2فروری 2005ئ
از،فرہاد۔۔۔سرحد پاکستان
جان سے پیاری شیرین سدا مسکراتی رہو۔
بعد از سلام عرض ہے کہ تمہارا محبت نامہ ملا ،یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ
تمہیں لکھنا پڑھنا بھی آتا ہے ،جانو تم ہیر کے وجہ سے پریشان ہونا چھوڑ دو
،کیونکہ میرا اور ہیر کا ملن ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ،بات
کچھ یوں ہے کہ پچھلے سال مری میں میری ہیر سے اتفاقاً ملاقات ہوئی تھی ،کیا
بتاوں میں تو اُسی وقت لٹو ہوگیا تھا ،لیکن اُسکا لنگ پہننا مجھے قطعاًپسند
نہیں تھا ،بات چیت کے دوران اُس نے خود ہی شادی کی آفر کرکے میری مشکل آسان
کردی تھی ،میری تو باچھیں کھل گئی تھی ،لیکن میں نے اُس سے کہا کہ اگر وہ
میری خاطر لنگ پہننا چھوڑ دے تو میں شادی کے لیے تیار ہوں ،لیکن اُس نے
نہایت سختی کے ساتھ کہا کہ میں مر جاؤں گی لیکن لنگ کو نہیں چھوڑوں گی ،یہ
ہماری ثقافت اور پہچان ہے ،اس کے لیے میں کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کر سکتی
،اگر میں تمہیں لنگ سمیت قبول ہوں تو ٹھیک ورنہ اپنا رستہ ناپو ۔اور اس طرح
میری دال نہ گل سکی ۔ اچھی خاصی بات چلی تھی لیکن اس ظالم لنگ نے سب کچھ
بگاڑ دیا ۔البتہ کچھ عرصہ بعد اُس نے دوبارہ آفر کی کہ ٹھیک ہے میں تمہاری
خاطر لنگ کوچھوڑدوں گی لیکن میری بھی شرط ہے کہ میں ہمیشہ پینٹ پہنونگی
لیکن شلوار کبھی نہیں اپناؤں گی ۔میں نے ہنس کر کہا ۔باولی ۔کیا تم سرحد
والوں کو نہیں جانتی، قسم سے وہ تو میرے گھر پر ٹکٹ لگا دیں گے ، اور جب تم
کنویں سے پانی لانے باہر جاؤگی تو مٹکے کے ساتھ پینٹ میں بلکل بابراراج لگو
گی ،مانا کہ پشتو فلموں میں یہ سب کچھ دیکھایا جاتا ہے ،لیکن جانو حقیقت
اسکے برعکس ہوتا ہے ۔یہ سُن کر اُس نے مجھے ٹینگا دیکھا یا اور مٹکتی ہوئی
واپس چلی گئی ۔ڈیر شیرین میں صرف تم سے پیار کرتا ہوں ،مجھے معلوم ہے کہ
مجھے نہ لیلیٰ راس آئے گی اور نہ ہیر ، مجبوراً تم ہی ٹھیک ر ہو گی ۔حالانکہ
تمہارے ناک کا نت مجھے بہت بُرا لگتا ہے خدا کا واسطہ اسے ناک سے اتار کر
اب ناف میں لگا لو ،آج کل یہی فیشن چل رہا ہے،جانو تم مجھے اپنے رندے ،ہتھوڑے
اور ہاری سے زیادہ عزیز ہو ۔ لیکن کیا کروں تمہارے کاکا جی سود پر سود
بڑھاتا جارہا ہے تاکہ میں تمام عمر قرضہ ادا نہ کر سکوں اور تمہارا محتاج
بنا رہوں ،لہذا تم ہی ٹھیک ہو، ورنہ میری نظر سے دیکھو تو تم میں اور ایٹم
بم میں صرف اتنا فرق ہے کہ و ہ پھٹ جا تا ہے اور تم میں یہ خوبی نہیں ہے ،تم
بُدو جیسی ہو، اس لیے میری ان باتوں کا برامت ماننا ۔دراصل میں تمہاری
تعریف کررہا ہوں ،ڈارلنگ میں جانتا ہوں کہ مجھے تم سے ہی شادی کرنی پڑے گی۔
لہذا تم ہی سے پیا رکرتا ہوں ۔مجنوں ،رانجھا سب اپنی اپنی جگہ سیٹ ہیں ، جس
طرح کی محبت مجنوں کرسکتا ہے ،وہ رانجھا نہیں کرسکتا اور جس طرح رانجھا
کرسکتا ہے، و ہ میں نہیں کرسکتا ،اور جس طرح میںمرغا بن کر تم سے پیا ر
کرتا ہوں ،اس طرح یہ دونو ں نہیں کرسکتے ،لیلیٰ صرف مجنوں کی ہے اور ہیر
رانجھے کی ہے ۔تم میری اور میں تمہارا ہوں۔اسکے علاوہ سب مذاق اور خواب ہیں
۔لہذا آیندہ رانجھے سے رانگ کیا کبھی رائٹ نمبر پر بھی بات مت کرنا ۔باقی
میں ایکسویں صدی کے مجنونوں،رانجھوں ،فرہادوں اور لیلاوں ،ہیروں اور
شیرینوں کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ محبت کی تاریخ میں ہم لوگوں کابڑا نام ہے،
اور ہر معاشرے میں ہماری بڑی عزت کی جاتی ہے ہماری مثالیں دی جا تی ہے ،لہذا
۔۔ایکسویں صدی کے عاشقوں اگر محبت کرنی ہے تو ہماری طرح قربانی ،ایثار اور
جان نثاری کے جذبے کی ساتھ خواہشات سے عاری سچی اور ابدی محبت کرو ،اپنی
خواہشات ،شیطانی پیاس اور حرص کو محبت کا نام دے کراس پاک رشتے کو بدنام
اور ہمیں شرمندہ مت کرو ،محبت کرنی ہے تو اپنی محبت کے لیے قربانی دینا
سیکھو،فدا ہونا سیکھو ، سماج کو مورد الزام ٹہرا کر محبوب کو گھر سے اغوا
کر کے اپنے پیاروں کی رسوائی کا سبب بنو اور نہ ہی خاندانوں کے درمیان خونی
دشمنیو ں کی وجہ بنو ،محبت کرنی ہے تو محبت کی لاج رکھنا سیکھو نہ کہ کورٹ
میرج کرکے اس پاک رشتے کے لیے اپنے بزرگوں اور قوموں کی بدنامی کا سبب
بنو،محبت کرنی ہے تو کسی کے صورت ،دولت اور شہوت سے نہیں بلکہ سیرت اور
اخلاق سے کرو ،کیونکہ سیرت اور اخلاق سے کی گئی محبت پر نہ تو خزان آتا ہے
اور نہ وہ کبھی کم ہو تی ہے ۔ جبکہ صورت ،دولت ،حُسن آنی جانی شے ہے ۔۔۔اچھا
شیرین جان اب اجازت چا ہتا ہوں زندگی رہی تو با قی باتیں بعد میں کریں گے ،خدا
حافظ
صرف تمہارا ۔۔فرہاد |