نیٹو حملے کی اصل ذمہ دار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان

چونسٹھ سال جمہوریت و آمریت کے سائے تلے پروان چڑھنے والا ارض پاکستان اپنے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہی تعلیم یافتہ، دیانت دار اور دوراندیش قیادت کے فقدان کے باعث آج اس نہج پر کھڑا ہے ۔ جہاں حکمراں ملک کو ترقی دینے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے اپنی مرضی کی پالیسیز تشکیل دینے کے بھی اہل نہیں ہیں ۔ کیونکہ کے ہر جمہوری حکومت کے سرپر فوج و استبلیشمنٹ کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے ۔

ہمارے منتخب حکمرانوں پر حلف اٹھانے کے بعد سے ہی یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں فوج ان کی حکومت معزول کرکے اقتدار پر قابض نہ ہو جائے ۔ اگر ماضی میں دیکھا جائے تو جب بھی کسی آمر نے جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار حاصل کیا تو امریکہ کا واحد ملک ہوتا تھا جو آمریت کی ایک طرف مخالفت کرتا لیکن دوسری جانب مختلف حیلوں بہانوں سے ان فوجی حکومتوں کے اقتدار کو اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے طول بھی دیتا رہتا تھا۔

درحقیقت قیام پاکستان کے بعد سے ہی وطن عزیز کو لاتعداد مسائل کا سامنا تھا ۔ سب سے سنگین نوعیت کا مسئلہ ہندؤں ذہنیت کا تھا جنہوں نے کھلے دل سے کبھی پاکستان کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کو معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ۔ ایسے میں پاکستان کا امریکہ کی طرف ہاتھ بڑھانا فطری عمل تھا ۔ لیکن بد قسمتی سے تعلیمی و سیاسی قیادت کے فقدان کے باعث جنوبی ایشیا کے لیے پھیلائے گئے امریکی جال میں پاکستان اس قدر پھنس چکا ہے کہ اب اس جال سے آزادی کا تصور بھی محال ہے ۔

امریکہ نے ڈالروں کی بھر مار سے ہمارے حکمرانوں اور اسٹبلیشمنٹ کے گلے میں پٹہ ڈالا ہوا ہے اور بس وہ یہی چاہتا ہے کہ اس کے ہر حکم پر کتے کی طرح دم ہلائی جائے اور سر خم کیا جائے ۔ جیسے ماضی میں سابق جنرل مشرف کی وفاداری اور خدمات کے عوض امریکی جریدے نے جو پورٹریٹ شائع کیا جس میں دکھایا گیا کہ ایک کتا دوزانوں بیھٹا ہوا ہے جس کہ منہ میں کچھ دستاویز تھی اس کتے پر پاکستان کا نام پرنٹ تھا اور سابق امریکی صدر جارج بش کتے سے خوش ہوکر اس کو شاباش دے رہا تھا ۔

پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی حکمراں نے امریکی جا ل سے آزاد ہونے کی کوشش کی تو امریکہ نے اسے عبرت کا نشان بنادیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو سولی لٹکادیا گیا ، آمر ضیاالحق نے ذرا سا اختلاف کیا تو حادثے کا شکار ہوگیا، نوازشریف نہ صرف اقتدار سے معذول ہوا بلکہ ملک بدر بھی کردیا گیا، ایٹمی دھماکے پر بھارت نے اپنے سائنسداں ڈاکٹر عبدالسلام کو محب وطن قرار دے کر ملک کا صدر بنادیا جبکہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا اور انہیں غدار قرار دے پابند سلاسل کردیا گیا۔

امریکہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان اس کے کسی حکم کا انکار کرے ڈرونز حملوں پر حکمراں اور فوج کے احتجاج ریکارڈ پر ہیں ۔ لیکن امریکہ کو پرواہ نہیں ، ریمنڈ ڈیوس کی دہشت گردی پر ہماری حکومت کا کردار بھی سب کے سامنے ہے۔ سانحہ ایبٹ آباد کو فتح عظیم قرار دینا ۔ ہماری غیرت کے وہ کارنامہ ہیں جن کی بدولت امریکہ کو پاکستان کی سالمیت و خودمختاری کی زرا بھی پرواہ نہیں اور نہ ہی امریکہ کو ہمارے حکمرانوں اور فوج سے کوئی ڈر اور خطرہ ہے۔ امریکی انتظامیہ نے واشگاف الفاظ میں ہمیں متنبہ کرچکا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو قلع قمع کرنے کے لیے پاکستان کی حدود کے اندر فوجی کاروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔

امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حکمراں اور اسٹبلیشمنٹ نے ہزاروں معصوم افراد کی بھینٹ دے چکے ہیں ۔ لیکن امریکہ کا رویہ روز بروز تبدیل ہوتا جارہا ہے پہلے ودھونس دھمکی دے کر اپنے احکامات منواتا تھا لیکن اب وہ طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے ہمیں واضح پیغام دے رہا ہے کہ اگر اس کے احکامات کو من وعن تسلیم نہیں کیا گیا اور ان کے خلاف جنے کی کو شش کی گئی تو اس کے سخت نتائج بھگتنے ہونگے۔ جس کی واضح مثال ٢٦ نومبر ٢٠١١ ء کو جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب افغان سرحد کے نزدیک پاکستانی قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں پاک فوج کی دو چیک پوسٹ پر نیٹو افواج کی اندھادھند فائرنگ جس کے نتیجے میں دو افسروں سمیت ٢٤ جوان شھید ہوئے ۔ جن کے ناحق قتل کی تمام تر ذمہ داری وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان پر جاتی ہے ۔ جنہوں نے ٢٥ نومبر کی سہ پہر اپنی پریس کانفرنس میں امریکہ کی شان میں تمام آداب و امور اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھ کر پاکستان کی جمہوری و خودمختاری کے حوالے چند جملے ارشاد فرمائے تھے کہ “ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر امریکہ کی ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی “

پاکستان کا ہر ذی شعور شخص اس بات سے باخبر ہے کہ امریکہ پاک ایران گیس لائن معاہدے کے سخت مخالف رہا ہے اور ہر پلیٹ فارم پر اس نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ وہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو ختم کرکے ترکمانستان کے معاہدہ کرے ۔ امریکی ایماء پر پاکستان ترکمانستان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرچکا ہے ۔ لیکن ٢٥ نومبر کو عاشق اعوان کا امریکی ڈکٹیشن قبول نہ کرنے کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان میں متعین امریکی سفیر کیمرون منٹر نے پاکستان پر واضح کر دیا کہ امریکہ کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر امریکہ کو سخت تشویش ہے اور یہ امریکہ کو قابل قبول نہیں ۔ کیمرون منٹر کے بیان پر پاکستانی حکام نے کسی بھی قسم کا نوٹس نہیں لیا جس پر امریکی انتظامیہ نے مشتعل ہوکر پاکستان کو طاقت کے زریعے سبق سیکھانے کا فیصلہ کیا اور اسی رات نیٹو کے جنگی ہیلی کاپٹروں پاکستان پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ پاکستان نے اگر امریکی احکامات کی حکم عدولی کی تو اس کو پوری دنیا کے لیے عبرت کا نشاں بنادیا جائے گا۔

کیا ہمارے حکمرانوں میں اب پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتے پر دستخط کرنے کی اخلاقی جرات ہے ؟ اگر نہیں تو جوانوں کا خوں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے سرپر ہے ۔
abad ali
About the Author: abad ali Read More Articles by abad ali: 38 Articles with 37414 views I have been working with Electronic Media of Pakistan in different capacities during my professional career and associated with country’s reputed medi.. View More