لالچ اور اس کا علاج

پیارے بچو آج تمھہیں ایک تحریرلالچ اور اس کا علاج پڑھنے کو پیش کیا جاتی ہے

دنیا کی ہر چیز خصوصاً مال و دولت کو ضرورت سے بہت زیادہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کو لالچ کہتے ہیں یہ بہت بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے حرص و لالچ انسان کو بے شمار مصائب میں مبتلا کر دیتا ہے کیونکہ لالچی شخص کسی مقام پر بھی مطمئن نہیں ہوتا اور لالچ بے شمار گناہوں کا سر چشمہ ہے بہرحال آدمی کو چاہئے کہ جو رزق و نعمت اور مال و دولت اللہ تعالٰی کی طرف سے ملا ہے اس پر راضی ہو کر قناعت کر لینا چاہئے دوسروں کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کو خود بھی اس کو حاصل کرنے کے چکر میں پریشان حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا یہی جذبہ حرص و لالچ کہلاتا ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر آدمی کے پاس دو میدان بھر سونا ہو جائے تو پھر بھی وہ تیسرے میدان کو طلب کرے گا کہ وہ بھی سونے سے بھر جائے اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو شخص اس سے توبہ کرے اللہ تعالٰی اس کی توبہ کو قبول فرما لے گا۔ ( مشکٰوۃ )

حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کی حرص۔ ( بخاری شریف )

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مرتبے کے لحاظ سے قیامت کے روز سب انسانوں سے بدتر وہ بندہ ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی عاقبت برباد کر لی۔ ( ابن ماجہ )

لالچ کا علاج
اس قلبی مرض کا علاج صبر و قناعت کی معجون کرنا چاہئے یعنی جو کچھ خدا کی طرف سے بندے کو مل جائے اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اس عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے اس وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی نیک نصیبی، انسان کی بد نصیبی یہی انسان کا نوشہ تقدیر ہے۔ لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اس کے بعد یہ سمجھ کر کہ خدا کی رضا اور اس کی عطا پر راضی ہو جاؤ اور یہ کہہ کر لالچ کے قلعے کو گرا دو کہ جو میری تقدیر میں تھا وہ مجھے ملا اور جو میری تقدیر میں ہو گا وہ آئندہ ملے گا اور اگر کچھ کمی کی وجہ سے قلب میں تکلیف ہو اور نفس ادھر ادھر لپکے تو صبر کرکے کھینچ لو اس طرح رفتہ رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص و لالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے گا۔

لالچ کا یہ علاج مذید پانچ چیزوں پر مشتمل ہے۔ پہلی چیز تو عمل ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی اخراجات کو گھٹا کر کم سے کم حد تک لے آئے پر تکلف اور ہمیشہ مرغن کھانوں کی بجائے سادہ غذا کو ترجیح دینی چاہئے اور بہت زیادہ عمدہ اور بھڑکیلا لباس کی بجائے سادہ لباس زیب تن کریں کیونکہ اس طرح کی چیزیں بغیر لالچ اور حرص کے بھی میسر آ سکتی ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے اول یہ کہ ظاہر اور باطن میں اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے دوسرا امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اور تیسرے غم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مذید فرمایا جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو بے دریغ خرچ کرتا ہے اسے دوسروں کا محتاج بنا دیتا ہے اور فرمایا خرچ کرتے وقت تدبیر و آہستگی سے کام لو کہ یہ اقدام بجائے آدھی روزی کی حیثیت رکھتا ہے۔

دوسرا لالچ کا علاج یہ ہے کہ جب ایک دن کیلئے مال بقدر کفایت میسر آ جائے تو اگلے روز کیلئے تشویش میں پڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے جو مستقبل کیلئے پریشان رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور آدمی کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ اگر زندگی طویل ہوئی تو پھر کیا کرو گے اور کل کو کچھ ہاتھ نہ آیا تو کھاؤ گے کہاں سے پس کل کیلئے آج ہی کوشش کر لو، بہرحال شیطان ہمیں کل کی مفلسی کو خوف دلا کر آج پریشانی میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے پھر وہ اپنے دل میں بندے کی حماقت پر پسنتا ہے کہ دیکھو کل کا دن اسے دیکھنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں لیکن یہ کس قدر اس میں گھائل ہوتا جا رہا ہے۔

بہر کیف آدمی اس حقیقت سے خوب آگاہ رہے کہ روزی کا میسر آنا حرص و طمع پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ پہلے سے ہی مقدر ہو چکی ہے جو ہر حال میں مل کر رہے گی۔

تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایک مرتبہ مغموم اور اداس پایا تو فرمایا دل پر غم کا اس قدر کیوں بوجھ ڈالتے ہو تمہارے لئے جو کچھ مقدر ہو چکا ہے وہ تمہیں ہر حال میں ملے گا۔ ( کیمیائے سعادت )

ابو سفیان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پرہیزگاری اختیار کرو کیونکہ آج تک کسی پرہیزگار کو بھوکے مرتے نہیں دیکھا خود اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ پرہیزگاروں کو روزی وہاں سے پہنچائی جاتی ہے جہاں پر ان کا گمان تک نہیں ہوتا۔

تیسری بات یہ ذہن میں راسخ کریں کہ اگر آدمی طمع نہ کرے گا اور صبر نہ کرے گا اس پر اسے گراں تو شاید گزرے گا لیکن ذلیل و رسوا نہ ہو گا لیکن اگر طمع کرے گا اور صبر نہ کرے گا تو یہ پریشانی اٹھانے کے علاوہ ذلیل و خوار بھی ہوگا اور لالچ کے باعث لوگوں کی ملامت کا نشانہ بھی بنے گا اور پھر عذاب آخرت میں بھی مبتلا رہنے کا اندیشہ رہے گا برخلاف اس کے کہ اگر صبر کا مظاہرہ کرے گا تو اس کی بدولت اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرے گا اور لوگوں میں بھی تحسین اور احترام حاصل ہوگا۔

چوتھا لالچ کا علاج یہ ہے کہ آدمی ٹھنڈے دل سے غور کرے کہ اس کی حرص اور طمع آخر ہے کس لئے ؟ اگر کھانے پینے کی خاطر ہے تو گدھے اور بیل وغیرہ اس سے کہیں زیادہ پیٹ بھر کر کھانے کے عادی ہوتے ہیں اگر شان و شوکت پوشی مطلوب ہے تو کتنی غیر قومیں اس ضمن میں آگے بڑھی ہوئی ہیں غرض ہر برائی کیلئے متبادل مثال کسی بری شے میں دکھائی دے گئ۔ ہاں اگر طمع سے ہاتھ اٹھالے اور تھوڑے پر صبر کرنا سیکھ لے تو اسے اپنی مثال انبیاءکرام علیہم السلام اور اولیاءکرام میں دکھائی دے سکتی ہے۔

پانچواں علاج یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ زیادہ مال کتنی بڑی مصیبت اور جنجال ہے کہ اس کی زیادتی اور فروانی جہاں دنیا میں پریشانی کا موجب ہوتی ہے وہاں آخرت میں بھی اس کا حساب دینا پڑے گا کیونکہ غریب پانچ سو سال پہلے جنت میں چلا جائے گا بہرحال ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ ہمیں کم سے کم لوگوں کو پیش نظر رکھنا چاہیئے تا کہ طبیعت شکر ادا کرنے کی طرف سے مائل رہے۔ امیروں کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو دیکھا کرو جو تم سے دولت کے مرتبے میں کمتر درجے کے ہوں کیونکہ شیطان اکسانے کی کوشش میں رہتا ہے کہ دیکھ فلاں فلاں لوگ تجھ سے زیادہ دولت مند ہیں ان میں کیا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے آخر قناعت کیلئے تو ہی رہ گیا ہے ؟ اور جب آدمی پرہیزگاری کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اسے بہکاتا ہے کہ آیا تو بڑا پرہیزگار وہ دیکھ فلاں عالم تو اتنا پرہیزگار نہیں ہے۔ اس میں تو فلاں فلاں خامیاں پائی جاتی ہیں اگر یہ بھی بخشا گیا تو تم بھی بخشے جاؤ گے لٰہذا اب پرہیزگاری کی کیا پڑی ہے۔

پیارے بچو! یاد رکھئے شیطان کا تو کام ہی یہ ہے کہ دنیوی امور میں ہمیشہ ان لوگوں کو تیرے سامنے لائے گا جو تجھ سے بلند درجہ کے مالک ہوں گے تاکہ تو حرص اور حسد میں مبتلا رہے اور دینی امور میں ان لوگوں کو نمونہ بنا کر پیش کرے گا جو تجھ سے بھی گئے گزرے ہوں تاکہ تو غافل سے غافل تر ہوجائے حالانکہ اصل معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں یعنی دینوی معاملہ میں ہمیں بزرگان دین پر نظر رکھنی چاہیئے جو ہم سے بلند مرتبہ والے ہوئے ہیں تاکہ ہمیں اپنے اعمال اور کوتاہیوں سے آگاہی حاصل ہوتی رہے اور دنیوی اعتبار سے ہمیں فقیروں اور غریبوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ان کی مفلسی کو دیکھ کر اللہ عزوجل کا شکر کرنا نصیب ہو۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381644 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.