ایک شکوہ کناں کی کہانی‘ جس کا
کوئی راز داں نہیں تھا
پہلی جنگ عظیم جاری تھی۔ میرے بابا فوج میں تھے۔ انہیں اکثر وبیشتر محاذ پر
رہنا پڑتا تھا۔گھر آنے کی نوبت گاہے گاہے آتی تھی۔ جنگ کے زمانے میں انہیں
میں نے بہت کم دیکھا۔ کبھی کبھار دیکھا بھی تو اس طرح کہ سوتے سوتے میری
آنکھ کھل جاتی اور خاکی وردی والا والا ایک لمبا تڑنگا شخص مجھ پر جھکا ہوا
ہوتا۔ بابامجھے پیار کرنے کے لیے مجھ پر جھکتے تھے۔ ان کے آنے یا جانے کا
کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ کبھی کبھی وہ رات گئے آتے۔ ان کے فوجی بوٹ کی کھٹ
کھٹ سے میری آنکھ کھل جاتی یا کبھی کبھی ان کے آنے کی خبر مجھے صبح ہوتی۔
میں سو کر اٹھتا توبابا کو مما کے پلنگ پر سوتا ہوا دیکھتا۔ مما اس وقت
ناشتہ تیار کرنے کے لیے باورچی خانے میں ہوتیں۔ میرے بابا کا گھر آناجانا
ہمیشہ پراسرار رہا مگر ان کے آنے سے مجھے خوشی ہوتی تھی ، حالاں کہ مما کا
پلنگ خاصا بڑا تھا اور صبح سویرے میں اپنے کمرے سے نکل کر مما کے ساتھ لیٹ
جاتا تھالیکن ڈیڈی کے آنے کے بعد پلنگ کی گنجائش کم ہو جاتی تھی اور میں ان
دونوں کے درمیان پھنس کر رہ جاتا تھا۔بابا تمباکو نوشی کے عادی تھے۔ان کی
سانسوں سے تمباکو کے بھپکے اٹھتے تو میں پریشان ہو جاتا تھا۔ ان کے کھردرے
ہاتھ اور داڑھی کے نوکیلے بال بھی مجھے تنگ کرتے تھے لیکن ڈیڈی جب بھی آتے،
بہت ساری چیزیں لاتے۔ کھلونے، تمغے، گورکھا چاقو اور دوسرے تحائف۔ یہ سب
چیزیں میری کھلونوں کی الماری میں محفوظ ہو جاتیں۔
جنگ کا زمانہ میرے لیے بہت پرسکون تھا۔ میرے کمرے کی کھڑکی مشرق کی طرف
کھلتی تھی۔ مما نے کھڑکیوں پر دبیز پردے ڈال رکھے تھے لیکن میری آنکھ صبح
کی پہلی کرن کے ساتھ کھل جاتی تھی اور میں بستر سے بہت ہشّاش بشّاش اٹھتا
تھا۔ کچھ دیر تک میں ان کاموں کے متعلق سوچتا رہتا جو مجھے دن بھر میں کرنے
ہوتے۔ ہمارے ہاں کوئی ملازم نہیں تھالہٰذا مجھے مما کے کاموں میں ہاتھ
بٹانا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی یہ کام مجھے بہت ناگوار گزرتے تھے۔ پوری بلڈنگ
میں صرف ہمارے گھر میں کام کرنے والا کوئی لڑکا نہیں تھا۔ میں نے بارہا مما
سے نوکر رکھنے کے لیے ضد کی مگر مما کا کہنا تھا کہ نوکر کو تنخواہ دینے کے
لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دوسرے کاموں
کے لیے مما کے پاس پیسے کہاں سے آ جاتے تھے۔
مما میرے جاگنے کے بعد ہی بستر چھوڑتی تھیں۔ پھر وہ اٹھ کر ناشتہ تیار کرنے
لگتیں۔ ناشتے کے بعدہم ہمیشہ باباکے لیے دعا کرتے پھر سودا سلف لینے بازار
چلے جاتے۔ اگر سودا لینے کے بعد کچھ وقت بچ جاتا تو مما مجھے اپنی کسی
سہیلی کے ہاں لے جاتیں اور اگر موسم خوشگوار ہوتا تو ہم باغ میں چہل قدمی
کرنے چلے جاتے۔
ہر رات سونے سے پہلے میں دعا کرتا کہ اے اللہ! بابا کو جلدی سے گھر بھیج
دے۔“ یہ دعا مجھے مما نے سکھائی تھی۔
ایک صبح میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ با با ہمیشہ کی طرح پراسرار
طور پر موجود ہیں۔ اس روز بابا خاکی وردی کی بجائے نہایت خوبصورت نیلا سوٹ
پہنے ہوئے تھے۔مما بہت زیادہ خوش نظر آ رہی تھیں۔ نہ معلوم اس میں خوشی کی
کیا بات تھی۔ مجھے تو بابا خاکی وردی کے بغیر کچھ زیادہ اچھے دکھائی نہیں
دیے۔ مما ہنستی مسکراتی ہوئی گھر بھر میں دوڑتی پھر رہی تھیں۔
انہوں نے مسرت بھرے لہجے میں مجھے بتایا کہ ”نومی!اللہ نے ہماری دعا سن لی
ہے، تمہارے بابا جنگ سے واپس آ گئے ہیں۔“ ہم نے جنگ سے بابا کی بحفاظت
واپسی پر اللہ کا شکر ادا کیا۔گھر کے کام کاج نمٹا کر ہم لوگ بازار گئے ،
وہاں سے واپس آ کر بابا اور مما آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ بابا زیادہ بول
رہے تھے اور مما ان کی بے سروپا باتیں بڑے غور سے سن رہی تھیں۔ مما کا یہ
انہماک مجھے اچھا نہیں لگا، میں نے بابا کی گفتگو میں دخل اندازی کرنا چاہا
تو مما بولیں: ”نومی بیٹے! کچھ دیر خاموش رہو۔“مما نے پیار سے مجھے
سمجھایا۔ یہ الفاظ مما عموماً کسی غیردلچسپ مہمان کے سامنے کہا کرتی تھیں۔
اس لیے میں نے خاموشی کی بجائے گفتگو جاری رکھی۔
”نومی! خاموش رہو۔“ مما نے بے چینی سے پہلو بدل کر نسبتاً سخت لہجے میں
کہا۔ ”دیکھ نہیں رہے ہو‘ میں تمہارے بابا سے بات کر رہی ہوں۔“
یہ جملہ میں نے مما کے کے منہ سے پہلی بار سنا تھا۔ ’دیکھ نہیں رہے ہو‘ میں
تمہارے بابا سے بات کر رہی ہوں۔‘میرے دل میں فوراً خیال آیا کہ اگر ہماری
دعاکا یہی اثر ہے تو لگتا ہے ہماری دعا رائیگاں ہی گئی۔ میں نے لہجہ بدل کر
سوال کیا۔ ”آپ باباسے باتیں کیوں کر رہی ہیں؟“
”ہم بہت ضروری باتیں کر رہے ہیں۔ تم خاموش رہو یا جاؤ،جا کر کھیلو۔“ مما نے
فیصلہ صادر کر دیا۔
شام کو مما کے کہنے سے بابا مجھے بازار گھمانے نکلے۔ ممامجھے ہمیشہ باغ میں
لے جاتی تھیں۔ اس تبدیلی سے مجھے خوشی ہوئی لیکن میں نے محسوس کیا کہ میری
اور بابا کی دلچسپیوں میں بے حد تضاد ہے۔ انہیں بازار کی رونق، دوڑتی
بھاگتی گاڑیوں اور جلتی بجھتی روشنیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہیں جگہ
جگہ اپنے ہم عمروں سے باتیں بنانے میں لطف آتا تھا۔ میںنے انہیں ایسا کرنے
سے روکنا چاہا تو انہوں نے مجھے ہاتھ سے پیچھے دھکیل دیا۔ میں چپ چاپ کھڑا
بور ہوتا رہا۔
شام کی چائے پر مما اور بابا کی ضروری گفتگو کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔
بابا بازار سے اخبار خرید لائے تھے۔ وہ کبھی اخبار پڑھتے، کبھی مما سے
گفتگو کرنے لگتے۔ مما فوراً ان کی طرف متوجہ ہو جاتیں، میں انہیں کوشش کے
باوجود اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری، کچھ نہ
کچھ بولتا رہا۔ میری بار بار کی دخل اندازی پر مما نے جھنجھلا کر کہا۔
”نومی! جب بابا اخبار پڑھ رہے ہوں تو تمہیں خاموش رہنا چاہیے۔“مجھ پر واضح
ہو گیا کہ مما میرے مقابلے میں بابا سے گفتگو کرنا زیادہ پسند کرتی ہیں یا
بابا سے اتنی خوف زدہ ہیں کہ ان کے سامنے مجھ پر توجہ دینا نہیں چاہتیں۔
رات کو مما مجھے میرے کمرے میں سلانے آئیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا۔ ”مما!
اگر میں دعا مانگوں کہ اے اللہ! بابا کو واپس جنگ پر بھیج دے تو کیا وہ
بھیج دے گا؟“
مما کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے مسکراکر کہا۔ ”نہیں....“
”کیوں نہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”اس لیے کہ اب جنگ نہیں ہو رہی ہے۔“
”لیکن مما! آپ تو کہتی ہیں کہ اللہ ہر کام کر سکتا ہے، اگر وہ چاہے تو کیا
جنگ دوبارہ شروع نہیں کرا سکتا؟“
”وہ چاہے تو شروع کرا سکتا ہے مگر وہ چاہے گا نہیں۔“ انہوں نے میرا گال تھپ
تھپایا۔ ”بے مقصد جنگ خدا نہیں کراتا، برے لوگ کراتے ہیں۔“
”اگر خدا جنگ نہیں کراتا تو برے لوگ کیوں کراتے ہیں؟“ میں نے معصومیت سے
پوچھا۔ ”کیا برے لوگ خدا سے بڑے ہوتے ہیں؟“
”یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اب تم چپ چاپ سو جاؤ۔“ مما نے
کہا تو میں نے ناامیدی سے چپ سادھ لی۔
میں حسب معمول صبح سویرے اٹھا اور مما کے کمرے میں چلا گیا۔ مما اور بابا
سوئے ہوئے تھے۔مجھے مجبوراً ان دونوں کے درمیان گھسنا پڑا۔ مما ایک کنارے
سکڑی سمٹی لیٹی تھیں اور بابا نے اپنے حصے سے زیادہ بستر پر قبضہ جما رکھا
تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اپنے لیے خاطر خواہ جگہ کیسے نکالوں۔
میں نے بابا پر دوچار لاتیں چلائیں‘ وہ غراتے ہوئے ایک طرف ہو گئے۔ میں
اپنے لیے جگہ بنا کر اطمینان سے انگوٹھا چوسنے لگا۔ بستر کی گرمی نے مجھے
بہت آرام پہنچایا۔ چند لمحوں بعد میں نے مما کو آواز دی۔ ”مما! مما!“
”شش! بابا کو مت جگاؤ“ مما نے اٹھ کر مجھے خاموش کر دیا۔
مما بابا سے گفتگو کرتے وقت مجھے نظر انداز کرتی تھیں مگر یہ بات مجھے اس
سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوئی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مما سے گفتگو
کیے بغیر دن شروع ہو سکتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا۔ ”کیوں مما؟“
”بے چارے بابا تھکے ہوئے ہیں۔“ انہوں نے سرگوشی کی۔
”بے چارے بابا!“ مما کے منہ سے مجھے یہ جملہ قطعی پسند نہیں آیا۔ میں نے ان
کی ہدایت سنی اَن سُنی کر کے کہا۔ ” کیا آپ کو یاد ہے‘ آج مجھے آپ کے ساتھ
کہاں جانا ہے؟ آج میں آپ کے ساتھ دریا کے کنارے چل کر مچھلیاں پکڑوں گا۔ آپ
نے کہا تھا نا کہ دریا سے لَوٹ کر آج ہم مچھلیاں پکائیں گے۔“
مما نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا، میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہنے
لگیں۔ ”بابا کو مت جگاؤ۔“
مگر بابا جاگ چکے تھے، ان کے گلے سے غراہٹ سی نکلی اور وہ ماچس تلاش کرنے
لگے‘ پھر انہوں نے آنکھیں پھاڑ کر غور سے گھڑی دیکھی۔ مما نے بڑے نرم لہجے
میں ان سے پوچھا۔
” چائے پیو گے ڈئیر؟“
”چائے؟“ بابا نے حیرت سے کہا۔ ”ابھی کیا وقت ہوا ہے۔“
میں بیچ میں بول پڑا۔ ”اٹھ جائیے بابا! چائے پی لیجیے۔ میں چائے پی کر
مچھلیاں پکڑنے جاؤں گا۔“ میں نے بہت امید سے مما کی طرف دیکھا۔
”خاموشی سے سو جاؤ نومی!“ اب کے مما نے مجھے بہت زور سے ڈانٹا۔ مجھے رونا آ
گیا۔
بابا نے کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے خاموشی سے پائپ سلگایا اور کمرے میں دھواں
بکھیرنے لگے۔ وہ خاموشی سے پائپ پی رہے تھے، میری یا مما کی طرف توجہ نہیں
دے رہے تھے۔
میں مما سے اکثر ضد کرتا تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ سلائیں، وہ کہتی تھیں کہ
نہیں‘ ایک بستر پر سونا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ میں سوچنے لگا کہ یہی بات
انہوں نے بابا سے کیوں نہیں کہی۔
بابا پائپ پیتے پیتے اٹھے اور باورچی خانے میں چلے گئے۔ وہاں انہوں نے چائے
بنائی۔ تھوڑی دیر بعد وہ مما کے لیے تو چائے لائے لیکن میرے لیے نہیں۔ مجھے
غصہ آ گیا۔ ”مما! “ میں نے چیخ کر کہا۔ ” میں بھی چائے پیوں گا۔“
”تم میرے ساتھ پی لینا۔“ مما نے رسان سے کہا۔
یہ بات مجھے بہت بری لگی۔ میں مما کی چائے میں حصہ کیوں بٹاتا؟ مجھے میرے
گھر میں برابر کا حق ملنا چاہیے تھا۔ میں سوچنے لگا ۔ بابا اور میں ساتھ
ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہم دونوں میں سے کسی ایک کو اس گھر سے جانا پڑے گا۔
میںنے جھنجلاہٹ میںمما کی ساری چائے پی لی لیکن انہوں نے تحمل سے کام لیا،
کچھ کہا نہیں۔
رات کو مما مجھے سلانے آئیں۔اِدھر اُدھر کے دو ایک جملوں کے بعد انہوں نے
آہستہ سے کہا۔ ”نومی! میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں۔“
”کیا؟“ میں نے دریافت کیا۔
”مما بولیں۔ ”وعدہ کرو کہ تم صبح صبح آ کے بے چارے بابا کو پریشان نہیں کرو
گے۔“
پھر وہی بے چارے بابا، دوہی دنوں میں مما کی تمام ہمدردیاں اُن کے ساتھ ہو
گئی تھیں۔ مجھے غصہ آنے لگا۔ ”کیوں مما؟“
”تمہارے بابا پریشان اور تھکے تھکے رہتے ہیں‘ ان کے لیے سونا بہت ضروری ہے۔
تمہارے آنے سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔“
”لیکن مما! بابا پریشان اور تھکے تھکے کیوں رہتے ہیں؟“
”اس لیے کہ جب وہ جنگ پر تھے تو ہمارے لیے خرچا بھیجتے تھے۔ اب جنگ ختم ہو
جانے سے ان کی ملازمت ہو گئی ہے۔ خرچہ نہیں آئے گا تو ہم گزارا کیسے کریں
گے؟ تمہارے بابا کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض ہمیں آرام پہنچانے کی خاطر باہر
جا کر کام کریں اور باہر جا کر کام کرنے کے لیے ان کی نیند پوری ہونا ضروری
ہے۔“
صبح میری آنکھ کھلی تو مما کی باتیں مجھے یاد تھیں۔ میں بہت دیر تک اپنے
کمرے سے نہیں نکلا۔ کھلونوں سے کھیلتا رہا لیکن آج نہ جانے کیا بات تھی کہ
سورج نکل ہی نہیں رہا تھا۔ مجھے خواہش ہوئی کہ کوئی مجھے ایک پیالی چائے
بنا دے۔ آخر مجھ سے برداشت نہ ہو سکا، مما کی باتیں ایک دم میرے ذہن سے نکل
گئیں اور میں ان کے کمرے میں چلا گیا۔ مما اور بابا سو رہے تھے۔ میں مما کے
اوپر سوار ہو کے اپنے لیے جگہ بنانے لگا۔ مما کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے
زور سے میرا بازو پکڑ لیا۔ ”نومی! تم نے مجھ سے کیا وعدہ کیا تھا؟“ میں
شرمندہ ہو کے رہ گیا۔ مما نے میرا ماتھا چُھوتے ہوئے پریشانی سے کہا۔ ”اوہ
تمہار تو بدن بھی گرم ہے، اچھا آؤ، خاموشی سے سو جاؤ، بات بالکل نہیں
کرنا۔“
میں ان کی پشت سے چپک کر کچھ دیرتک زبردستی آنکھیں موندے لیٹا رہا لیکن آخر
کب تک لیٹا رہتا۔ میں تو مما سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ ”مما! مما!“ میںنے
انہیں ہلانے جلانے کی کوشش کی۔
”نومی! خاموش رہو۔ تمہارے بابا سو رہے ہیں۔“
مما نے سرگوشی میں مجھے ڈانٹا۔ ‘” یہ بات آخر تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں
آتی؟“
میں باتیں کرنا چاہ رہا تھا اور بابا سونا چاہ رہے تھے۔میں نے سوچا کہ آخر
یہ گھر کس کا ہے؟ یہ سوچ کر میں نے اعتماد سے کہا۔ ”مما! بابا کی صحت کے
لیے اچھا ہے کہ یہ دوسرے کمرے میں سویا کریں۔ “ مما خاموش ہو کر رہ گئیں۔
بہت دیر بعد انہوں نے میری جانب کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔ ”نومی! یا تو بالکل
چپ ہو جاؤ یا اگر چپ نہیں ہو سکتے تو اپنے کمرے میں چلے جاؤ۔“
گویا میرے ساتھ مما نے جو ناانصافی شروع کر دی تھی، میں نے اس کا اقرار خود
ان کے منہ سے کروا لیا تھا جب ہی تو انہوں نے میری بات کا جواب نہیں دیا
بلکہ الٹا مجھے ڈانٹنے لگیں۔ یہ سب کچھ بابا کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ میں نے
مما کی نظر بچا کر بابا کی کمر پر ایک لات لگا دی۔ اس حرکت کا خاطر خواہ
اثر ہوا ، بابا نے غرّا کے آنکھیں کھول دیں۔ ”کیا وقت ہوا ہے؟“ انہوں نے
دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جیسے دروازے پر کوئی کھڑا ہو۔
مما نے دنیا بھر کی مٹھاس اپنی آواز میں گھولتے ہوئے کہا۔ ”ابھی کوئی خاص
وقت نہیں ہوا ہے ڈئیر!“ پھر وہ بسترسے اٹھیں اور مجھے گھورتے ہوئے بولیں۔”
تم نے بابا کو جگا دیا نا، چلو اٹھو اور اپنے بستر پر جاؤ۔“ انہوں نے جھک
کر مجھے بستر سے اٹھانا چاہا۔ میرا حق مجھ سے زبردستی چھینا جا رہا تھا۔
میں احتجاجاً ان کے ہاتھوں میں اکڑ گیا اور زور زور سے ہاتھ پاؤں چلاتے
ہوئے چیخنے لگا۔ میرا چیخناایسا تھا کہ مردہ بھی قبر سے اٹھ کھڑا ہوتا۔
اچانک بابا دہاڑے۔
”عجیب گدھا لڑکا ہے، یہ کبھی سوتا بھی ہے کہ نہیں؟“ انہوں نے خود کو چادر
میں لپیٹتے ہوئے گردن اٹھا کر مجھے دیکھا۔ چادر سے صرف دو سیاہ آنکھیں
جھانکتی دکھائی دیں۔ اُف، کتنے ڈراؤنے لگ رہے تھے وہ!
مما کے لیے مجھے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ آخر دروازے تک پہنچتے پہنچتے
انہوں نے مجھے زمین پر کھڑا کر دیا۔ میں ان کے ہاتھوں سے چھوٹتے ہی کمرے کی
دیوار سے جا لگا اور زور زور سے اس طرح پاؤں پٹخنے لگا جیسے میری قوت دوگنی
ہو گئی ہو۔
بابا اٹھ بیٹھے اور مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے چلّائے۔
”خاموش!“ ان کی چنگھاڑ نے مجھے ایک لمحے کے لیے گنگ کر دیا۔ اس انداز میں
مجھے اس سے پہلے کسی نے مخاطب نہیں کیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ بابا کا چہرہ
سرخ ہو رہا ہے۔ یکایک میرے غصے میں بھی زبردست اضافہ ہو گیا۔ میں سسکتے
ہوئے جواباً چیخا۔ ”تم.... تم چپ رہو۔“
”کیا کہا؟“ بابا نے بستر سے چھلانگ لگائی۔
”زبیری....سنو پلیز“ دروازے کے قریب سے مما کی سہمی ہوئی آواز سنائی دی۔
”نومی بچہ ہے، ابھی تم سے مانوس نہیں ہوا۔“ میں نے مما کی طرف دیکھا، ان کی
آنکھوں میں خوف تھا۔
مگر بابا نے ان کی بات جیسے سنی ہی نہیں اور ایک درندے کی طرح مجھ پر
جھپٹے۔ میں ننگے پاؤں کمرے میں اِدھر سے اُدھر ناچنے لگا۔ میں نے طے کر لیا
تھا کہ چاہے کچھ ہوجائے، کمرے سے نہیں نکلوں گا۔
اس روز سے ہماری زندگی عذاب ہو گئی۔ اب بابا اور مَیں ایک دوسرے کے دشمن بن
چکے تھے۔ وہ مما سے میرا وقت چُرانے کی کوشش کرتے اور میں اُن کا وقت چرانے
کے چکر میں رہتا۔ جب بھی مما مجھے سونے سے پہلے کہانی سنانے بیٹھتیں ‘ بابا
کو اپنی کسی پرانی چیز کی ضرورت پیش آ جاتی یا چائے پینے کی خواہش ہونے
لگتی یا کوئی دلچسپ واقعہ انہیں یاد آ جاتا۔ اور جب بابا اور مما گفتگو میں
محو ہوتے تو میں شور مچا مچا کر کھلونوں سے کھیلنے لگتا۔
ایک شام بابا باہر سے واپس آئے ۔ میں ان کے صندوق سے چیزیں نکال نکال کر
کھیل رہا تھا۔ اس میں ان کے تمغے تھے اور نہ جانے کیا کیا چیزیں بھری ہوئی
تھیں۔ بابا مجھے اپنی چیزوں سے کھیلتے دیکھ کر برس پڑے۔ ان کے برسنے پر مما
جھنجھلا گئیں۔ انہوں نے بابا کی چیزیں سمیٹ کر صندوق میں رکھتے ہوئے مجھے
ایک چانٹا رسید کر دیا۔ ”نومی! بابا کی چیزیں اس وقت تک نہ چھیڑا کرو جب تک
وہ خود اجازت نہ دیا کریں۔“
حالات روز بروز خراب ہوتے گئے۔ میں نے بہت سوچا، بہت غور کیا مگر یہ سمجھنے
سے قاصر رہا کہ آخر بابا میں ایسی کیا خصوصیت ہے کہ مما انہیں مجھ سے زیادہ
چاہتی ہیں۔ میرے نزدیک تو وہ کسی طرح مجھ سے بہتر نہیں تھے۔ انہیں چائے تک
پینی نہیں آتی تھی۔ چائے پیتے وقت ان کے منہ سے سُرڑ سرڑ کی آوازیں نکلتی
تھیں۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ بابا اخبار پڑھ کر مما کو خبریں سناتے ہیں،
شاید اسی لیے وہ انہیں زیادہ چاہتی ہیں۔ یہ خیال آتے ہی میں بھی اِدھر
اُدھر سے خبریں جمع کر کے مما کو سنانے لگا۔ لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں
ہوا۔ پھر مجھے گمان ہوا کہ بابا کی تمباکو نوشی مما کو اچھی لگتی ہے لہٰذا
ایک روز میں نے بابا کا پائپ اٹھا کر انہی کی طرح ہونٹوں میں دبایا اور گھر
میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ اتفاق سے مما سے پہلے بابا نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ تو
موقع کی تاک میں رہتے تھے۔ انہوں نے فوراً میری پٹائی کر دی۔پھر ایک بار
چائے پیتے ہوئے میں نے بابا کی طرح سرڑ سرڑ کی آوازیں نکالیں۔ مما نے بری
طرح مجھے ڈانٹ دیا۔
میں ہر وقت وہ راز جاننے کی فکر میں لگا رہتا تھا جس کی وجہ سے مما بابا کو
زیادہ پسند کرتی ہیں۔ آخر ایک دن یہ بات میری سمجھ میں آ گئی، نہ معلوم یہ
معمولی بات پہلے میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی تھی۔ بابا نے چوں کہ مما سے
شادی کی تھی، اس لیے مما انہیں مجھ پر فوقیت دیتی تھیں۔ ایک دن ہمت کر کے
میں نے بابا کو جتا دیا کہ میں نے ان سے شکست قبول نہیں کی ہے، ہاں اپنے
بڑے ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔ بابا نے میری بات سُنی اَن سنی کر دی۔
ایک شام وہ دونوں میری موجودگی نظر انداز کر کے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ میں
نے بڑے مدبّرانہ انداز میں مما کو مخاطب کیا۔ ”مما! آپ جانتی ہیں ‘ میں بڑا
ہو کر کیا کروں گا؟“
”نہیں جانتی۔ بتاؤ کیا کروگے؟“انہوں نے سوال کیا۔
”میں.... میں آپ سے شادی کروں گا۔“ میں نے صاف صاف کہہ ہی دیا۔ بابا نے
مذاق اڑانے کے انداز میں قہقہہ لگایا لیکن مما خوش ہو گئیں۔ شاید یہ سن کر
انہیں سکون ملا تھا کہ ایک دن بابا سے انہیں نجات مل جائے گی۔ انہوں نے
مجھے گود میں اٹھا لیا۔ ”بھئی یہ تو بہت اچھا ہو گا۔“
”ہاں بہت اچھا ہوگا، پھر بہت سارے ، بہت سارے بچے ہوں گے۔“
”ہا ہا ہا....“ بابا اب منہ پھاڑ کر ہنس رہے تھے۔ مجھے لگا وہ میرا مذاق
اڑا رہے ہیں۔میں طیش میں آگیا۔
”خوب۔“ ممانے مجھے چومتے ہوئے کہا۔ ”اب بہت جلد تمہارا بھائی آ جائے گا پھر
تم اکیلے نہیں رہو گے، یوں سمجھ لو کہ تمہارے لیے ایک ننھا سا کھلونا آ رہا
ہے۔“ بھائی کی خوش خبری سن کر مجھے بہت اطمینان حاصل ہوا کہ بابا کی تمام
مخالفتوں کے باوجود مما کو مجھ سے محبت ہے جب ہی تو وہ میرے لیے بھائی لا
رہی ہیں۔
مگربھائی آنے سے پہلے گھر کا ماحول میرے لیے پہلے سے زیادہ اجنبی بنتا چلا
گیا۔ اب بابا رات کو دیر سے گھر آنے لگے تھے۔ مما بھی کوئی خاص کام نہیں
کرتی تھیں پھر بھی وہ مجھے سیر کے لیے نہیں لے جاتی تھیں۔ وہ روز بروز صحت
مند ہوتی جارہی تھیں لیکن اس کے باوجود اُن کا مزاج چڑ چڑا ہوتا جا رہا
تھا۔ بات بات پر جھنجھلا جاتی تھیں۔ خصوصاً میری ہر حرکت پر انہیں غصہ آ
جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھڑکنے لگی تھیں۔ انہوں نے مجھے گود میں
اٹھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وقت یوں ہی گزرتا رہا۔
ایک دن اچانک مما کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں بابااسپتال لے گئے۔ پھر وہ
اسپتال سے آئیں تو تنہا نہیں تھیں، وہ میرے لیے ایک بھائی لے آئی تھیں۔ جسے
وہ سونی سونی کہہ رہی تھیں۔
سونی حالاں کہ میرے کھیلنے کے لیے لایا گیا تھا لیکن مجھے تو مما اسے ہاتھ
بھی نہیں لگانے دے رہی تھیں۔ وہ دن بھر سونی کے ساتھ پلنگ پر پڑی رہتیں۔
میں پہلے ہی روز سے سونی کو ناپسند کرنے لگا ۔ وہ مجھ سے بہت مختلف لڑکا
تھا۔ اسے ہر وقت مما کی توجہ چاہیے تھی اور مما گویا اسی کی ہو کر رہ گئی
تھیں۔ میں سوچتا کہ اتنی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ
بسااوقات سونی خواہ مخواہ بھی ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا تھا۔
عجیب کاہل لڑکا تھا۔ دن دن بھر سوتا رہتا اور اس کی نیند میں خلل پڑنے کے
ڈر سے مجھے خاموش رہنا پڑتا تھا۔ پہلے مما کی زبان پر ’بے چارے بابا‘ کا
نعرہ رہتا تھا، اب وہ ’سونی کو مت جگاؤ، سونی کو مت جگاؤ“کی رَٹ لگائے
رکھتی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سونی آخر اس وقت کیوں نہیں سوتا
جب سب سوتے ہیں، ہر وقت کیوں سوتا رہتا ہے۔ مجھے موقع کی تلاش رہتی تھی کہ
جب بھی مما کسی کام میں لگی ہوتیں، میں زور سے چٹکی بھر کے سونی کا جگا
دیتا۔ ایک روز مما نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا اور پھر خوب مجھے مارا۔
اس سے پہلے انہوں نے مجھے اس طرح کبھی نہیں مارا تھا۔میں روتا ہوا باہر نکل
کر لان میں کھلونوں سے کھیلنے لگا۔ اب اس گھر میں کھلونوں کے سوا میرا کوئی
نہیں تھا۔ میرے کھلونے ہی میرے سچے دوست تھے حالاں کہ پہلے میں انہیں بے
پروائی سے اِدھر اُدھر پھینک دیتا تھا لیکن اب اپنے دل کی تمام باتیں انہی
سے کرتا تھا۔
میں ایک شام لان میں کھیل رہا تھا۔ معاً مجھے بابا آتے دکھائی دیے۔ میں
ایسا بن گیا جیسے وہ مجھے نظر نہ آئے ہوں، پھر میں نے انہیں سنانے کے لیے
اونچی آواز میں اپنے کھلونوں کو مخاطب کیا۔ ”سنو ہوائی جہاز! سنو چابی کی
موٹر! اب اس گھر میں کوئی بے بی آیا تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔“
بابا ٹھٹک کر رک گئے اور مجھے حیرت سے دیکھنے لگے۔ ”نومی! تم کیا کہہ رہے
تھے ابھی؟“
”میں اپنے کھلونوں سے باتیں کر رہا ہوں۔“ میں ان کی طرف اچٹتی نظر ڈال کر
پھر کھیل میں مشغول ہو گیا۔
بابا کچھ دیر تک مجھے دیکھتے رہے پھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلے
گئے۔
اس شام کے بعد سے میں نے بابا کے رویے میں نمایاں تبدیلی دیکھی۔ ان کا سلوک
مجھ سے اچھا ہو گیا تھا لیکن مما کا رویہ وہی رہا۔ ان کی توجہ کا مرکز اب
بھی سونی ہی تھا۔ مما اب بابا سے بھی بہت کم باتیں کرتی تھیں۔ وہ لوتھڑا ہر
وقت ان سے چمٹا رہتا تھا۔ بابا کے کام کرنے بھی مما نے چھوڑ دیے تھے۔ اب ہر
کام بابا کو خود کرنا پڑتا تھا۔ مما کے اس رویے سے بابا بھی کچھ پریشان نظر
آتے تھے۔ وہ مما سے میری طرح صاف صاف بات تو نہیں کرتے تھے لیکن اکثر یہ
شکایت ضرور کرتے کہ سونی کے رات بھر روتے رہنے کی وجہ سے ان کی نیند پوری
نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن مما پر سونی نے نہ جانے کیا جادو کر دیا تھا کہ وہ اس
کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتی تھیں۔ بابا کی شکایت کے جواب میں وہ تڑ سے کہہ
دیتیں۔ ”اسے جب بھوک لگتی ہے، جبھی روتا ہے۔“
مجھے مما کی ناسمجھی پر بہت افسو س ہوتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ سونی خواہ
مخواہ روتا ہے تا کہ مما کی توجہ کسی اور جانب مبذول نہ ہو۔
ایک رات کوئی میرے بستر پر آگیا۔ میری آنکھ کھل گئی، مجھے فوراً یہ خیال
آیا کہ یہ مما ہوں گی، آخر انہیں احساس ہو ہی گیا کہ وہ میرے ساتھ زیادتی
کر رہی ہیں لیکن اسی وقت دوسرے کمرے سے سونی کا رونا اور مما کا چمکارنا
سنائی دیا۔ میں نے غور سے دیکھا، یہ مما نہیں تھیں، بابا تھے۔ ان کی آنکھیں
نیند سے بوجھل تھیں اور وہ تھکے تھکے نظر آ رہے تھے۔ سوتے سوتے اٹھنے کے
باعث ان کی سانسیں بے ترتیب تھیں۔ گویا میری طرح بابا بھی مما کے کمرے سے
بے دخل کر دیے گئے تھے۔ مجھے بابا پر ترس آنے لگا اور میرادل ان کے لیے
پیار سے بھر گیا۔ میں نے بے اختیار اپنے بازو ان کی گردن میں ڈالے اور
انہیں خود میں سمیٹ کر سلانے کی کوشش کرنے لگا۔ بابا نے گردن اٹھا کر
مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا ، پھر زور سے مجھے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
(انگریزی ادب سے انتخاب) |