میں نے اسلام کیوں قبول کیا

حلیمہ سعدیہ
میں جنوبی دہلی کے ایک ہندو سینی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے والد ڈی، ڈی، اے میں چیف اکاﺅنٹینٹ ہیں۔ میرے تین بھائی ہیں۔ تینوں اعلیٰ پوسٹوں پر الگ الگ منسٹریوں میں افسر ہیں۔ میں نے انگریزی میں ایم اے اور ماس کمیونی کیشن میں ڈپلومہ کیا ہے۔ میں بھی ملک کی ایک اہم وزارت میں سیکرٹری کی پوسٹ پر کام کرتی ہوں۔ میں نے اپنے لیے اسلامی نام حلیمہ سعدیہ تجویز کیا ہے، اگرچہ مجھے اس نام سے بہت کم لوگ یاد کرتے ہیں۔

حکومتِ ہند نے اپنے ملازمین کو غیرملکی زبانیں سکھانے کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا تھا، جس میں دفتر کی طرف سے مجھے عربی زبان سیکھنے کے لیے بھیجا گیا۔ عربی سکھانے والے اکثر مسلمان اساتذہ تھے۔ انہوں نے عربی کے ساتھ اردو بھی سکھانی شروع کی۔ ہمارے والد صاحب اچھی اردو جانتے ہیں اور بہت اچھی اردو بولتے ہیں، اس لیے مجھے اردو سیکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ہمارے اساتذہ میں ایک استاذ ڈاکٹر محسن عثمانی صاحب تھے۔ انہوں نے تمام اسٹوڈنٹس کو عربی پڑھانے کے ساتھ ساتھ اسلام کا تعارف بھی کرایا اور تھوڑی سی عربی کی شد بد ہوجانے کے بعد ہمیں قرآنِ حکیم سے عربی پڑھوانے لگے۔ ڈاکٹر محسن عثمانی صاحب جو اس وقت دہلی یونی ورسٹی میں پروفیسر تھے، انہوں نے ہم سبھی عربی پڑھنے والوں کو ہندی اور انگریزی میں اسلام پر لٹریچر فراہم کیا۔ شیخ محمد کلیم صدیقی کی کتاب ”آپ کی امانت“ بھی لاکر دی۔ واقعی وہ درد کی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد میری قرآن شریف سے دلچسپی بڑھ گئی اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میں نے ڈاکٹر صاحب کو خوشخبری دی کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا۔ اس کے بعد میں اسلام کی معلومات اور نماز وغیرہ سیکھنے کے لیے مرکز نظام الدین جانے لگی، جہاں پر جنوبی ہندوستان کے ایک عالم دین کے گھر جاکر میں نماز وغیرہ یاد کرتی اور بھی چند مسلمانوں سے میرے تعلقات ہوگئے تھے، ان کے گھر پر میرا آنا جانا ہوگیا۔

میری زندگی کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ میں نے قرآنِ حکیم عربی سیکھنے کے لیے ایک کتاب سمجھ کر پڑھا۔ یہ تو قرآنِ کریم کا احسان ہے کہ اس سے مجھے اللہ تعالیٰ اور اپنے مالک کی پہچان تو ہوگئی اور ظاہری طور پر مجھے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کی بھی توفیق ہوگئی، مگر قرآنِ پاک کی باتوں پر جو یقین ہونا چاہئے تھا اور مرنے کے بعد دوزخ کی آگ اور گناہوں کی سزا پر جو ڈر ہونا چاہئے تھا، وہ بالکل نہیں ہوا۔ میں کلمہ پڑھتی ہوں اور اس خیال سے پڑھتی ہوں کہ شاید پڑھتے پڑھتے اندر اتر جائے، مگر مجھے صاف محسوس ہوتا ہے کہ لاالہ الا اللہ میرے گلے سے نیچے نہیں اترتا، جیسے صرف زبان سے ہی مسلمان ہوں، دل سے مسلمان نہ ہوں۔ مجھے دیوتاﺅں اور بتوں کی پوجا تو بڑی حیرت کی بات لگتی ہے، مگر لاالہ الا اللہ کہہ کر جس طرح ہر چیز کی نفی کی کیفیت اندر اترنی چاہئے، اس کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی میں اپنے اندر نہیں پاتی۔ نہ دوزخ کا خوف، نہ مرنے کے بعد حساب و کتاب کا ڈر، جیسا اس کا حق ہے، میں اپنے اندر نہیں پاتی، مثال کے طورپر میں مسلمان ہوں تو نماز میرے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کی ہے اور نماز نہ پڑھنے یا کم از کم قضا کرنے پر مرنے کے بعد کی سزا کی خبر پر مجھے ظاہری طور پر یقین ہے تو مجھے ہر حال میں نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا چاہئے، مگر میرا حال یہ ہے کہ میں دیکھتی رہتی ہوں کہ موقع ملے۔ ماں باپ، بہن بھائی سے چھپ کر نماز پڑھنے کا موقع مل جائے تو پڑھتی ہوں، اگر موقع نہ ملے تو کبھی کبھی قضا بھی ہوجاتی ہے۔ گویا گھر والوں کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف اور دوزخ کی آگ سے زیادہ ہے۔ یہ بھی کوئی ایمان ہے۔ میں نماز پڑھتی ہوں۔ آدمی نماز پڑھتا ہے، سجدے میں جاتا ہے، مجھے سجدے میں جانا بہت اچھا لگتا ہے اور شاید میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ سکون اور لذت سجدے میں محسوس کرتی ہوں، بلکہ میں سجدے کی حالت میں اپنے کو سب سے زیادہ اچھی بھی لگتی ہوں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ جس طرح سجدے کی حالت میں ہر انسان اس دنیا میں آیا ہے، اسی حالت میں میری موت آئے، مگر جس طرح انسان کو اپنی تمام تر کم زوریوں کے اعتراف کے ساتھ اپنے پورے وجود کو اپنے عظمت والے رب کے حضور بچھادینا چاہئے، اس طرح کا سجدہ مجھے آج تک ایک بار بھی نصیب نہیں ہوا۔ میں کبھی ساری ساری رات بے چین رہتی ہوں کہ اس حالت میں اگر موت آگئی تو یہ تو منافق کی موت ہوگی۔ یقولون بافواھھم مالیس فی قلوبھم(القرآن، آل عمران:۷۶۱) ”وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔“شاید یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

میرے گھریلو حالات ایسے نہیں کہ میری شادی کسی مسلمان سے ہو، اس لیے میں نے گھر والوں سے ابتدا ہی میں شادی کے لیے معذرت کرلی تھی، مگر اب مجھے حقیقی ایمان حاصل کرنے کے لیے اس طرف توجہ ہوگئی ہے۔ میں سوچتی ہوں کسی سچے مسلمان سے شادی کرلوں کہ اس کے ساتھ رہ کر مجھے حقیقی ایمان نصیب ہوجائے۔ مرکز نظام الدین کے ایک عالم صاحب سے میں نے کہا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک صاحب سے ملوایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے شادی کرنے کو تیار ہوں اور آپ پر کسی طرح کی ظاہری پابندی بھی نہ ہوگی۔ اگر آپ گھر والوں کو دکھانے کے لیے مندر جانا چاہیں گی، بلکہ آپ کہیں گی تو میں آپ کو مندر چھوڑ کر آیا کروں گا، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ یہ شخص جب خود آدھا ہندو بننے کو تیار ہے، تو مجھے ایمان کہاں سے آجائے گا، میں نے معذرت کرلی۔ میں صرف ایسے آدمی سے شادی کرنے کو سوچ سکتی ہوں جو مجھے اسلام کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر زبردستی عمل کرائے۔

میں نوکری چھوڑدوں گی۔ میں عورتوں کے لیے نوکری، روزگار کرنا بلکہ گھر سے باہر رہنا بوجھ سمجھتی ہوں۔ عورت بچے بھی پالے، گھر کا کام بھی کرے اور نوکری بھی کرے....؟ اللہ نے اس کا جسم کمزور بنایا ہے۔ اس کے لیے ملازمت بالکل غیرفطری ہے۔ میں پردے کو عورت کی بنیادی ضرورت سمجھتی ہوں۔ میں دفتر میں رہ کر تو غیرمسلم عورتوں کے لیے بھی پردے کو بڑی نعمت سمجھتی ہوں۔ عورت اگر بے پردہ رہے گی تو اس کو مردوں کی ہوس بھری نگاہوں کو سہنا پڑے گا۔ یہ عورت کے لیے بڑی ذلت اور شرمندگی کی بات ہے۔ ایک گائے گاڑی میں جُتنا پسند نہیں کرتی، نہ جانے عورتوں کو کیا ہوگیا ہے جانوروں سے بھی گئی گزری ہوگئیں۔

یوں تو اللہ کا کرم ہے جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں، بلکہ میں نے ظاہری طور پر کلمہ پڑھا ہے، اس روز سے قرآن شریف پڑھنے کے سلسلے میں ناغہ نہیں ہوا۔ اللہ کا شکر ہے عم کا پارہ مکمل، سورہ ملک، سورہ مزمل، سورہ رحمن، سورہ یٰسٓ اور سورہ الم سجدہ مجھے حفظ یاد ہیں۔ سوتے وقت سورہ ملک اور الم سجدہ اور صبح سویرے سورہ یٰسٓ شریف تو روزانہ پڑھتی ہوں۔ آدھی سورہ کہف بھی مجھے یاد ہوگئی ہے۔ انشاءاللہ جلدی پوری یاد ہوجائے گی۔ جمعہ کے روز سورہ کہف اور صلوٰة التسبیح بھی پڑھتی ہوں۔ کبھی کبھی میں جمعرات کے روزے بھی رکھتی ہوں، مگر بغیر ایمان کے اعمال کس کام کے؟ میں قرآنِ حکیم میں اعرابیوں(عرب دیہاتیوں) کا حال پڑھتی ہوں۔ قالت الاعراب آمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم وان تطیعوا اﷲ ورسولہ لا یلتکم من اعمالکم شیئا۔“(القرآن، الحجرات ۹۴:۴۱)
”دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔(اے نبی!) تم کہہ دو تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو، بلکہ کہو کہ ہم(ظاہری طور سے) اسلام لائے، اس لیے کہ ایمان تمہارے دلوں میں اب تک داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔“(ترجمہ آیت مذکورہ)

سچی بات یہ ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ آیت صرف میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، ورنہ ایمان کے ساتھ مکمل اطاعت ضروری ہے۔

میرا خیال ہے کہ مسلمان بہنیں اسلام کی نعمت کی قدر نہیں پہچانتیں۔ وہ بھی اس ننگی تہذیب کے زہر میں اپنا ذائقہ کھوبیٹھی ہیں۔ بعض مسلم محلوں میں جاکر پہچاننا مشکل ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا محلہ ہے۔ بے پردگی، بلکہ بے حیائی اور حد درجہ عریانیت فیشن کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اسلام سے پہلے کی عورتوں کے حالات اور تاریخ ضرور پڑھنی چاہئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس سے اسلام کا عورتوں پر احسانات کا احساس ہوگا اور دینِ فطرت کی کچھ قدر معلوم ہوگی۔(ماخوذ از ماہ نامہ ”ارمغان شاہ ولی اللہ“ پھلت، اپریل ۴۰۰۲ئ)
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174212 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More