ہندوستان پر سات سو سال حکومت
کرنے والی مسلم قوم جس نے پورے عالم میںہی نہیں بلکہ ملک میں قدم قدم
پراپنی کامیابیوں کے پرچم لہراتے ہوئے لال قلعہ ،جامع مسجد، تاج محل اور
قطب مینار جیسی سینکڑوں عظیم او ریادگار عمارتوں کی تعمیر کی ہو، 1857
سے1947 تک ملک کی آزادی میں مرکزی کردار ادا کیا ہو‘ وہ قوم محض 65سال میں
حکومت کی بے رخی کی بدولت دلتوں سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم، سرکاری
نوکری، کاروبار اور حکومت میں حصہ داری میں اس کا تناسب درس عبرت بن چکے
ہیں۔مسلمانوں کی ترقی کیلئے بعض مسلم او رسیاسی تنظیمیں نوکری اور سیاست کے
میدان میں ریزرویشن کی مانگ کررہی ہیں جس کے مطابق مسلمانوں کوآبادی کے
تناسب سے ریزرویشن دیا جانا چاہئے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے ریزرویشن سے
مسلمانوں کا بھلا ہوگا۔ ملک میں ایک ارب اکیس کر وڑ کی آبادی میں مسلمانوں
کی تعدادغیر سرکاری سطح پرمحض 35 کروڑ تصور کی جاتی ہے۔مرکزی کانگریس قیادت
والی یوپی اے سرکار نے پانچ اہم ریاستوں میں جن میں اترپردیش بھی شامل ہے،
اسمبلی چناﺅ سے پہلے جو آئندہ سال کے اوائل میں ہونے والے ہیں ایک چال چلی
ہے جس کے تحت سرکار نے کہا ہے کہ وہ نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں پسماندہ
مسلمانوں کیلئے کوٹہ مقررکرنے پر غورہی نہیں کررہی ہے بلکہ جلد ہی اس سلسلہ
میں کوٹہ کا اعلان کیا جائے گا جبکہ بات شروع ہوئی تھی زعفرانی دہشت گردی
سے۔ بقول دگ وجے سنگھ کانگریس کی دھر پکڑسے پریشان ہوکرزعفرانی ٹولے نے
کانگریس کے خلاف بدعنوانی کا شوشہ چھوڑا۔ اس کے جواب میں کانگریس نے خوردہ
شعبہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا فلیتہ دکھا دیا۔ ابھی اس کادھواں دھارشور
بند بھی نہیں ہوا تھا کہ مسلم ریزرویشن کا گڑھا مردہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا
ہے جسے ہر سیاسی پارئی اور سر کردہ شخصیت اپنے انداز میں بھنانے کے درپے ہے۔
اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو کتنا فائدہ ہوگا ، وہ تو نتائج
بتائیں گے لیکن اس کے بہانے ملک کی مسلم کمیونٹی کو بظاہرفائدہ ضرور ہونے
جا رہا ہے۔ الیکشن نزدیک آنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو نوکریوں میں ریزرویشن
کی کاغذی کارروائی تقریبا مکمل ہونے کو ہے۔ اشارہ صاف ہیں کہ اتر پردیش
انتخابات سے پہلے حکومت پسماندہ طبقات کے کوٹے سے ہی مسلمانوں کو بھی
ریزرویشن کا اعلان کر دے گی۔
حکومت اور کانگریس کے پالیسی سازوں کی مانیں تو اتر پردیش اسمبلی کے
انتخابات بھی آئندہ فروری میں اتراکھنڈ اور پنجاب ریاستوں کے ساتھ ہی ہو
سکتے ہیں۔ ایسے میں مسلم ریزرویشن کے معاملے میں اب اور تاخیر نہیں ہوگی۔
کانگریس کی انتخابی تیاریاں بھی اسی لحاظ سے چل رہی ہیں جس میں اس کی سب سے
زیادہ توجہ اتر پردیش پر ہے۔ ذرائع کے مطابق مرکزی اقلیتی امورکی وزارت نے
مسلم ریزرویشن پر اپنی کوشش پوری کر لی ہے۔ اس نے رنگ ناتھ مشرا کی قیادت
والے مذہبی اور لسانی اقلیتوں کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر مسلم ریزرویشن کے
معاملے میں تمام ریاستوں اور تقریبا دو درجن مرکزی وزارتوں سے ان کی رائے
مانگی تھی۔ اسی کی روشنی میں وہ سچر کمیٹی کی سفارشات اور آندھرا پردیش ،
کرناٹک اور کیرالہ میں نافذ مسلم ریزرویشن کا بھی تجربہ کر چکی ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ مسلم ریزرویشن پر ساری کوشش کے بعد حکومت پسماندہ طبقات
کے 27 فیصد ریزرویشن میں سے ہی اقلیتوں کو پسماندہ سمجھتے ہوئے 8.4 فیصد
ریزرویشن کے انتظام کو سب سے ’مفید ‘مان رہی ہے جس میں چھ فیصد مسلمانوں
اور 2.4 فی صد باقی اقلیتوں کیلئے ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے پر سماج وادی پارٹی
‘ راشٹریہ جنتا دل اور جے ڈی یو جیسے غیر کانگریس جماعتوں کے پسماندہ
لیڈروں کی مخالفت کا خدشہ بھی حکومت کولاحق ہے۔ کانگریس انتخابی لحاظ سے اس
میں بھی اپنا فائدہ اور مخالفین کا نقصان دیکھ رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
پسماندہ لیڈروں نے اگر اس کی مزید مخالفت کی تو حکومت کے سامنے ریزرویشن کی
موجودہ دفعات میں تبدیلی کے لئے آئین ترمیم کے سوا کوئی راستہ نہیں
ہوگاتوحکومت اس حد تک جا سکتی ہے۔اوزیرقانون وانصاف اور اقلیتوں کے فلاح
وبہبود کے وزیرسلمان خورشید نے بھی جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں
صحافیوں سے کہا تھاکہ حکومت نے مسلم ریزرویشن کا جو وعدہ کیا تھا اب اس کے
ایفاءکا وقت آ گیا ہے۔ مرکزی کابینہ اس پر جلد ہی فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے
اس بابت فیصلہ کا مقررہ وقت نہیں بتایا ہے۔سلمان خورشید کی مانیں تو سرکار
دوسرے پسماندہ طبقات کیلئے مقرر27فیصد کوٹے کے اندر مسلمانوں کیلئے کوٹہ
تقرر کرنے سے متعلق جلد ہی فیصلہ کرے گی۔ انہوںنے پارلیمنٹ کے باہر اخباری
نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں 27فیصد کوٹہ ہے
اور حکومت پسماندہ مسلمانوں کیلئے کوٹہ مقرر کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔
وزیرموصوف کے مطابق اب ہم پارلیمنٹ میں اپنی میعاد کے ڈھائی سال مکمل کرچکے
ہیں اس لئے جو ہم نے جو بھی وعدے کئے ہیں‘ ان پر کام شروع کردیاہے تاکہ ہم
اب اپنے وعدوں کو پورا کریں جلد ہی پسماندہ مسلمانوں کیلئے کوٹہ کی فراہمی
کے معاملہ کو کابینہ میں پیش کردیںجبکہ یہ معاملہ پچھلے دوبرس سے حکومت کے
ایجنڈے پر ہے اور یہ فیصلہ زیرالتواءہے ۔ اترپردیش کی وزیراعلیٰ مایاوتی
مسلمانوں کو تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں ریزرویشن دیئے جانے کے حق میں
ہیں۔ انہوںنے اس سلسلہ میں وزیراعظم کو دوبار خط بھی ارسال کئے ہیں۔
مایاوتی کا کہنا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن ملنا چاہئے۔
ان کی اس مانگ کو یوپی اسمبلی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔یہ
کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ریاست میں30اضلاع کی 403سیٹوں میں سے ایک چوتھائی
سیٹوں پر مسلم رائے دہندگان فیصلہ کن کردار میں ہیں۔ |