کہتے ہیں محبت اور نفرت ایسے
جذبات ہیں جو لا حق ہو جائیں تو انتہاﺅں کو چھونے لگتے ہیں۔محبت تعمیر اور
نفرت تخریب کا استعارہ ہے۔محبت سنا ہے خدا ہے اگر محبت خدا ہے تو نفرت کا
کچھ تعلق شیطان سے بھی ضرور ہو گا۔عنوان سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ مبادا ہم
نے اپنا تعلق اس بد بخت سے جوڑ لیا ہے جو اصل میں محبت کا مارا ہوا ہے۔اللہ
کی محبت میں اہل دل کہتے ہیں کہ اس نے اللہ کا حکم بھی نہیں مانا۔اس کا
کہنا تھاکہ سر جھکے گا تو صرف اللہ کے آگے۔کسی اور کے آگے سر جھکانے سے
بہتر ہے کہ تا ابد جہنم کی آگ میں جلا جائے اور انہیں بھی جلایا جائے جنہوں
نے اللہ کے اس حق میں شراکت داری کی گستاخی کی تھی۔محبت میں محب کی مانی
جاتی ہے اس بدبخت کو محبت کے سارے گر پتہ تھے لیکن وہ پہلا اصول بھول گیا
کہ محب کی مرضی ہی محبت کی بنیاد کا پہلا پتھر ہے۔اس نے محبت تو بہت کی
لیکن جب امتحان کا وقت آیا تو منہ کے بل گرا کہ وہ محبت کی حدوں کو توڑتا
تکبر اور خود پسندی کی سرحدوں میں جا گھسا تھا۔تکبر تو پھر اس کے اور میرے
رب ہی کو زیبا ہے۔
ہم انسان ،ہم مسلمان ،ہم پاکستانی یہ سب محبت ہی کے تو استعارے ہیں۔انسان
کو اللہ نے جب پیدا کیا تو اپنی سار ی محبتیں اس پہ نچھاور کر دیں۔اسے اشرف
المخلوقات کا تاج پہنا کے اعلان کیا کہ یہ میرا نائب ہے۔اسے علم دیا عقل
اور پھر اختیار بھی ۔کہ عقل اور اختیار کو علم کے واسطے سے استعمال کر کے
بہتر نتائج حاصل کر سکے۔پھر اس کا یہ احسان کہ ہمیں اپنے سب سے محبوب انسانﷺ
کی امت میں پیدا کیا۔اللہ کریم ،وہ بے نیاز اللہ جس نے انسان کو کیا کچھ
عطا نہیں کیا پر احسان نہیں جتایا لیکن اپنے محبوب کو جب دنیا میں بھیجا تو
احسان جتایا کہ میں نے اپنے رسولﷺ کو مومنین میں بھیج کے ان پہ ا حسان
کیا۔یہ محبت کا ایک اور اظہار تھا۔ہمارے نصیب میں محبت کا ایک اور
استعارہ۔ہم پاکستانی !آج تو لوگ پاکستان بنانے کے بہت سارے مقاصد بتاتے ہیں
لیکن جب یہ مملکت خداد داد تخلیق ہو رہی تھی تو ہر ایک کی زبان پہ بس ایک
ہی نعرہ تھا۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔
پاکستان کی اساس اس کی بنیاد محبت تھی۔انسانیت کے ساتھ،اسلام کے ساتھ اور
پاکستان کے ساتھ۔سفر شروع ہوا تو ہمارا ازلی دشمن شیطان اپنی تمامتر نفرتوں
کے ساتھ پاکستان میں آ براجمان ہو ا اور اس کے ساتھ اس کے گر گے بھی۔پھر جو
ہواوہ آپ سب کے سامنے ہے۔اللہ کریم نے ہمیں عقل دی تھی اختیار دیا تھا اور
ہندوﺅں کے ساتھ رکھ کے ہمیں استحصالی طبقات کی بربریت کا علم بھی دیا تھا
لیکن شروع دن ہی سے ہمارے اختیار ہمارے علم اور ہماری عقل کو کسی نے گھاس
ہی نہیں ڈالی۔شیطان کے چیلے ہی تریسٹھ سال تک ہم پہ حاوی رہے۔انہوں نے ہم
سے ہمارا سب کچھ چھین لیا۔ہم محبت کرنے والے تھے۔انہوں نے ہماری محبتوں کو
نفرتوں میں بدل دیا۔ہم دیانت دار تھے انہوں نے ہمیں بتدریج بد دیانتی کا
شہکار بنا دیا۔ہم کام چور نہیں تھے انہوں نے ہمیں بیرونی امداد کی چوری
کھلا کھلا کے کام چور بنا دیا۔ہم اپنے وطن سے محبت کرنے والے تھے انہوں نے
وطن ہی کے ٹکڑے کر ڈالے۔قائد کی جیب کے یہ کھوٹے سکے قائد کی وفات کے بعد
سکہ رائج الوقت ہو گئے۔یہی کھوٹے سکے شکلیں بدل بدل کے اثاثوں کی بندر بانٹ
میں مصروف رہے اور عوام اسی بات پہ خوش کہ ہم ہندو سے آزاد ہو گئے
ہیں۔پھرجب ان کا گند حد سے بڑھ گیا توان کے گند میں حصہ دار انہیں ایبڈو کر
کے خود ایوب خان آگیا۔پاکستان میں پہلی بار کھانا تو ملنے لگا لیکن بھونکنے
پہ پابندی لگ گئی۔ شخصی حکومت میں ہم جیتی جنگ ہار گئے۔ہمارے دریا بک
گئے۔ایوب خان جو خود ایک رسالدار کا بیٹا تھا لیکن اس کی اولاد گندھارا
انڈسٹریز کی مالک بن گئی۔پھر عوام جن کے پاس اختیار تھا لیکن اسے استعمال
کی اجازت نہ تھی اپنے حق کے لئے سڑکوں پہ آئے تو یحییٰ اپنی تماتر نحوست کے
ساتھ ان پہ مسلط ہو گیا۔اس نے پہلی دفعہ آزادانہ الیکشن کروائے تو عوام کی
اجتماعی بصیرت نے بہترین فیصلہ کیا۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ جیتی تو
مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی۔ بھٹو نے کلی اقتدار کے لئے مشرقی پاکستان
جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کر دیا۔اس کے جواب میں بنگالیوں نے
اندرا گاندھی کے ساتھ مل کے پاکستان ہی توڑ ڈالا۔بھٹو آیا تو عوام کو لگا
کہ اب ان کی بھی سنی جائیگی۔اس کے بعد بھٹو سے ایک غلطی ہو گئی۔وہی غلطی جو
آج کل عمران خان بھی کر رہا ہے۔اس نے پارٹی کے کارکنان اور بانیان کو ایک
طرف کیا اور Electables" "کو اندھا دھند پارٹی میں شامل کرنا شروع کر
دیا۔انہوں نے بھٹو کے کرد گھیرا تنگ کیا اور پھر آخر کار اس کی گردن کے گرد۔
اس کے بعد پھر بے اختیار ی کا ایک سیاہ اندھیرا ضیاءنام رکھ کے ہم پہ مسلط
ہو گیا۔فرقہ اور گروہ بندی کی جس آگ میں آج پاکستان جل رہا ہے یہ اسی ضیائی
اندھیرے کا رد عمل ہے۔اس نے جس طرح امریکی پیسے پہ پاکستان کی تخلیق ہی کے
مخالف ایک فرقے کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھمائی اس نے پاکستانی معاشرے کی
بنیاد ہی ہلا کے رکھ دی۔درمیان میں ایک نام نہاد جمہوری دور بھی آیا۔بے
نظیر کے آنے سے آصف زرداری کی حالت تو بدلی کہ وہ زیرو پرسنٹ سے دس پرسنٹ
ہو گیا لیکن عوام کی بھوک اور ننگ میں کوئی کمی نہ آئی۔نواز شریف کا دور
ایک لحاظ سے سنہری دور ہے لیکن بدقسمتی سے صرف شریفوں کے لئے۔بد معاشوں
یعنی عوام کے لئے ا س دور میں بھی ایسا کچھ نہ ہو سکا کہ لوگ مشرف کے آنے
پہ اٹھ کھڑے ہوتے۔بلکہ مشرف تو شاید خود بھی اپنے کئے پہ شرمندہ تھا۔اگر
چند ہزار کا ایک جلوس ہی اسلام آباد کی سڑکوں پہ آ جا تا تو مشرف اور اس کے
حواری جرنیل اپنی عزت بچا کے اپنی بیرکوں میں لوٹ جاتے۔تین دن تک پوری قوم
کو سانپ سونگھارہا۔مشرف کا ایجنڈا شاندار تھا۔ہم نے سوچا چلو گند صاف ہو
جائے گا۔گند تو خیر کیا صاف ہونا تھاالٹا بروںمیں سے بھی برے چن کر انہیں
ہمارے سروں پہ بٹھا دیا گیا۔سونے پہ سہاگہ دجال کی بارگاہ میں مشرفی
سجدہ۔اس نے پاکستان کی غیرت حمیت خود مختاری اور آزادی کی مٹی پلید کر کے
رکھ دی۔ہم نے وہ بھی دیا جو اس شیطان بزرگ نے مانگا بھی نہیں تھا۔دہشت گردی
کے خلاف نہیں دہشت گردی کی اس جنگ نے گلی گلی محلے محلے شہیدوں کی ایک ایسی
فصل اگائی جس کی خوشبو ایک مدت تک ہمارے حواسوں پہ چھائی رہے گی۔مشرف بھی
گیا اور پھر آیا وہ شخص جس نے پاکستانی مروجہ سیاست میں سارے ٹھگوں کو مات
دے دی۔
ہم انسان ہم مسلمان ہم پاکستانی،ہمارا اختیار ہمارا علم اور ہماری عقل وہ
کہاں گئی۔ان متذکرہ ظالموں نے ہمارا سب کچھ چھینے رکھا۔یہ آج بھی ہمارے سر
پہ مسلط ہیں اور اس وقت تک مسلط رہیں گے جب تک ہم خود اپنی حالت بدلنے کا
عہد نہ کر لیں۔ہمیں عمران سے محبت نہیں آپ سے نفرت ہے۔آپ کی ذات سے نہیں،
آپ کے اس بدبودار استحصال سے،آپ کی اس متعفن خود غرضی سے،آپ کی اس احمقانہ
سوچ سے کہ آپ ابھی بھی ہمیں بے وقوف بناتے رہیں گے اور ہم اسی آسانی سے بے
وقوف بنتے رہیں گے۔ہم عمران سے بھی اس وقت تک ہی محبت کریں گے جب تک یہ
ہمارا لیڈر ہے۔ جب اس نے بھی ہمیں چھوڑ کے Electables" " کا ہاتھ تھاما تو
ہم اسے بھی عوام کو بے وقوف بنانے کی آپ کی ایک چال سمجھیں گے۔ اب ہم روٹی
کپڑا اور مکان نہیں اپنا حق اور اختیار مانگتے ہیں۔ |