ہماری سیاست میں جب بھی کوئی
بُلندی پر جاتا ہے تو اُس کی شوبھا نِہارنے والوں کے سَر سے ٹوپی گرنے لگتی
ہے! ذرا سی شان کیا بڑھتی ہے، لوگ متعلقہ فرد کو اِنسانوں کے زُمرے سے نکال
کر جنگلی حیات کی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں۔ کوئی پنجاب کا شیر کہلاتا ہے،
کوئی بنگال کا۔ بنگال ٹائگر کی مناسبت سے بنگال کا شیر کہنا تو دُرست ہے
مگر پنجاب کا شیر سے کیا تعلق؟ پنجاب میں اور بھی بہت سے اور خاصے مفید
حیوانات پائے جاتے ہیں، کیا اُن میں سے کسی سے تشبیہ دیتے ہوئے شرم آتی ہے؟
خیر، عمران خان میدان میں اِس شان سے نکلے ہیں جیسے کوئی شیر شِکار کو
نکلتا ہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں اور اُنہیں
پنجہ اُٹھانے یا جبڑا کھولنے کی زحمت بھی نہیں دیتے، سَر جھکاکر اُن کے
ساتھ ہو لیتے ہیں!
ہماری سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ عمران خان کو پنجاب کا شیر قرار دیں یا
نہ دیں۔ ملک غلام مصطفٰی کھر خیر سے بقیدِ حیات ہیں۔ اُن کے ہوتے ہوئے کوئی
اور پنجاب کو جنگل اور خود کو اُس کا بادشاہ نہیں سمجھ سکتا۔ تو پھر کیا ہم
عمران خان کو میانوالی کا شیر سمجھیں؟ ہمارے ہاں سیاست دانوں کو شیر سے
تشبیہ دینے کا رواج ہے۔ پھر اگر وہ اقتدار میں آکر قومی وسائل کو بھنبھوڑنے
میں جُت جاتے ہیں تو حیرت اور افسوس کیوں؟
مرزا تفصیل بیگ کی عمران خان سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ اُن کے خلاف ایک
لفظ بھی سُننا پسند نہیں کرتے۔ ہمیں تو حیرت ہے کہ مرزا کوئی اخباری کالم
نگار تو ہیں نہیں۔ یعنی کوئی انڈر دی ٹیبل ڈیل تو ہوئی نہیں ہے، لِفافوں
وفافوں کی یقین دہانی تو کرائی نہیں گئی تو پھر ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کی طرز
پر اِس قدر حمایت کیوں؟ جب ہم یہ نکتہ پیش کرتے ہیں تو اپنے ہیرو کی پیروی
کرتے ہوئے مرزا ہَتّھے سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ ”تم جیسے لوگ تو چاہتے ہی نہیں
کہ اِس ملک میں کسی حقیقی تبدیلی کی رُونمائی ہو۔ انقلاب کی راہ میں دیوار
بن کر کھڑے ہو جاتے ہو۔“
ہم احتراماً عرض کرتے ہیں کہ مرزا! آپ سارے انڈے ایک باسکٹ میں نہ رکھیں۔
اور جب مرزا یہ بات سُن کر ہمارا منہ تکنے لگتے ہیں تب اُنہیں سارے انڈے
ایک ہی باسکٹ میں رکھنے کا مفہوم بھی سمجھانا پڑتا ہے! اور بات سمجھ میں
آنے پر وہ توانا ذہن (!) کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں ”خان صاحب کے لیے
ہماری حمایت کوئی انڈا نہیں کہ ٹوٹ یا سَڑ جائے۔“ ہمیں اُن کی رائے سے فوراً
اتفاق کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اِس بات کا احتمال
رہتا ہے کہ کہیں وہ کسی پتھر کو انڈا سمجھ کر ہمارے سَر پر نہ دے ماریں!
ابھی کل کی بات ہے، مرزا سویرے سویرے ہمارے گھر آ دھمکے۔ اُن کی آمد کو ہم
کسی ایسے لفظ ہی کے ذریعے بیان کرسکتے ہیں جس میں دھمکی کا تاثر شامل ہو!
خیر، آمد کا کوئی مقصد وہ اِس بار بھی بیان نہ کرسکے۔ ہمی نے پوچھا کہ
خیریت تو ہے، اِتنی صبح آنے کی کیا ضرورت تھی؟ بس، یہ سُننا تھا کہ بپھر
گئے۔ فرمایا ”دِن کے گیارہ بج چکے ہیں اور تم اِسے ’اِتنی صبح‘ قرار دے رہے
ہیں؟ ڈِھٹائی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ مگر خیر، وہ حد تم کیا جانو۔“
ہم نے عرض کیا کہ ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ مرزا جب بھی تشریف لاتے ہیں،
ہماری آنکھیں صرف کھلتی نہیں بلکہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں! اِس بار بھی
کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب اُن کا غصہ ذرا سا ماند پڑا تو ہم نے عرض کہ ہم ڈیوٹی
پر بھی جاتے ہیں اور صبح کے چار بجے واپسی کے بعد سوئیں گے تو ہماری ”علی
الصباح“ تو دن کے گیارہ بجے ہی ہوگی نا! شاید قبولیت کی گھڑی تھی اِس لیے
ہماری بات مرزا کی سمجھ میں آگئی! ہماری بات کو سمجھنے میں کامیابی کا سگنل
دینے کے لیے چند لمحوں تک دیدے مٹکانے کے بعد مرزا بولے ”اب ملک میں انقلاب
کی راہ روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اب تو نیا زمانہ آوے ای آوے“ ہم سمجھ
گئے کہ وہ رات کو کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں عمران خان کو دیکھ اور سُن
کر سوئے ہیں اور رات بھر انقلابی خواب ملاحظہ فرماتے رہے ہیں! ہمارا اندازہ
درست تھا کیونکہ مرزا نے بات کچھ یوں آگے بڑھائی ”رات ہم نے خواب میں دیکھا
کہ ملک میں انقلاب آ چکا ہے۔ اور اِس انقلاب کی قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں
ہے۔“ ہم نے اُنہیں یاد دلایا کہ انقلابی خواب کی رنگینیوں میں گم ہوکر وہ
عمران خان کا نام لینا بھول گئے ہیں! وہ ایک لمحے کے لیے چونکے اور چہرے سے
ہَوَنّق پن مٹاتے ہوئے کہنے لگے ”جب نوجوانوں کی، نئی نسل کی بات ہوتی ہے
تو ہمارا اشارہ خان صاحب کی طرف ہی ہوتا ہے۔ الگ سے اُن کا نام لینے کی
کوئی ضرورت نہیں۔“
عقیدت کا یہ عالم دیکھ کر ہم تو دنگ رہ گئے۔ ہمارے سیاست دانوں کا سب سے
بڑا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے پرستاروں کو جاں نثاروں اور خُدّام میں تبدیل
کردیتے ہیں۔ سیاست اور تبدیلی ایک طرف رہ جاتی ہے اور جاں نثاروں کی ٹولیاں
نعرے لگاتی پھرتی ہیں۔ ہمیں تو مرزا پر حیرت ہوئی ہے کہ اب اُن میں کسی بھی
اعتبار سے جوانی کی کوئی رَمق باقی نہیں رہی تو پھر خان صاحب کے معاملے میں
اِس قدر جذباتیت کیوں؟ اِس قدر ڈھلی ہوئی عمر میں
چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی!
کے فلسفے پر عمل کیوں؟ ایسی کون سی مجبوری آن پڑی ہے؟ ذرا سا غور کرنے پر
ہماری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مرزا ریٹائر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی کام
وام تو ہوتا ہی نہیں، ایسے ”آوے ای آوے“ اور ”جاوے ای جاوے“ کا راگ الاپنا
بھی وقت کو ٹھکانے لگانے کا اچھا طریقہ ہے! عمران خان کو اللہ سلامت رکھے
کہ اُنہوں نے بہت سے نوجوانوں ہی کو نہیں، مرزا جیسے بوڑھوں کو بھی کام پر
لگا رکھا ہے!
جب بھی عمران خان کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، مرزا کو آگ سی لگ
جاتی ہے۔ اُن کا بس نہیں چلتا، ورنہ ہمارا منہ نوچ لیں۔ ہماری ذہانت کا
درجہ کمال ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے مُنہ اور اُن کے ہاتھوں میں اچھا خاصا
فاصلہ ہمیشہ رکھتے ہیں! ایک دن ہم نے پوچھا ”مرزا! آپ کو یہ یقین کیوں ہے
کہ عمران خان ملک کی کایا پلٹ دیں گے؟“ مرزا نے ہماری معلومات میں اضافے کی
غرض سے فرمایا ”خان صاحب نے ہمیں کرکٹ کے کئی ٹورنامنٹ جتوائے۔ وہ قائدانہ
صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر موقع ملے گا تو ملک کو بھی کہیں سے کہیں پہنچا دیں
گے۔“
ہم نے عرض کیا مرزا! کرکٹ ٹیم کو چلانے اور قوم کی قیادت کرنے میں بہت فرق
ہے۔ قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے صرف ڈسپلن کام نہیں آتا، اور بھی بہت کچھ
کرنا پڑتا ہے۔ عملی زندگی دو چار گیندوں کا کھیل نہیں ہوتا کہ چند شاٹس
لگاؤاور میچ کا پانسا پلٹ دو۔“
مرزا نے جواباً فرمایا ”تم دیکھتے تو جاؤ۔ اِس قوم نے اگر خان صاحب کو
آزمایا تو ملک کا مقدر جاگ اُٹھے گا۔ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں آئے
ہیں۔ موقع ملنے کی دیر ہے، وہ چوکے اور چھکے برسانا شروع کردیں گے۔“
ہم نے عرض کیا ”بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان آئے نہیں، لائے گئے ہیں۔
اور جس موقع کو وہ اپنے لیے کسی نہ کسی طور حاصل کرنا چاہتے تھے اُس موقع
کو پلیٹ میں سجاکر اُن کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔“
”کیا مطلب؟“ مرزا نے بپھرنے کی ابتدائی کرتے ہوئے سوال داغا۔
ہم نے خود کو سمیٹ کر پیچھے کیا اور وضاحت کی کہ عمران خان ابھی سے مشکوک
ہوگئے ہیں۔ جو قوتیں خود دکھائی نہیں دیتیں اُن کا سایا عمران خان پر صاف
دکھائی دے رہا ہے! ایک جلسے میں کسی علاقائی لیڈر نے تحریک انصاف میں
شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ”لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم کسی ایجنسی کے
کہنے پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہم
اپنی خوشی سے تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں!“
یہ سُن کر مرزا آگ بگولہ ہوگئے۔ ”اب ایک لیڈر ملا ہے تو تم جیسے لوگ عوام
کے ذہنوں میں شُکوک کے بیج بونے پر تُل گئے ہیں۔ اِس لیے تو ہمارا ملک ترقی
نہیں کرتا۔“
اب مرزا کو یہ بات کون سمجھائے کہ پوری محنت کے بعد امتحان میں اچھی
کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اگلی جماعت میں جانے اور ”ترقی پاس“ ہونے میںبہت
فرق ہے! ہمیں ترقی دِلانے والے لیڈر درکار ہیں۔ ایسے لیڈر ہمارے کس کام کے
جو جلسوں کی کلاسوں میں ”ترقی پاس“ ہوکر اگلی کلاس میں پہنچائے جائیں!
مرزا سیاسی جذباتیت کے ہاتھوں اِس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ کشتی اور نورا
کشتی کے فرق کو نظر انداز کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انقلاب آتا ہے، لایا نہیں
جاتا۔ جب نادیدہ ہاتھ جگہ بناکر کچھ لانے کی کوشش کرتے ہیں تو کوئی حقیقی
تبدیلی نہیں آتی۔ ایسے میں کوئی تحریک ملتی ہے نہ انصاف۔ |