رقص بسمل
یہ رقص قربان ہونے والے جانور ذبح ہوتے ہوئے حالت نزع میں کرتے ہیں۔ اس کے
اہم مواقع مندرجہ ذیل ہیں
١۔۔ جون کے مہینے میں بجٹ آنے سے پہلے اور بجٹ آنے کے بعد
٢۔۔ہر مہینے کی یکم اور پندرہ تاریخ کو اوگرا المعروف ویاگرا کی جانب سے
تیل پٹرولیم کی نئی قیمتوں کے اعلان کے بعد
٣۔۔سیاسی جلسوں کیلئے ویگنوں بسوں کی پکڑ دھکڑ کے بعد
٤۔۔پلسیے کے ہاتھوں چالان ہوتے وقت
ان خاص مواقع کے علاوہ تقریبا سال بھر اس رقص کی تقریبات جاری رہتی ہیں اور
عوام الناس ہر وقت اس میں مست رہتی ہے
تگنی کا ناچ
یہ وہ ناچ ہے جو حکومت عوام کو یا عوامی نمائندے منتخب ہونے کے بعد اپنے
حلقہ ء انتخاب کے لوگوں کو نچاتے ہیں ۔ اس ناچ میں ماہر کرنے کیلئے عوام کو
پہلے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ۔۔خوبصورت اور دلفریب وعدوں کے بعد اصل روپ
سامنے آنے پر عوام کا یہ ناچ امرا کی انتہائی پسندیدہ انٹر ٹینمنٹ ہے ۔
سیاست کے علاوہ یہ ناچ قومی ٹیموں کا بھی پسندیدہ ہے ۔۔ چنانچہ آئے دن کوئی
نہ کوئی ٹیم ہماری ہاکی ۔ کرکٹ ۔ فٹبال ٹیم کو تگنی کا ناچ نچاتی رہتی ہے۔
آجکل ہمارے مایہ ناز جواری نوجوانان عامر ۔ آصف برطانوی قانون کے ہاتھوں
اسی رقص میں مشغول ہیں اور ساری قوم دعا گو ہے کہ وہ تاحیات یہ ناچ کرتے
رہیں۔
آنگن ٹیڑھے والا ناچ
یہ ناچ عموماً نئی حکومتیں کرتی ہیں ۔ اس ناچ کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے
اور تھوڑا سا ناچ دکھا کر آنگن ٹیڑھا ہونے کا بہانہ کر دیا جاتا ہے ۔ بعض
اوقات تو ناچ کی نوبت ہی نہیں آتی بلکہ اس سے پہلے ہی وزیر مشیر آنگن میں
ٹیڑھا پن تلاش کر لیتے ہیں ۔
الیکشن سے پہلے کئے گئے جھوٹے وعدوں کی پردہ پوشی کیلئے سارا پلندہ سابق
حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ اور کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر یہ آنگن ذرا سیدھا
ہوتا تو پھر دیکھتے آپ ہمارا ناچ
ہماری قومی ٹیمیں بھی شکست در شکست کے بعد بجائے محنت کرنے ک سارا الزام پچ
یا ایمپائر پر ڈال کر یہے والا ناچ کرتی ہیں ۔
رادھا والا ناچ
اس ناچ کو دیکھنے کے لئے نو من تیل کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ یہ ناچ اکثر
ڈکٹیٹر ناچتے ہیں ۔ جب ان سے حکومت اور عوام کی جان چھوڑنے کا کہا جاتا ہے
تو انکا جواب ہوتا ہے کہ چونکہ ابھی ملکی حالات اور معیشت تباہی کے دھانے
پر کھڑی ہے لہذا ابھی نہیں ۔جیسے ہی حالت بہتر ہونگے ہم اقتدار سے اپنا
جونک پن ختم کر دیں گے ۔ اسی حالات کی بہتری کو نو من تیل کہتے ہیں۔
ویسے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر اب نو من تو کیا ایک چھٹانک تیل
لانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ رہا سوال سرسوں کے تیل کا تو وہ بھی
کونسا سستا ہے ۔ بجلی نہ ہونے سے ٹیوب ویل نہیں چلتے اور انکے نہ چلنے سے
پانی نہیں ہوتا اور نہ پانی ہو اور نہ سرسوں کی فصل ۔۔۔
نہری پانی ہم پہلے ہی سندھ طاس کے معاہدے میں بھارت کے حضور پیش کر چکے۔۔۔
اب جدید دور میں ہتھیلیوں پہ سرسوں اگانے یا جمانے کی کوشیں ہو رہی ہیں ۔
اگر ایسا ہو جائے تو شاید رادھا بی بی کو ناچنا ہی پڑے
اشاروں پہ ناچ
یہ ناچ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سپر پاورز کیلئے کرتے ہیں ۔اسی تناظر
میں وطن عزیز کی قریباً ہر حکومت امریکہ کے اشاروں پر ناچتی رہی ہے ۔۔ یہ
ناچ آنکھیں بند کر کے ڈگڈگی کی تھاپ پر کیا جائے تو سنا ہے امداد اور قرض
زیادہ ملنے کے علاوہ سوئس اکاؤنٹوں میں بھی بھاری بھرکم اضافے ہوتے ہیں ۔۔(
عام عوام پر جتنا مرضی ڈرون اٹیک ہوتے رہیں اور یہ گاجر مولی کی طرح ترکاری
بنتی رہے۔۔یہ ناچ بند نہیں ہوتا۔۔حال ہی میں حکومت نے یہ ناچ بند کرنے کی
تڑی لگائی ہے ۔الله کرے یہ پانی کی جھاگ نہ ہو اور بکرے کی ماں کو بھی خیر
نصیب ہو)
حکومتوں کے علاوہ یہ ناچ گھریلو سطح پر بھی خوب مقبول ہے ۔ کسی سیانے نے
کہا ہے کہ ٩٩٪ شوہر حضرات اپنی بیویوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں،باقی ایک
فیصد بھی ناچتے ہیں مگر ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔
یہ ناچ کرنے والے سیاسی اور غیر سیاسی رقاصوں کی عملی تحقیق سے ثابت ہوا ہے
کہ یہ ناچ کانوں میں روئی ٹھونس کر اور ضمیر کو پنگوڑے میں لوریاں دے دے کر
سلانے کے بعد غیرت کی حدوں سے کافی باہر جاکر کیا جائے تو مزہ دوبالا ہو
جاتا ہے اور اسکے بعد بقول ابوالاثر حفیظ جالندھری
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
زندگی سے لپٹ رہا ہوں ابھی
موت کیا ہے میری بلا جانے |