مختصر مختصر ، نئے شہروں کی ایک
اثر انگیز تحریر
باپ اور بیٹے کی ایک کہانی
بسا اوقات ہم اپنی ملازمت یا کاروبار میں شدید محنت کرتے ہیں اور گھر دیر
سے پہنچتے ہیں تو ہوتا یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد گہری نیند سو چکے ہوتے
ہیں۔ ہم دبے پاؤں بچوں کے کمرے میں جھانکتے ہیں تو ان معصوموں کو بے فکری
سے سوتے دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ ہم محنت مشقت اسی لیے کرتے ہیں کہ
یہ بہتر سے بہتر زندگی بسر کر سکیں۔ جو لوگ اس بہانے سے خود کو تسلی دے
لیتے ہیں، یہ داستان ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے شاید موثر ہو!
ایک شخص رات گئے تھکا ماندہ جھلایاہوا گھر پہنچا تو اس نے اپنے سات سالہ
بیٹے کو دروازے پر کھڑا ہوا پایا۔
”بابا....!“ بیٹے نے کہا۔”میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟“
”ہاں، ہاں،کیوں نہیں!پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“
”بابا! آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہیں؟“بیٹے نے پوچھا۔
”کیوں کیا بات ہے؟“ باپ نے کہا۔ ”تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”ایسے ہی، میں بس جاننا چاہتا ہوں۔“ بیٹے نے کہا۔ ”پلیز مجھے بتائیں کہ آپ
ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہیں؟“
”میں ایک گھنٹے میں سو روپے تک کما لیتا ہوں۔“ باپ نے سادگی سے بتایا۔
”اوہ....“ بچے نے یہ سن کر سر جھکا لیا، پھر نظریں اٹھا کر بولا:
”پلیز ڈیڈی! کیا آپ مجھے پچاس روپے ادھار دے سکتے ہیں؟“
باپ یہ سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ ”اگر پوچھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم کچھ رقم
ادھار مانگ کر کوئی فضول سا کھلونا خرید لو، یا کوئی دوسرا احمقانہ کام کرو
تو سیدھے اپنے کمرے میں جار کر بستر پر لیٹ جاؤ۔ کیا میں دن رات محنت مشقت
اس لیے کرتا ہوں کہ تمہاری نامعقول خواہشات پوری کرتا رہوں؟“
بچہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر لیا۔
وہ شخص بیٹھ گیا اور بچے کے سوال پر غور کرنے لگا۔ اس کا غصہ فزوں ہو گیا۔
یہ کس قسم کا بچہ ہے کہ چند روپے کے لیے اس نے اِ س قسم کا سوال کیا؟
کچھ دیر بعد جب وہ پرسکون ہو گیا تو اسے پھر اپنے بیٹے کا خیال آیا۔ ہو
سکتا ہے کہ بچے کو واقعی کسی خاص چیز کی ضرورت ہو۔ وہ تو شاذونادر ہی پیسے
مانگتا ، یا کوئی فرمائش کرتا ہے۔
وہ اٹھ کر بیٹے کے کمرے کی جانب چل دیا اور دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
”تم سو رہے ہو بیٹے؟“ اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے آواز دی۔
”میں جاگ رہا ہوں۔“بچے نے جواب دیا۔
”میں نے سوچا ہے بیٹے، شاید اس وقت میرارویہ قدرے تلخ ہو گیا تھا۔“ اس شخص
نے کہا۔ ”دن بھر کی محنت نے مجھے تھکا دیا تھا اور میں نے جھنجلاہٹ تم پر
اتار دی۔ یہ لو پچاس روپے۔“
باپ کو اس وقت خاصی تشفی ہوئی جب اس نے بیٹے کے چہرے پر خوشی کے رنگ ابھرتے
دیکھے۔
وہ چھوٹا بچہ اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور مسکراتے ہوئے بولا، ”اوہ
شکریہ بابا!“ اس کی آواز قدرے بلند تھی۔ پھر اس نے اپنے تکیے کے نیچے ہاتھ
ڈالا۔ جب ہاتھ باہر نکلا تو اس میں چند مڑے تڑے نوٹ دبے ہوئے تھے۔
یہ دیکھ کر کہ بیٹے کے پاس رقم پہلے سے موجود ہے، باپ کا غصہ عود کر آیا۔
بچہ آہستہ آہستہ رقم گننے لگا۔ پھر اس نے سر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے
باپ کی طرف دیکھا۔
”بابا!“ وہ بولا۔
”ایک منٹ۔“ باپ نے کہا، ”جب تمہارے پاس پیسے پہلے سے موجود تھے تو پھر
تمہیں مزید رقم کس لیے چاہیے تھی؟“
”اس لیے کہ وہ ناکافی تھی، لیکن اب پوری ہو گئی ۔“ بچے نے جواب دیا۔
”اب میرے پاس پورے سو روپے ہیں۔ کیا میں آپ کے وقت کا ایک گھنٹہ خرید سکتا
ہوں؟ پلیز کل ذرا جلدی گھر آ جائیے گا۔ میں رات کا کھانا آپ کے ساتھ کھانا
چاہتا ہوں۔“(انگریزی سے انتخاب) |