے سن رکھّا تھا کہ خدا یا خالق کہ بارے میں وہاں کچھ اور ہی بتاتے ہیں؛ اور وہاں مورتی پوجا وغیرہ نہیں ہوتی ؛مجھے یہ نظریہ اچھا لگااور میں وہاں جانے لگی؛ اسطرح کچھ ہی دنوں میں معلوم ہوا کہ جس خدا کی مسلمان عبادت کرتے ہیں وہ اللہ ہی ہے جوسارے جہانوں کا مالک اورربّ ہے۔
سوال: وہ کونسی شے تھی جو آپکے لیے جازبِِ نظر بنی؟
جواب: وہ نماز ہی تھی جو میری توجہ کا سبب بنی؛شروع میں مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ بھی ایک عبادت کا طریقہ ہے ؛تاہم اس حقیقت سے واقف تھی کہ ہر مسلمان ایسا ہی کرتا ہے مگرمیں نے اسے ایک طرح کی ورزش تصوّر کر لی تھی؛لیکن اسلامی مرکز جانے سے مجھے معلوم ہوا کہ اسے نماز کہتے ہیں۔اس دوران مجھے عجیب خواب انے شروع ہوئے؛جب بھی میں سو جاتی تو میرے سامنے ایک مربّع نما گھر یا کمرہ ہوتا ؛میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتی اور پہر سونے کی کوشش کرتی؛ لیکن پھر ایسا ہی معاملہ ہوتا؛بعد میں مجھے اس گھر کہ بارے میں بہت کچھ معلوم ہوا۔۔۔
سوال:آپ کہ اسلام کہ بارے میں گھر والوں کو کیسے معلوم ہوا؟
جواب: شادی کے بعد میں بحرین منتقل ہوئی تھی؛جہاں اسلام کو جاننے میں کافی مدد ملی؛ اوراسلامی ملک ہونے کی وجہ سے ہمارے اس پڑوس میں رہنے والے تقریباً سب مسلمان تھے؛اسلیے میری دوستی بھی ایک مسلمان لڑکی سے ہو گئی تھی ؛جو میرے پاس اتی تھی ؛اور اکثر میں اسکے پاس جایا کرتی تھی؛ لیکن ایک دن اس نے مجھے منع کر تے ہوئے کہا کہ ماہِ رمضان ہے اور انکی عبادت میں خلل پڑ رہا ہے ؛چونکہ میرے اندر انکی عبادت کو دیکھنے اور اس معاملے میں جانّے کا اشتیاق کافی بڑھ چکا تھا اسلیے مجھے کافی دکھ ہوا اور منت سماجت کرنے لگی؛ تو میری سہلی مجھے اس شرط پر اجازت دے دی کہ میںخاموش رہوں؛(یعنی بات وغیرہ )اور اسطرح میرا یہ سلسلہ جاری رہا؛لیکن ایک دن میں اپنی دوست سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا ورزش ہے جو اپ لوگ کرتے ہیں؛اور جو پڑھتے ہیں کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ ورزش نہیں عبادت ہے؛ جسے نماز کہتے ہیںاور جو پڑھتے ہیں قرانِ کریم ہے جسے خالق ِ کائنات نے انسانوں کی ھدایت و رہنمائی کیلیے اتارا ہے؛مجھے یہ سب اچھا لگنے لگا اور طبیعت بھی اسی طرف مائل ہوئی اور آہستہ آہستہ میں بھی اپنی دوست کی نقل اتارنے لگی؛اور اپنے گھر جا کر بھی اپنا کمرہ بند کرکہ ایسا ہی کرنے لگی ؛لیکن ایک دن میں اپنے کمرے کو قفل کرنا بھول کر نماز کیلیے کھڑی ہو گئی کہ اچانک میرا شوہر آگیا؛اور مجھے اس حال میںدیکھ کر پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہی تھی؟میں نے کہا نماز پڑھ رہی تھی؛اُس نے کہا کہ کیا تمہارا دماغ ٹھکانے ہے؟ اور جانتی ہو کہ تم کیا کہہ رہی ہو؟شروع میں میں کافی خوفزدہ تھی اور مارے دہشت کے میری انکھوں میں اندھیرا سا چھا گیاتھا؛لیکن اچانک میرے اندرہمت کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی اور میں حالات کے مقابلہ کیلیے تیار ہو کر چِلّا کر کہا کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور میں نماز پڑھتی ہوں اس نے کہا کہ کیا تم پھر سے اپنا جملہ دھراسکتی ہو؟میں نے کہا ہاں ہاں میں مسلمان بن چکی ہوں؛اسپر وہ بھڑک کر تشدّد پر اُترا؛ بھیانک آوازیں سن کرمیری بہن بھی وہاںپہنچ گئی اور مجھے بچانے کی کوشش کرنے لگی ؛لیکن جب میرے شوہر نے اسے حقیقت بتائی تو وہ بھی اشتعال انگیزی اور تشدّد میں اسکے ساتھ ہو گئی؛ جب میںنے اس سے کہا کہ تم میرے بیچ میں مت آنا میں جان چکی ہوں؛ کیا صیح ہے اور کیا غلط؛ اور میرے لیے کیا بہتر ہے اسپر میرا شوہر غضبناک ہو کر مجھے بے دریغ پیٹنے لگا ؛اور میں ہوش وحواس کھو بیٹھی؛
سوال:جب یہ سب ہو رہا تھا تواُس وقت اپ کے بچے کہاں تھے؟اور انکی عمریں کیا تھی؛اور کسطرح وہاںسے نکلی؟
جواب: جب یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا تو بچے گھر پر ہی تھے ؛ اس وقت میرے بڑے بیٹے کی عمر(۹)نو سال اور چھوٹے کی اٹھ(۸) سال تھی ؛اوراس واقع کے بعد مجھے کسی سے ملنے نہیں دیا گیا؛ گھر پر نظر بندیعنی کمرے میں ہی محصور کر دی گئی؛حالانکہ اُس وقت میں نے باقاعدہ طور پر اسلام قبول نہیں کیا تھا؛بس میں صرف یہ جملہ کہا تھاکہ ::میںنے اسلام قبول کیا ہے::بس اس پر ہی مجھ پر ان کا غضب ٹوٹا تھا۔۔۔ایک رات اچانک میرا بڑا لڑکا کمرہ میںداخل ہوااور مجھ سے لپیٹ کر رونے لگا؛اور کہنے لگا کہ؛؛ ماں تم جلدی یہاں سے چلی جاؤ یہ لوگ تمہیں مار ڈالیں گے ؛میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے؛ وہ سب مذہبی تہوار کی خاص نشت پرگئے ہوئے ہیں؛ میں اس کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ بیٹا ایسا کچھ نہیں ہوگا؛اور اگر میں چلی گئی تو پھر تم سے نہ مل پاؤنگی؛لیکن وہ رو تے ہوئے کہاکہ جب زندہ ہی نہیں رہوگی تو ہم کیسے مل پائیں گے؛ آپ چلی جاؤ ماں ماں گھر والے آپکو جان سے مارڈالیں گے؛ میںخود اپنا اور اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھونگا؛ وہ ایک ہی بات پر اڑے تھا؛کہ میں کسی طرح میں وہاں سے نکل جاؤں؛ لیکن میرا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا؛ان دو معصوم بچوں کو کیسے چھوڑ کر چلی جاتی ؛لیکن میرے بچے کی التجا اور اسرار پر اپنے سینے پر پتھّر رکھ کرمیں نے اخیرگھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا؛اور جوں ہی قدم بڑھا کر دروازے تک پہنچی ہی تھی تو میرے سامنے دل دہلانے والا منظر تھا؛ میرا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کوجگا رہا تھااور کہہ رہا تھا کہ بھائی اُٹھ جا ممّی جا رہی ہے ؛اور کیا معلوم ہم پھر کبھی ممّی سے مل سکیں گے یا نہیں؛اب میں اپنے سارے جسمانی زخم بھول چکی تھی اورمیرے سامنے کچھ عجیب ہی منظر تھا اسلیے میری قوتِ برداشت بھی جواب دے رہی تھی اور میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی؛ اب مجھے اپنا سب کچھ لٹتا ہو نظرآرہا تھاجب میرا چھوٹا لڑکا بھی انکھیں ملتے ہوئے آکر لپٹ گیااور روتے ہوئے پوچھا؛؛ماں؛؛ تم سچ مچ جارہی ہو میں نے اپنے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے بچے کو جدا کرتے ہوئے کہاکہ ہاں بیٹا لیکن ہم پھر ملیں گے۔۔۔ میں ماں کی ممتا کوبھی اپنے پپروں تلے کچل کر صرف اسلام کی محبّت میں اسلام کی پناہ کی تلاش میں اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے آہستہ آہستہ اگے بڑھ رہی تھی اور آخری بار جب مڑ کر دیکھا تو میرے سامنے دلخراش منظر تھاکہ میرے دونوں ننّھے دروازے پر سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہلا کر الوِداع کہ رہے تھے ؛چونکے اُس وقت تک بچے بھی حالات کوکچھ جان چکے تھے ؛اسی لیے میری راہ میں بچے رکاوٹ نہ بنے؛مجھے جب بھی یہ لمحے یاد آتے ہیں تو یہی منظر سامنے ہوتا ہے اور میں رو پڑتی ہوں۔۔اور سوچتی ہوں کہ اسلام کیلیے مسلمانوں کے پاس سب کچھ ہے مگر۔۔۔۔۔۔
سوال:اس واقعے کے بعد آ پ کہاں گئیںاور کہاں جا کر اسلام قبول کیا؟
جواب: گھر سے نکل کر سیدھا پولیس تھانے پہنچ گئی وہاں پہنچنے کہ بعد میری پہلی مشکل یہ تھی کہ وہ میری زبان نہیں سمجھ پا رہے تھے؛لیکن ان میں ایک افسر میری زباں سمجھ رہا تھا؛ میں پریشان حال ؛زخموں سے چُور تھی اور بات کرنے کی سکت بھی باقی نہیں تھی؛ اسلیے میں نے اس پولیس افسر سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت چاہیے تا کہ کچھ سستا کر اپنے کو سنبھالا دے سکوں؛تھوڑے وقفے کہ بعد میں نے اپنے کو قابو میں کر لیا اور پولیس افسر سے اپنی آپ بیتی سنائی اور اپنا ارادہ و عزم کو بھی ظاہر کیا؛اس نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے ؛اور جہاں تک ممکن ہو سکے گا مدد بہم پہنچائے گا؛اس یقین دھانی کہ بعد وہ رحم دل انسان مجھے بہن بنا کر اپنے گھر لے گیا اپنے اہلَ خانہ سے ملاکر پناہ دے دی؛ میں اس پولیس افسر کے احسان کو کبھی نہ بھول سکوں گی کیونکہ وہ بھیانک رات میں سب کچھ چھوڑ کر ؛ بے یار و مددگار یہاں پہنچی تھی تو اس نے نہ صرف دلاسہ دیا بلکہ ہمّت افزائی بھی کی ؛اوراپنے گھر میں ہی پناہ دی؛دوسرے دن میرا شوہر بھی پولیس تھانے پہنچ گیا اور یہ کہہ کر مدد حاصل کرنی چاہی کہ اسکی بیوی کا اغوا کیا گیا ہے ؛لیکن اسے بتا دیا گیا کہ اسکی بیوی کو اغوا وغیرہ نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ وہ بذاتِ خود یہاں تھانے پہنچی ہے؛اور اسلام قبول کرنا چاہتی ہے؛ مگر وہ کسی طرح مجھے واپس لے جانا چاہتا تھا ؛لیکن میں نے کھل کر کہا کے اسلام کے بعد تیرا میرا کوئی رشتہ نہیں رہا ؛تو وہ ڈرانے دھمکانے لگا؛ تو میں نے کہا میرے پاس جو کچھ بھی ہے سونا وغیرہ۔۔۔ لکھ کر میری دستخط لے کر واپس چلا جا ؛شروع میں وہ راضی نہیں ہوا؛لیکن میرے سخت رویے کو دیکھتے ہوئے ایک دستاویز تیار کر کے میری دستخط لے کر چلا گیا۔۔اسکے بعد پولیس افسر نے مجھ سے کہاکہ اب تمہاری راہ کی ساری روکاوٹیں ہٹ چکی ہیں ؛ گھر والے بھی پریشان نہیں کر پائیں گے؛ اسلیے اب آسانی سے اسلام کی پناہ میں رہ سکتی ہو؛ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا؛اور سب سے پہلے دواخانے کا رخ کیا ؛کیونکہ میں زخموں سے چُور تھی اُن ظالموں نے جو ستم مجھ پر ڈھائے تھے وہ ناقابلِ بیان ہے ؛اسلیے میری حالت ٹھیک نہیں تھی؛ جس کی وجہ سے کئی روز وہا ں دواخانہ میں رہنا پڑا؛ اب میرا کوئی نہیں تھا نہ گھر نہ گھروالے۔۔۔ یہاں تک کہ ایک دن ڈاکٹر نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئی ہیں اور آپ کے کوئی گھر والے وغیرہ کیوں نہیں آئے؟ اس پر میں خاموش رہی ؛لیکن اپنے مستقبل پر سوچ کر کافی پریشان تھی؛بہرحال کسی طرح وہاں سے رخصتی ملی؛ تو سب سے پہلے اپنے اصلی مقصداور منزل کو پانے کیلیے اسلامی مرکز کا رُخ کیا؛لیکن جس وقت وہاں پہنچی تو وہاں کوٰئی موجود نہیں تھا؛مگر ایک حضرت بیٹھے ہوئے ملے؛ تو ان سے بات کرنی چاہی تو وہ کترانے لگے؛لیکن میں نے ان سے مجبورًاپنے حالات بیان کرنے شروع کر دیے اوراپنا ارادہ بھی ظاہر کیا؛تو وہ بیٹی کہہ کرمجھ سے مخاطب ہوئے اورصبر کی تلقین کی اوراسلام کے بارے میں سمجھایا اور کچھ ضروری ہدایت دے کر رخصت کیا؛ دوبارہ جب وہاں پہنچی تو انہوں نے مجھے وضو کرایا اوراپنے احباب سمیت اندر کمرے میں لے گئے جوں ہی کمرے میں داخل ہوئی تو میں پھر حیران ہوئی اور میری چیح نکل گئی؛ کیونکہ میرے سامنے پھر وہی مربع نما کمرہ (گھر)تھا جودیوار پرآویزاں تھا ؛جسے میں بار بار خواب میں دیکھ کر اُٹھ بیٹھتی تھی اسپر وہ مسکرا کر اس گھر کر کے بارے تفصلی طور پر بتایااور کہا کہ یہی اللہ کا گھریا بیت اللہ ہے جو مکہ میں ہے اور دنیا بھرکے مسلمان اسی گھر کا حج و عمرہ کرتے ہیں؛ بعد اس کے کلمہ شہادت بھی پڑھایااور بیٹی بنا کر اپنے گھر لے گئے؛اب میں باقاعدہ اسلام کو گلے لگا چکی تھی اور اپنے آپ کو محفوظ تصوّر کر رہی تھی؛ میری سب بے چینی ختم ہو گئی ؛اور ایک طرح کا دلی سکون خوشی محصوص کر کے بالکل ایک نئی دنیا میں پرواز کر رہی تھی؛ جسے میں بیان نہیں کر سکتی ؛ایسا محسوس ہونے لگا کہ سب کچھ لٹا نے کے بعد ایک بہت بڑی دولت کو پانے میں کامیا ب ہوئی ہوں؛ کچھ عرصہ بعد ا نہوں نے میری شادی بھی مسلم گھرانے سے ہی کرا دی اب میری پہلی خواہش ہے کہ اللہ کہ گھر کی زیارت کروں اور عمرہ کروں۔
سوال: اسلام لانے کے بعد کیا کبھی ہندوستان گئی تھی؟
جواب:نہیں گئی اور نہ ہی جانا چاہتی ہوں؛وہاں میرے گھرانے کا تعلق سیاست دیگر مذہبی تنظیموں سے ہے اور انہوں نے میرے لیے بڑی رقم کابھی اعلان کر رکھّا ہے؛ اب میں مسلماں ہوں ؛مسلمان کی بیٹی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے ؛اور میں چاہتی ہوں اپنی بقیہ زندگی اسلام کی روشنی یا ہدایت پر گزاروں۔۔
سوال:قبولِ اسلام سے پہلے مجاہدین کے بارے میں آپکے کیا خیالات تھے ؟
جواب: ہمیں بتایا گیا تھا تھا کہ یہ لوگ بڑے ظالم ہیں اور ظلم کی ساری حدیںبھی توڑ چکے ہیں؛ لیکن حقیقت کو جاننے کے بعد میرے خیالات بدل چکے ہیں اب میرے دل میں انکے لیے محبت کا جذبہ ہے اورہر نماز کہ بعد ان کی کامیابی کیلیے دعائیں کرتی ہوں؛اوراگر اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا کیا تو میں اسے مجاہد بنا کر اسلام کی سر بلندی کیلیے وقف کر دونگی انشاءاللہ۔
ماخوذ
www.islamway.com اسلام وے ڈاٹ کوم
Mohammad Mukhtar Ahmed
About the Author: Mohammad Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mohammad Mukhtar Ahmed: 28 Articles with 37750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.