آقا ﷺ کا فرمان ہے ”اللہ غیرت
مند ہے اور غیرت مندوں کو پسند کرتا ہے “ نانا کے کندھوں پر سواری کرنے
والے حسین ؓکو نانا کا یہ فرمان یاد تھا ، اچھّی طرح یاد تھا پھر یہ کیسے
ممکن تھا کہ خلافت کو ملوکیت میں ڈھالنے کی کوشش کرنے والے امیر معاویہؓ کے
فیصلے کو وہ درست مان لیتے۔ امیر معاویہؓ نے اپنی زندگی میں یزید کی خلافت
کااعلان کیا اور حضرت امام حسینؓ نے بیعت سے انکار کر دیا ۔آپؓ کو نانا کے
دین سے سرِ مُو انحراف بھی گوارہ نہ تھا۔انہوں نے یزیدیت کے خلاف جہاد کیا
اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ دس ہزار یزیدیوں کے سامنے صرف بہتر افراد کا کنبہ
کچھ حیثیت نہیں رکھتا ، سر کٹوانا پسند کیا ،سر جھُکانا نہیں۔موت تو برحق
ہے ،وہ آنی ہی آنی ہے لیکن شہید کی موت ۔۔۔۔۔ وہ موت ہے جس پر خود حکمِ
ربّی ہے کہ ”شہید کو مُردہ مت کہو ، وہ زندہ ہے اور اپنے ربّ کے ہاں سے
خوراک حاصل کر رہا ہے ۔پھر شہید بھی حسینؓ جیسا کہ جس نے آبروئے دینِ محمدﷺکی
خاطر سر کٹوانے میں ایک لمحے کی ہچکچاہٹ بھی نہیں دکھائی،اُس شہادت پہ ہزار
شہادتیں قُربان کہ جس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر تا قیامت نانا کے دین کی
آبرو رکھ لی ۔سچ کہا گیا کہ : ۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں لکھاتھا کہ ”ہم مظلوم
قوم ہیں“۔۔۔۔ ڈاکٹر کے تبحرِ علمی سے انکار ممکن ہی نہیں پھر بھی دست بستہ
عرض ہے کہ مظلوم تو وہ ہوتا ہے جو چُپ چاپ ظُلم سہتا ہے کیونکہ اُس میں
مقابلہ کرنے کی مطلق سکت نہیں ہوتی ۔ہمارے پاس تو دُنیا کی چھٹی بہترین فوج
، جدید ترین سامانِ حرب ، ایٹمی قوت ، ٹھیک ٹھاک نشانے لگانے والے ایٹمی
میزائل اور شوقِ شہادت سے معمور جرّی جوان ہیں ۔ہم ہزاروں میل دور بیٹھے
امریکہ تک نہ پہنچ سکتے سہی لیکن جس طوطے میں امریکہ کی جان ہے ، وہ تو
ہمارے ایٹمی میزائیلوں کی زد میں ہے ۔کیا تل ابیب کے لئے ایک ہی ایٹمی
میزائل کافی نہیں ؟ ۔محترم ڈاکٹر عبد القدیر خاں متعدد بار کہہ چُکے ہیں کہ
ہندوستان کا ایک ایک شہر ہماری ایٹمی پہنچ میں ہے ۔مانا کہ واشنگٹن اور نیو
یارک بہت دور ہیں لیکن امریکہ تو اپنے تمام تر سامانِ حرب ، افواج ، اور
بحری بیڑوں کے ساتھ عراق، افغانستان ، کویت اور پورے گلف میں موجود ہے۔ کیا
یہ سارے مقامات ہمارے میزائیلوں کی زد میں نہیں؟۔۔۔۔ تسلیم کہ جنگ کسی بھی
لحاظ سے درست نہیں ہوا کرتی اور عقلِ سلیم رکھنے والا کوئی بھی شحص کبھی
جنگی جنون میں مبتلا نہیں ہوا کرتا ۔لیکن اگر جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر ؟
کیا طارق بن زیاد کی طرح سفینے جلا کر لڑا جائے یا سسک سسک کر ذلت کی موت
گلے لگائی جائے ؟ ۔۔۔۔ کیا یزیدیت کے خلاف حسینیت درست ہے یا کُوفیت ؟ ۔۔۔۔
نہیں محترم ڈاکٹر صاحب ! نہ حسین علیہ اسلام مظلوم تھے نہ یہ قوم ۔ البتہ
حسینؓ جری تھے ، نڈر تھے ، بہادر تھے ، بے باک تھے ، سچائی کے علم بردار
اور حق کی خاطر کٹ مرنے والے تھے۔۔۔۔۔ لیکن ہم بزدل ، ڈرپوک ، اور بے حمیّت
قوم ہیں کیونکہ یہ ہمی ہیں جنہوں نے اپنی ووٹوں کے ذریعے اس ملک کی باگ ڈور
ایسے بز دل اور بے حمیّت لوگوں کے سپرد کی جو ایک امریکی دھمکی سے تھر تھر
کانپنے لگتے ہیں ۔ تحقیق کہ ہم نے اپنے جیسے لوگوں کا ہی انتخاب کرنا تھا
کہ
کُند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر ، با ز با با ز
آج بڑے بڑے سقّہ لکھاری اپنی ساری ”قلمی توانائیاں“ یہ ثابت کرنے میں صرف
کر رہے ہیں کہ ہم میں امریکہ یا بھارت سے لڑنے کی سکت نہیں ۔ بجا ارشاد
۔۔۔۔ تو پھر اتنی فوج ، سامانِ حرب ، ایٹمی میزائیل اور ایٹم بم بنا کر قوم
کو گھاس کھانے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے ۔؟ دست بستہ کچھ امریکہ کے
حوالے کر دیں اور کچھ بھارت کے تاکہ ہر گھر میں دو وقت کا کھانا تو پک سکے
۔ لیکن اتنا ضرور یاد رکھیئے گا کہ معمر قذافی کا زوال اُسی دن سے شروع
ہوگیا تھا جب اس نے اپنا ایٹمی پروگرام ٹھپ کرکے سب کچھ جہازوں میں بھر کے
امریکہ کے حوالے کر دیا تھا ۔ اگر آپ کو بھی قذافی جیسے انجام کا شوق ہے تو
بسم اللہ اور اگر عزت کی زندگی درکار ہے تو پھر یا د رکھیئے کہ ویت نام سے
افغانستان تک امریکہ نے جب بھی پنجہ آزمائی کی اُسے سوائے ذلتوں کے کچھ نہ
ملا۔سامنے کی بات ہے کہ نہتے افغانی طالبان کے پا س نہ کوئی لڑاکا طیارہ ہے
نہ میزائیل ، نہ کوئی آب دوز ہے نہ بحری جہاز، نہ ٹینک ہے نہ توپ اور ایٹم
بم تو رہا دور کی بات اُن کے پاس تو کوئی سادہ بم بھی نہیں لیکن پھر بھی
انہوں نے امریکہ اور اس کے حواریوں کو نہ صرف بھاگنے پر مجبور کر دیا بلکہ
امریکہ کو دنیا کا مقروض ترین ملک بنا کر اُس کی معشیت کو برباد کر دیا۔ آج
امریکہ 65 1 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہو کر طالبان سے جان چھڑانا چاہتا ہے ۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہوا ۔؟ سادہ اور سیدھا جواب
ہے کہ افغان غیرت مند تھا ، بے غیرت نہیں ۔ وہ کٹ تو سکتا ہے مگر جھُک نہیں
سکتا ۔ لیکن ہمیں زندگی سے پیار ہے ، ہم اسے بہت سینت سنبھال اور بچا بچا
کے رکھ رہے ہیں حالانکہ یہ ایسی متاع ہے جسے پایانِ کار لُٹنا ہی لُٹنا ہے
۔ البتہ یہ طے کرنا باقی ہے کہ ہمارے نصیب میں عزّت کی موت ہے یا ذلّت کی
۔۔۔ |